ایک سوشلسٹ کو مارکس اور اینگلز کے جدید جدلیاتی اور معاشی فلسفے کو ضرور پڑھنا اور سمجھنا چاہیے لیکن زندگی کے تلخ تجربات اور تضادات اسے جو سکھاتے ہیں وہ علم اور طبقاتی شعور کتابوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
میں بچپن سے اپنے گھر میں اشتراکیت کا ذکر سنتا آیا ہوں۔ ادب اور سیاست سے دلچسپی مجھے وراثت میں ملی ہے۔ مجھے اپنی نوعمری میں فیض، ساحر، فراز، جالب اور جوش جیسے اشتراکیت پسند شعراء کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ظلم اور جبر سے نفرت میرے والد نے مجھے گھٹی میں پلائی تھی۔
مجھے اپنا بچپن اچھی طرح یاد ہے اور اس وقت اپنے والدین کی معاشی مشکلات بھی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ میری دادی مرحومہ، جنہیں ہم سب والدہ کہا کرتے تھے، نے ایک دفعہ پیسے جمع کرنے کے لیے مجھے ایک مٹی کا گلہ دیا۔ میری عمر اس وقت چھ سات برس ہو گی۔ مجھے کہیں سے جو بھی سکے ملتے میں اس گلے میں ڈالتا رہتا۔ دن بہ دن وہ گلہ بھاری ہوتا چلا گیا ۔پھر ایک دن میری امی نے کسی بات پر غصے میں آ کر مجھ سے وہ گلہ چھینا اور زمین پر پٹخ دیا۔ سارے پیسے زمین پر بکھر گئے ۔ امی نے وہ سب پیسے اٹھائے اور شاید سبزی ترکاری وغیرہ پر خرچ کر دیے۔ مجھے بس یہی یاد ہے کہ مجھے ان پیسوں کے جانے کا بہت دکھ ہوا تھا اور میں آج تک وہ دکھ اپنے ساتھ لیے پھر رہا ہوں۔
انہی دنوں میری امی بیمار پڑ گئیں۔ انہوں نے ایک نسخہ اور دس روپے مجھے تھمائے اور قریب کے میڈیکل اسٹور سے دوا لانے کو کہا۔ میڈیکل اسٹور کے مالک میرے والد کے قریبی دوست تھے۔ میں نے دوا کی شیشی خریدی اور دکان سے نکلا ہی تھا کہ شیشی میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی اور ٹوٹ گئی ۔میڈیکل اسٹور کے مالک میرے پاس آئے اور ٹوٹی ہوئی دوا کی شیشی میں بچی ہوئی دوا مجھے دے کر کہا کہ یہ لے جاؤ، جتنی بھی ہے کام آ جائے گی۔ میں دوا لے کر گھر پہنچا تو امی نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا کہ یہ تو نے کیا کیا، میرے پاس تو دوسری شیشی خریدنے کے پیسے ہی نہیں ہیں۔
میرے والد سرکاری ملازم تھے، انہوں نے بہتر ملازمت کے لیے کوئی امتحان پاس کیا تو ہم نچلے طبقے سے متوسط طبقے میں شامل ہو گئے ۔لیکن میں اور میرے والد آج بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری جڑیں نچلے طبقے میں موجود ہیں ۔طبقاتی تضاد کا شعور مجھ تک اپنے گھر کے بدلے ہوئے حالات دیکھ کر پہنچ چکا تھا۔
اس زمانے میں پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی موجود تھے جن میں مڈل اور اپر کلاس کے بچے پڑھتے تھے۔ میرے والد نے جان بوجھ کر اپنے سب بچوں کو پرائیویٹ انگریزی میڈیم اسکولوں کی بجائے سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھایا۔ ہم سب بہن بھائیوں نے ایک سرکاری افسر کی اولاد ہو کر بھی ٹاٹ پر بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میں ایک عرصے تک اپنے والد کی اس سوچ کو نہیں سمجھ پایا لیکن آخر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا مقصد ہم سب کو اپنے اصل طبقے کے ساتھ جوڑ کر رکھنا تھا۔
جب میں میڈیکل کالج میں داخل ہوا تو وہاں مجھے اچانک شدید طبقاتی تقسیم نظر آئی۔ وہاں مجھے اقلیتی امیر طبقہ اکثریتی غریب طبقے پر حاوی نظر آیا۔ اس تضاد نے مجھ پر شدید بےچینی کی کیفیت طاری کر دی اور تعلیم میں اس تضاد کے شدید نفسیاتی اثرات میری صحت پر مرتب ہوئے۔
