کل یکم مئی کو پاک ٹی ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین نے شہدائے شکاگو کی یاد میں اور محنت کشوں سے یکجہتی کے لیے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا. اس مشاعرے کے منتظم معروف شاعر اور سوشلسٹ انقلابی جناب عابد حسین عابد تھے. مجھے بھی اس خوبصورت اور بامقصد محفل میں شعر پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا.
4 مئی 1886 کو شکاگو میں محنت کش مزدوری کا دورانیہ آٹھ گھنٹے کرنے کے مطالبے کے ساتھ اکٹھے ہوئے. یہ اجتماع انتہائی پر امن تھا اور مزدور رہنما تقاریر کر رہے تھے. اسی دوران سرمایہ داروں کے کسی ایجنٹ نے ایک پٹاخہ پولیس کی جانب پھینکا. اس کے جواب میں پولیس نے جلسے کے شرکاء پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی. اس کے نتیجے میں سینکڑوں مزدور مارے گئے جن کی درست تعداد کا علم کسی کو نہیں ہے. اس قتل عام کے بعد عوام نے شہداء کے خون آلودہ کپڑوں کو جھنڈے بنا کر جگہ جگہ نصب کر دیا. یوں سرخ رنگ انقلاب کی علامت بن گیا.
کل کے مشاعرے میں شعراء نے شہدائے شکاگو کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا. ان سب نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے سرمایہ داروں کے جبر و استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے رہیں گے. انہوں نے پیغام دیا کہ جمود کا دور ختم ہو چکا ہے اور انقلاب کی راہ ہموار ہو چکی ہے. ظلم کی چکی میں پسے ہوئے محنت کش بیدار ہو رہے ہیں اور سرخ سویرا طلوع ہونے کو ہے.
اس نشست کی خاص بات نوجوانوں کی بھرپور شرکت تھی. نوجوان شعراء کو یقیناً سینیر تخلیق کاروں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہو گا. لاہور میں ترقی پسندوں کے مشاعرے وقفے وقفے سے منعقد ہو رہے ہیں جو ایک بہت خوش آئند بات ہے. اس سے پہلے ترقی پسند تحریک اور پروگریسو یوتھ الائنس کچھ ماہ پہلے ایک کامیاب مشاعرہ کر چکے ہیں.
انقلابی تحریکوں میں شعراء کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے. ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی تقریبات وقتاً فوقتاً منعقد ہوتی رہیں گی اور سوئے ہوئے طبقات کو جگاتی رہیں گی.
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
(اقبال)
فیس بک کمینٹ