انتظار حسین کی ایک کہانی ہے ’بِن لکھی رزمیہ‘،جو تصورِ پاکستان سے منسلک،خواب،امید،توقع یارومان ٹوٹنے کی المناک اداسی کے موضوع پر ہے،پچھوا،کسی پاکستانی رزمیہ کا ہیرو بن سکتا تھا مگر وہ پاکستان آ کر واپس چلا گیا اورپھر کسی ’کفار‘ نے اسے مار کر ایک درخت کے ساتھ لٹکا دیا،مگر کسی کسی نے اس کی ٹوٹی ہوئی گردن تو دیکھی،مگر وہ دل نہیں جو بہت پہلے ٹوٹ چکا تھا۔میَں تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،جب محلہ باغبان کاعبدالغنی دودھ فروش،ان پڑھ ہونے کے باوجود کراچی سے دو اخبار ’انجام‘ اور ’جنگ‘ منگواتا تھا،جس میں شوکت تھانوی اور ابراہیم جلیس مقابلے میں لکھتے تھے، ملتان پہنچنے والے اخبار پر دو دن بعد کی تاریخ ہوتی تھی،اس لئے خبریں باسی ہوتی تھیں،مگر ان کا احساس کبھی کبھار ایک دو، وہ دلاتے تھے ،جو کہیں سے ریڈیو سننے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور جن کی قمیض کے ہر کاج میں بٹن سلامت ہوتا تھا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ پاکستان کے پہلے دستور خور، ڈکٹیٹرسے پہلے کا زمانہ تھا ،اس زمانے میں آزاد عدلیہ کے تصور سے سرشار جج نہیں ہوتے تھے،نہ چیف پر جاں نثار ہونے والے وکیل ہوتے تھے اور نہ کسی قاتل کو پھول پہنانے والے کالے کوٹ،جسٹس منیر کے فیصلے پر کبھی کبھی کوئی طنزیہ فقرہ مشرقی پاکستان کے کسی سیاست دان کی طرف سے نظر آتا تو ہماری سمجھ میں نہ آتا، تاہم اسی زمانہ میں ملتان کے ایک جج شبیر احمد کا ذکر ایک نڈر اور با اصول جج کے طور پر ہونا شروع ہوگیا تھا، غنی شیر فروش نے ہی بتایا کہ نواں شہر سے جو دو راہا،بوہڑ گیٹ اور چوک فوارہ کو جاتا ہے،اس کے ایک طرف جو بڑا سا بورڈ شیخ قدیر احمد ایڈوکیٹ کا ہے،وہ جج صاحب کے بھائی ہیں ۔ اس وقت ایوب کھوڑو کے مقدمے میں جسٹس شبیر احمد کا فیصلہ تو ہمیں سمجھ میں نہیں آیا تھا،مگر یہ ضرور اندازہ ہوا کہ وہ حکومتِ وقت کی منشاکے خلاف ایسے فیصلے کرتے تھے، جو خود بولتے تھے،پھر کئی برس گذر گئے ،تب ریناٹے،کرنل یوسف کیس کا چرچا اخبارات میں ایسے ہونے لگا کہ بات ملتان کے تھڑوں اور چوراہوں میں جا پہنچی،کیونکہ مظلوم گردیزی شوہر، ملتان کا تھا، جس کی غیر ملکی بیوی کو کوئٹہ کے کمشنر کرنل یوسف نے ورغلا لیا تھااور شاید یہ بات بھی نوائے وقت نے چھاپ دی تھی کہ جسٹس شبیر احمد نے ڈکٹیٹر صدر کی چائے کی دعوت کو مقدمے کے فیصلے تک ٹال دیا ہے،اس زمانے میں میَں بھی شادی شدہ خاتون کو ورغلانے والے کو اگر سزاوارِ سنگ سار نہیں تو ناپسندیدہ ضرور خیال کرتا تھا،مگر مجھے یقین تھا کہ ملتانی جج،طاقت وروں کی خبر ضرور لے گا،اس وقت مجھے پتا نہیں تھا کہ ہمارے شہر کی اشرافیہ کی تخلیق اور تربیت میں معاملہ شناس انگریزوں اور بہت شائستہ اور علم دوست طوائفوں کا بھی ایک تاریخی کردار ہے،بہر طور فیصلہ آیا اور پورے ملک میں گونج گیا،کرنل یوسف کو کئی برس قید کی سزا ہوئی،تب میرے نانا جان نے