انگریزی زبان میں ایک محاورہ ہے
Disaster is a blessing in disguise
آفت ایک بھیس بدلے ہوئے رحمت ہوتی ہے ۔
جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر شر میں خیر کا کوئی پہلو پوشیدہ ہوتا ہے ۔ کسی پر کوئی مصیبت آئے تو اسے تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بھی کوئی بہتری ہو گی ۔
ہمارے ایک ہم جماعت ایم بی بی ایس فائنل میں تین بڑے مضامین میڈیسن ، سرجری اور گائنی ابس میں فیل ہو گئے تو ایک پاس ہو جانے والے دوست نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی کوئی بہتری ہو گی تو انہوں نے حرف تسلی کے جواب میں وہ حروف دشنام ادا کیے کہ وہ صاحب زندگی بھر کسی کو ان الفاظ میں تسلی نہیں دیں گے۔
بہرحال آفت اگر واقعی رحمت ہوتی ہے تو صرف ہمارے حکمران طبقے کے لیے ہوتی ہے جسے ہم اشرافیہ یا رولنگ ایلیٹ کہتے ہیں ۔ ایک تو سیلاب زدگان کے لیے اور ریلیف ورک کے لیےجو مالی امداد آتی ہے وہ اسی طبقے کے ہاتھوں میں دی جاتی ہے جو سیاست دانوں ، نوکر شاہی اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے جو اتھارٹی بنائی گئی ہے اس پر قابض اشرافیہ پر مشتمل ہے اور اس کا جو حشر ہوتا ہے اس کے بارے میں مجھے لب کشائی کی ضرورت نہیں آپ سب بہتر جانتے ہیں ۔ ایک تو یہ ہو گیا دوسرے یہ کہ سیلاب کے نقصانات کی مد میں ان کے اربوں روپوں کے زرعی اور صنعتی قرضے معاف کر دیے جاتے ہیں ، ان صاحبان کو نقصانات کی انشورنس کی مد میں بھی بہت کچھ ملتا ہے اور ازالے کی مد میں بھی اور پھر نئے قرضے بھی۔ عام آدمی ایک نئی، کٹھن اور نہ ختم ہونے والی کشمکش اور جدوجہد میں الجھ جاتا ہے ۔
اس کا حکمران طبقے یا بالادست طبقے کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ محکوم طبقہ مزید کمزور ہو جاتا ہے اور اس کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہ جاتا ۔ ویسے تو جس عہد تک کی تحریر شدہ تاریخ ہمیں ملتی ہے ہمیں انسانی سماج دو طبقات پر ہی مشتمل نظر آتا ہے حاکم اور محکوم اور آج تک وہی سلسلہ چلا آتا ہے کیپٹلسٹ کلاس اور ورکر کلاس یا بورژوا اور پرولتاریہ کلاس یا طبقہ انسان کی معاشی حیثیت طے کرتی ہے ، اگرچہ نوبلٹی یا خاندانی وجاہت کا بھی اس میں کردار ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی نام نہاد خاندانی اشراف مالی مسائل کا شکار ہوں اور سنبھل نہ سکیں تو وہ ڈی کلاس ہو جاتے ہیں مطلب یہ کہ نچلے طبقے میں آ جاتے ہیں اور کوئی لوئر کلاس کا شخص دولت مند ہو جائے تو وہ اپر کلاس یا بالائی طبقے میں شامل ہو جاتا ہے ، ذرا ملک اور صوبے کے حاکموں کو دو تین نسل پیچھے جا کر دیکھیے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کی کلاس سرمایہ طے کرتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت سماجی معاشی یا سوشو ایکنامک حوالے سے چار کلاسیں یا طبقات ہیں۔اپر کلاس جو سرمایہ داروں پر مشتمل ہے ، صنعتکار ، بڑے تاجر ، ان میں آپ جاگیر داروں کو بھی شامل کر لیں۔ا پر مڈل کلاس جس میں بزنس اور انڈسٹریل کارپوریٹس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ایگزیکٹوز ، بڑے ڈاکٹر انجینئر وکیل ، جج ، اعلیٰ فوجی افسر اور اچھے عہدوں یا ایسے چھوٹے عہدوں جہاں رشوت ستانی کے بھرپور مواقع ہوتے ہیں ان پر فائز سرکاری ملازم اور درمیانے درجے کے تاجر شامل ہیں۔وئر مڈل کلاس چھوٹے سرکاری ملازم کلرک استاد پرائیویٹ اداروں کے کلرک ٹیکنیشن فوج اور پولیس کے نچلے درجے کے ملازم شامل ہیں۔لوئر کلاس یا نچلا طبقہ جس میں کارخانوں اور منڈیوں میں کام کرنے والے مزدور ، کھیت مزدور ، بیروزگار ، ہاکرز وغیرہ شامل ہیں۔
بیچاری لوئر مڈل کلاس کوئی عجب کلاس ہے ، اس کے وسائل لوئر کلاس یا اس سے کچھ بہتر ہوتے ہیں اور خواہشات اپر مڈل کلاس والی ہوتی ہیں اور اسی کشمکش اور کمپلیکسز میں یہ پوری زندگی گزار دیتی ہے ۔ یہ یاد رکھیے کہ اپر کلاس ہر قیمت پر ، ہر جائز ناجائز طریقے سے اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتی ہے اور اس میں اپرمڈل کلاس اس کی معاون ہوتی ہے ۔ یہ منہگائی ، سیاسی اور سماجی اشوز، مذہبی اختلافات ، یہاں تک کہ بین الاقوامی معاملات پر لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کو الجھا کر رکھتی ہے ۔ ان کے اندر حب الوطنی اور مذہب پرستی کا جنون پیدا کیے رکھتی ہے ۔ اور پھر قدرتی آفات کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے ، حالانکہ قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات بھی کہیں نا کہیں اسی طبقے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ، حالیہ سیلاب کو ہی دیکھ لیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا محکوم طبقہ اپنی اذیتوں اور مصیبتوں کے اسباب سمجھنے کے لیے تیار نہیں ، اس نے خود کو الجھا رکھا ہے ، وہ سنی ہے ، شیعہ ہے ، پنجابی ہے ، سرائیکی ہے ، سندھی یا بلوچ ہے ، لیگی ہے ، انصافی ہے ، پیپلا ہے۔۔۔۔۔ ۔ اور حکمران اشرافیہ مزے میں ہے ۔ یہ موضوع ایک طویل مضمون کا متقاضی ہے جو شاید میرے بس میں نہیں ، بہرحال میں نے کوشش کی ہے دریا کو ۔۔ کوزہ مجھے پسند نہیں ۔۔ ایک تالاب میں بند کرنے کی ۔۔