جب میں نے 2000 میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں ہاؤس جاب شروع کی تو میڈیکل کالج میں نظر آنے والا طبقاتی تضاد یک دم ختم ہو گیا۔ سرکاری ہسپتال میں مجھے صرف اپنے طبقے کے مریض نظر آنے لگے کیونکہ دوسرا طبقہ اپنا علاج کروانے کے لیے کہیں اور جاتا تھا۔ اس وقت مجھے اپنے سامنے ہونے والی بچوں کی اموات بہت معمولی لگنے لگیں ۔ وہاں زیادہ تر بچے متعدی بیماریوں سے مرتے تھے۔ ان جان لیوا بیماریوں میں خوراک کی شدید کمی یا سوکھاپن، ملیریا، گردن توڑ بخار، نمونیا، وقت سے پہلے پیدا ہونے کے بعد لگنے والی بیماریاں، پیدائش کے فوراً بعد نومولود بچوں کو ہونے والی بیماریاں، یرقان اور تشنج وغیرہ شامل تھیں۔ ہمارا کام بچوں کو کینیولا لگانا، انہیں کنسلٹنٹ کی بتائی ہوئی مخصوص ادویات لکھنا اور ڈرپ لگانا وغیرہ ہوا کرتا تھا۔ ہم سارا دن ادھر سے ادھر دوڑتے رہتے اور دل کو یہ تسلی دیے رکھتے کہ اگرچہ بچے مر رہے ہیں لیکن ہم تو اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔
جب میں 2002 میں نشتر ہسپتال میں ایف سی پی ایس پیڈز کی تربیت کے لیے پہنچا تو وقت کے ساتھ ساتھ مجھ پر بہت سے راز منکشف ہونے لگے۔ مجھے پتا چلا کہ۔ جو بچے میں نے آج تک اپنی جانوں سے جاتے ہوئے دیکھے تھے وہ سب بچ سکتے تھے۔ وہ سب بیماریاں قابل علاج تھیں۔ ان اموات کی وجوہات میں سینیر ماہر ڈاکٹروں کی عدم توجہی، بستروں کی شدید کمی اور بنیادی طبی سہولیات کا شدید فقدان شامل تھیں ۔ہم ان بچوں کے لواحقین کو مہنگی ادویات، ڈرپس اور کینیولے وغیرہ لکھ کر دیتے اور کئی لواحقین وہ ادویات خریدنے کے قابل ہی نہ ہوتے۔ نشتر ہسپتال کے باہر میڈیکل اسٹوروں کی تعداد بتاتی ہے کہ اس سرکاری ہسپتال میں مریضوں کے لیے مفت دواؤں کی کتنی شدید قلت ہے۔24 گھنٹے یہ نچلے طبقے کے مریض ہم جونیر ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہوتے اور ہم ان کے ساتھ جو چاہتے وہ کرتے۔ ماہر ڈاکٹر اگلی صبح پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران ہونے والی اموات کی روداد سنتا اور محفل برخاست ہو جاتی۔ ایک ایک بستر پر کئی کئی بچے پڑے رہتے اور بعض اوقات ہمیں ان بچوں کو برآمدے میں زمین پر لٹا کر ان کا علاج کرنا پڑتا۔ کئی بار ڈرپ اسٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے والدین ڈرپ کو بلند کر کے خود اسٹینڈ بن جاتے۔
ایف سی پی ایس کے امتحان میں مجھے ایک اور تضاد یہ نظر آیا کہ جو کچھ ہم پڑھتے تھے وہ ہماری کلینکل پریکٹس سے یکسر مختلف تھا۔ ہم سے وہ پوچھا جاتا جو نام نہاد ترقی یافتہ دنیا میں ہو رہا تھا۔ امتحان دینے والے پوسٹ گریجویٹ طلباء کے لیے غریب بچے مفت عملی مشق کرنے کا ذریعہ ہوا کرتے۔ وہ مشق کر کے ہم بھول جاتے کہ ان بچوں کو کیا مسائل درپیش ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے۔عملی امتحانات میں بھی انہی غریب بچوں کو رکھا جاتا اور ان کی بیماریوں کے بارے میں اوٹ پٹانگ سوالات کیے جاتے۔ سی پی ایس پی مافیا کئی سالوں تک ہمیں امتحانات میں الجھا کر ان مریضوں سے دور رکھتا۔ یہی وجہ تھی کہ پاس ہونے کے بعد پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی غریب مریضوں اور ان کے پیچیدہ معاشی مسائل میں دلچسپی ختم ہو جاتی اور وہ نجی ہسپتالوں میں ان مریضوں پر اپنی توجہ مرکوز کر لیتے جن کا غریبوں کے مسائل سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔
ایف سی پی ایس پاس کرنے کے بعد جلد ہی میں بچوں کے سرطان کے شعبے کی طرف چلا گیا. وہاں جا کر میں نے اکثریتی نچلے طبقے کو کن مسائل میں گھرا دیکھا اور میں کن کن مشاہدات اور تجربات سے گزرا اور گزر رہا ہوں یہ بہت جلد بتاؤں گا۔
فیس بک کمینٹ