بتایا کہ وہ جج صاحب کے والد کے نیاز مند رہے ہیں اور یہ کہ جسٹس شبیر احمد ایک دو دن کے لئے ملتان آ رہے ہیں،مجھے خود یہ بات ناقابلِ یقین لگتی ہے کہ مجھے ان سے دس سے پندرہ منٹ نانا جان کے ساتھ ملنے کا موقع ملا، میں متوقع ملاقات کے اشتیاق میں ساری رات سو نہیں سکا تھا،اپنے مکالمے تیار کرتا رہا،شعر یاد کرتا رہا،مگر اس سادہ سے درویش کو دیکھ کر میَں ہڑ بڑا گیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا کہ پوری قوم آپ کی جرات کو سلام کر رہی ہے،مجھ میں شاید اس موقع پر کسی صحافی یا سیاست دان کی روح اور زبان حلول کر گئی تھی،جو اپنی رائے کو پوری قوم کی رائے سمجھتا ہے،میرا خیال ہے کہ میں نے اسی طرح کا توصیفی جملہ پھر کہنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بیچ میں ٹوک کے پوچھا،بیٹے کس کلاس میں پڑھتے ہو،سکول کون سا ہے،مضمون کون کون سے ہیں،کون سے ماسٹر صاحب کو زیادہ پسند کرتے ہو،تقریریں خود لکھتے ہو یا کوئی تمہاری مدد کرتا ہے؟ایک آدھ مرتبہ میں نے یہ بتانے کے لئے کہ میں ایک رسالے میں ان کا پورا فیصلہ پڑھ چکا ہوں،ان کے فیصلے کے پہلے فقرے کو دہرانے کی کوشش کی،جسے انہوں نے ملائمت سے ٹال دیا اور میرے گلے میں پڑے اس تعویذ کی تعریف کی جو اپنی اولاد کو ہسپتال میں نہ لے جا سکنے والی ماں کی اس عاجزی کو ظاہر کرتا تھا،جسے بعض لوگ عقیدت کا نام دیتے ہیں۔اس ’ناکام ‘ملاقات کے باوجود ،وہ میرے دل میں وہ اب تک بسے ہوئے ہیں، ان سے محبت وقت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی،تب بھی جب مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے اس فیصلے کو بدل دیا اور جسٹس شبیر احمد کو شہرت کا بھوکا جج لکھا،تب بھی جب شبیر احمد نے جج ہوتے ہوئے بھی ڈویژن بنچ کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل کی[اس بنچ کے ایک جج،عبدالعزیز کا نام یاد ہے] اور کہا کہ میرے ساتھی بِک گئے ہیں اور جھک گئے ہیں،میرے پاس اس کا دستاویزی ثبوت ہے،تب بھی جب چیف جسٹس کیانی نے اس معاملے میں مداخلت کر کے جسٹس شبیر احمد کے بارے میں ریمارکس حذف کرائے،تب بھی جب حکومت نے کرنل یوسف کو بحال کر کے آزاد کشمیر یا شمالی علاقوں کا ایک بڑا افسر لگا دیا،تب بھی جب سینیئر موسٹ جج ہونے کے باوجود جسٹس شبیر احمد کو چیف جسٹس بنایا گیا نہ سپریم کورٹ میں بھیجا گیا،البتہ میَں بچوں کی طرح رویا جب اس ریٹائرڈ جج کو ایک صبح سیر کے دوران ایک فوجی افسر نے چھڑیوں سے پیٹا،تب شاید توہینِ عدالت کا قانون نہیں ہوتا تھا اور نہ کوئی کسی جج کوصدر بنانے کا خواب دکھانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
