گذشتہ سے پیوستہ
میٹرک کے ایک دیہاتی طالب علم کو دائیں اور بائیں بازو کا فرق کیا سمجھ میں آنا تھا لیکن ان دنوں مجھے اخبارات و رسائل پڑھنے کا بہت چسکا بلکہ نشہ سا لگا ہوا تھا اس سے یہ اندازہ سا تھا کہ کئی مذہبی سیاسی جماعتوں (جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان، خاکسار تحریک اور مسلم لیگ کے کئی گروپوں وغیرہ ) کو سوشلزم اور بھٹو کے خیالات بہت برے اور پاکستان دشمن و اسلام دشمن لگتے تھے لیکن ہم جیسے عامیوں کے لئے یہ بات اہم تھی کہ بھٹو صاحب سرمایہ داروں کے بائیس خاندانوں اور جاگیرداروں کو بہت برا بھلا کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ملک کی دولت لوٹ کر لوگوں کو غربت کی کھائی میں دھکیل دیا ہے اور وہ عوام کے حقوق واپس دلوانے کے لئے آیا ہے۔ بھٹو کی یہ بات عوام الناس میں سبھی کو سمجھ میں آرہی تھی کہ معاشرہ امیروں اور غریبوں میں بٹا ہوا ہے اور دولت مند امیر تر ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔ اس لئے پاکستان کے عوام غریب سے غریب تر ہورہے ہیں جب کہ امیر ساری دولت سمیٹ کر اپنے گھر بھر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ڈاکٹر محبوب الحق کی تحقیق کی بنیاد پر بائیس بڑے سرمایہ دار گھرانوں کی فہرست جاری کرکے ان کے نام لے لے کر دولت کی لوٹ مار کی مذمت کر رہی تھی جسے عوام میں بہت پذیرائی ملی۔
بھٹو کے جلسوں میں عام لوگوں کی بھرپور شرکت اور پھر بھٹو کی شعلہ بیانی کے اخبارات میں چرچے تھے۔ غریبوں کے حق میں بھٹو کے بیانات اور اس کے بڑے بڑے جلسوں پر گلی کوچوں میں عام لوگ سنجیدگی سے بحث کرنے لگے تھے جو پاکستان میں ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ اب پہلی بار عوام کسی اور ہوائی معاملے کی بجائے خود اپنے حقوق کی بات کر رہے تھے اور عملی طور پر بھٹو کے ہمنوا بن رہے تھے ۔۔۔ یہ سادہ اور صاف باتیں تھیں جو ہمیں بھی سمجھ میں آرہی تھیں ، یہ بھی ذہن میں آیا کہ کارل مارکس بھی ایسی ہی باتیں کرتا ہوگا اور شاید وہ بھی جرمنی کا کوئی سیاسی لیڈر ہوگا جس کے بارے میں اس وقت ایک دیہی قصبے (جلال پور پیروالا ضلع ملتان) میں مجھے کوئی زیادہ معلومات نہیں مل رہی تھیں ۔
ان دنوں کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میرا اور میرے کئی ایک دوستوں کا مشغلہ نمازیں پڑھنے کے علاوہ مولویوں کی تقریریں سننا بھی تھا(شاید اس لئے کہ ان دنوں ہمارے ہاں تفریح کے کوئی زیادہ مواقع میسر نہیں تھے نہ ٹی وی نہ سینیما نہ کھیل کے میدان نہ پارک وغیرہ) سکول ہمارے اس چھوٹے سے شہر میں صرف دو تھے ایک ہائی اور ایک پرائمری لیکن مذہبی مدارس اور مساجد کی ایک بڑی تعداد تھی جن میں اکثر مجالس اور جلسے ہوتے رہتے ، ہر فرقے کے جلسے کا اور موولویوں /علما کی تقاریر کا اپنا انداز تھا اور پھر وہ ایک دوسری کے بارے میں کبھی سخت کبھی نرم اور کبھی طنز و مزاح کے پیرائے میں ایسے ایسے تبصرے کرتے کہ جنھیں سن کر ہمیں بڑا مزہ بھی آتا اور،نئی نئی معلومات بھی ملتیں۔ شیعہ مجالس کا اپنا انداز ہوتا ذاکرین نت نئے گانوں کی طرزوں پر مرثیے ،نوحے اور قصیدے گاتے اور غم و اندوہ کی فضا کا سماں باندھ دیتے تو علما کا طرز خطابت بھی منفرد ہوتا، ان دنوں ہمارا خیال تھا کہ خطابت میں شیعہ علما دوسروں سے منفرد ہیں کیونکہ وہ ذاکرین کی طرح واقعہ بیانی کی بجائے دلیل او منطق کے ذریعے اپنے موضوع کو آگے بڑھاتے اور اکثر وقت گزارنے کےلئے موضوع سے ادھر ادھر ہٹتے بھی نہیں تھے اور بات کا ایک واضح نتیجہ نکالتے جس سے آپ متفق ہوں یا نہ ہوں ۔ اہل حدیث علما انداز میں قرآن و حدیث کے وافر حوالوں کے ساتھ مربوط انداز میں بات آگے بڑھاتے تو سنی علما کا زیادہ زور بیان واقعہ کے بعد درس دینے پر ہوتا اور وہ سیرت نبی سیرت صحابہ اور معروف مذہبی بزرگوں کی زندگی کے واقعات سنا کر اپنے بات میں زور پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ ہمیں بعد میں اندازہ ہوا کہ اس دور میں ہماری اس سرگرمی سے ہم میں غیر شعوری طور پر ایک مذہبی وسعت قلبی سی بھی پیدا ہورہی تھی اور تاریخ اسلام کے ساتھ رغبت بھی بڑھ رہی تھی اس لئے میں نے اسلامی تاریخ (نسیم حجازی کے اسلامی تاریخی ناولوں کے علاوہ) بھی بڑے شوق سے پڑھنا شروع کردی تھی جس پر سکول لائبریری میں بہت اچھی اور کافی کتابیں موجود تھیں ان کے مطالعے سے پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں لباس، طعام رہائش اور کلام میں سادگی اور غریبوں سے آپ کی محبت اور شفقت کی بہت اہمیت تھی اور آپ انہی سادہ دل غریبوں میں اپنا وقت گزار کر آسودگی و راحت محسوس کرتے تھے ( اس وقت بھی جب آپ عرب کے ایک بڑے حصے پر قائم شدہ سلطنت کے سربراہ بھی تھے) حضور کے زندگی کی یہ تفصیلات جاننے کے لئے شبلی نعمانی کی سیرت النبی پڑھ ڈالی۔ آپ کی زندگی کی یہ تفصیلات مجھے بہت اچھی لگتی تھیں اور اب تک ایسی ہی سادگی اور کشادہ دلی دل موہ لیتی ہے۔۔۔ اسی طرح کی باتیں ان کے خلفا راشدین کے بارے میں بھی پڑھیں۔ شبلی ہی کی کتاب الفاروق پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کے بارے میں بھی جانا۔۔۔ میں نے خاص طور پر حضرت علی علیہ سلام کے قول و عمل کی تفصیلات بہت پڑھیں اور آپ کی شجاعت کے علاوہ سادگی علمیت وتفکر اور انصاف پسندی نے بے حد متاثر کیا ان کے علاوہ حضرت ابوذر غفاری ، حضرت بلال اور حضرت عمار بن یاسر کے انداز فکر کے بارے میں بھی پڑھا جن کے بارے میں یہ علم بھی ہوا کہ وہ حضرت علی کے خاص ہم خیال حلقے میں شامل تھے اور دولت کی مساوی تقسیم کو اسلامی انصاف کا تقاضا گردانتے تھے۔
ان کے خیالات کا علم ہوا تو مجھے بھٹو صاحب کی باتیں اس طرح خلاف اسلام ہرگز نہیں لگیں جس طرح جماعت اسلامی کے صالح مبلغین بتایا کرتے تھے یا دیگر علما بیان فرماتے تھے اگرچہ ان میں کئی لوگ میرے محترم اساتذہ محمود علی شاہ، حکیم عبدالطیف اور حکیم غلام علی (اللہ ان کو غریق رحمت فرمائے) اور شیخ محمدفاروق کی طرح کے بھی تھے جنھوں نے کبھی اپنے تدریسی فرض منصبی اور اپنے سیاسی نظریات کو باہم گڈ مڈ نہیں ہونے دیا۔ یہ میری اپنی جستجو تھی کہ میں پڑھنے کی اپنی علت کے باعث ہمہ قسم کتابیں پڑھ رہا تھا۔۔۔ اسی عرصے میں مولانا مودودی کی کتابوں سے بھی شناسائی ہوئی شروع میں انکی دو کتابیں میرے ہاتھ لگیں ایک "خلافت و ملوکیت” اور دوسری "پردہ”۔ یہ دونوں کتابیں مختلف وجوہات سے اچھی لگیں، خلافت و ملوکیت میں اسلامی تاریخ کے ایک بہت اہم مسئلے اور دور کو معروضیت کے ساتھ بیان کرکے زیر بحث لایا گیا تھا جس پر کئی مذہبی حلقوں خاص طور پر دیوبندی سنی مسلک کے مولویوں نے مودودی صاحب کی سخت مذمت شروع کردی تھی، ان میں سےکئی لوگوں سے گفتگو ہوئی تو وہ صرف ایک بات کہتے کہ اس کتاب میں صحابی رسول حضرت معاویہ کے بارے میں غلط اور گستاخانہ باتیں لکھی ہوئی ہیں خاص طور پر یہ کہ انہوں نے اسلامی تاریخ میں ملوکیت کی بنیادیں استوار کیں، یہ بعد میں پتہ چلا کہ اس مخالفت کی وجہ مذہبی نقطہ ہائے نظر کے فرق کے علاوہ سیاسی بھی تھی جس سے ہمیں یہاں سروکار نہیں ۔ مودودی صاحب کا یہ موقف ہمیں اچھا لگا کہ خلفائے راشدین کے دور میں انسانی مساوات اور شوری کا جو تصور تھا وہ بنی امیہ کے دور حکومت میں خواب وخیال ہوا
( جاری ہے)
فیس بک کمینٹ