حال ہی میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور نامور ترقی پسندادیب سید مظہر جمیل کی دو کتابیں اکادمی بازیافت کراچی نے شائع کی ہیں،ایک تو پنڈی سازش کیس میں پہلے نظر بند اور پھر چار برس کی سزا پانے والے پاکستان کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کی بہادر رفیقہ حیات ایلس کے مکاتیب کا ترجمہ’ایلس بنام فیض‘ ہے اور دوسری کتاب ایلس کی آپ بیتی کا ترجمہ ہے جو فرنٹئر پوسٹ نے over my shoulderکے عنوان سے شائع کی تھی،اس میں کچھ قیمتی دستاویزات کو شامل کر کے اس کا نام ’ایلس فیض کی کہانی‘ رکھا گیا ہے،پہلی کتاب کے آخر میں اور دوسری کتاب کے بیچ نام نہاد سزا سے پہلے فیض کی حبس بے جا کی درخواست پر ملتان کے جرات مند جج شبیر احمد کا غیر معمولی ذکر ہے۔
آپ جانتے ہوں گے کہ پنڈی سازش کیس کے ملزموں کو بنگال کانسپریسی ایکٹ 1818 کے تحت گرفتار کیا گیا،پھر اسے قانونی تحفظ دینے کے لئے مرکزی اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں ایک خاص قانون’راولپنڈی کانسپریسی ایکٹ 1951 عجلت میں منظور کرایاگیا،جب گورنر جنرل نے مرکزی اسمبلی کو کالعدم قرار دیا تو ہم سب جانتے ہیں اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان نے اس کے خلاف رٹ کی جسے سندھ کورٹ نے قبول کرتے ہوئے اسمبلی بحال کی مگر فیڈرل کورٹ کے چیف،جسٹس منیر احمد نے بدنام زمانہ ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت گورنر جنرل کے آمرانہ اقدام کی توثیق کر دی،اس فیصلے میں اسمبلی کی نا اہلی کو ثابت کر نے کے لئے اس کی نیم دلانہ یا بدحواس قانون سازی کی مثالوں میں راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ 1851 کا ذکر بھی کیا گیا تھا،جس پر وکلا کے مشورے پر ایلس نے عدالت میں فیض اور ان کے ساتھیوں کے حبس بے جا میں ہونے کی درخواست دی اور ضمانت کی اپیل کی، اس پر 24 مارچ 1955 کو ملتان کے اس غیر معمولی جج شبیر احمد نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کر دیا،ایلس یہ فیصلہ لے کر منٹگمری[ساہیوال] جیل میں پہنچیں مگر جیل سپرنٹینڈنٹ نے ملاقات کرانے سے بھی انکار کر دیا اور عدالتی فیصلے کی تضحیک پر آمادہ حکومت کے اقدام سے آگاہ کیا کہ اس نے فیض اور ان کے ساتھیوں کو ایک اور مقدمے میں ماخوذ کرکے اس ضمانتی حکم کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ایلس نے ایک مرتبہ پھر حکومت کی بد نیتی کو عیاں کرنے کے لئے اپیل کی، اب چیف جسٹس ایم آر کیانی نے ضمانت کا حکم دیا،اپنے وکیل کی وساطت سے ایلس نے چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کر کے یقین دہانی چاہی کہ وہ اپنی ننھی بچیوں کے ساتھ مانگے کی کار میں منٹگمری جائے تو گذشتہ توہین آمیز ڈرامہ دہرایا نہیں جائے گا،تب” جسٹس کیانی نے اپنی انگلیوں کی پوروں کو جوڑ کر کہا’مسز فیض! میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اس مرتبہ کسی کی ہمت نہیں ہو گی کہ وہ عدالت کے حکم کی تعمیل سے انکار کر دے،ہاں اس دوران کوئی ’انقلاب‘ ہی برپا ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘[’ایلس بنام فیض‘ از سید مظہر جمیل:اکادمی بازیافت کراچی نومبر2018،ص: 255]