یوں تو 23 مارچ، پاکستان میں سرکاری سطح پر قرار دادِ لاہور کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے اور ڈرائی ڈے ہوتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک قائدِ عوام کی ترقی پسںد پالیسیوں کے باعث، ستر کی دہائی کے بعد سے ہر ڈے ہی ڈرائی ڈے ہوتا ہے لہٰذہ آج کے دن بھی وزیر، مشیر، بیوروکریٹ، اعلیٰ فوجی افسر اور دیگر شرفاء چھپ کر اس ڈرائی ڈے کو نم کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ذرا نم ہو تو ان کی مٹی کس قدر زرخیز ہوتی ہے۔
قومی اور صوبائی دارلحکومتوں میں کئی توپوں کی سلامی ہوتی ہے اور اگر سکیورٹی معاملات ٹھیک ہوں تو کھلے عام پریڈ بھی ہوجاتی ہے جس میں صرف توپ قسم کی شخصیات ہی شریک ہو سکتی ہیں۔ شریک سے یاد آیا 1940ء میں آج کے دن ہی اہلِ اسلام نے دیگر مذاہب کے لوگوں خصوصاً ہںدوؤں کے ساتھ شریکا بازی شروع کی اور مشرکین کی شراکت سے کچھ ایسا انکار کیا کہ اشتراکیت سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس کی مثال ہم آگے چل کر دیں گے، خاطر جمع رکھیئے۔
دارالحکومتوں میں ایوارڈوں کی بںدر باںٹ یعنی تقسیم ہوتی ہے۔ ایوارڈوں کی تقسیم سے بہت فائدہ ہوتا ہے، صنعت خوب ترقی کرتی ہے، خاص طور پر جوتوں اور دال کی صنعت۔ اگر 23 مارچ کو ایوارڈ تقسیم نہ کئے جاتے تو پاکستان صنعتی ترقی میں بہت پیچھے رہ جاتا، خدا کا شکر ہے کہ آج پاکستان ترقی میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان نے کھربوں روپے خرچ کر کے چین میں سی پیک منصوبہ شروع کر دیا ہے جس سے چین کی تو نسلیں بھی مقروض ہو جائیں گی مگر پاکستان خوب ترقی کرے گا۔ اس سے پہلے پاکستان امریکا اور آئی ایم ایف کو بھی خوب مقروض کر چکا ہے۔ پاکستان ایڈ کے کئی پراجیکٹ آج بھی امریکا میں جگہ جگہ چل رہے ہیں۔ اہلِ مغرب پریشان ہیں کہ کسی طرح ہمارے ملک کی ترقی کو روکیں مگر چوںکہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی اس لیئے وہ ہماری ترقی کو روک نہیں پاتے بس ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
مغرب کے کئی ممالک میں 23 مارچ کو یومِ پاکستان نہیں منایا جاتا۔ اسی لیئے ان ممالک میں طوائف الملوکی پھیل گئی ہے۔ ملایئت بامِ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ عوام عوامی جمہوریت کو ترس گئے ہیں۔ دھڑا دھڑ پرایئویٹا یئزیشن کے حصول کے لیئے قومی ادارے تباہ کیئے جا رہے ہیں۔ مغرب کے لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ وہ تو شکر ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کہ وہ بے لوث امداد بھیج دیتی ہے تو اہلِ مغرب کو دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ مغرب میں یومِ پاکستان نہ منانے کے سبب دہشت گردی میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ لوگ جوق در جوق پناہ لینے پاکستان آ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان شرمںدہ ہے کہ سب کو ویزے نہیں دے پا رہی مگر پناہ گزینوں کے لیئے دیدہ و دل فرشِ راہ کیئے بیٹھی رہتی ہے۔ مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اگر حکومت کچھ کام نہ کر پائے تو اس کو حکومت کی نا اہلی نہ سمجھا جائے، یہ مہمان نوازی کا جذبہ ہے۔
ہمیں سول حکومت سے ایک گلہ ہے اور وہ یہ کہ ہمارے سول حکمران فوج کو قطعی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ بیچارے جںگیں لڑتے ہیں اور آپریشن بھی کرتے ہیں حالاںکہ یہ محکمہء صحت کی ذمہ داری ہے پھر بھی سول حکومت ہٹ دھرمی دکھاتی ہے اور کئی مرتبہ تو انہیں اپنے بوٹ خود پالش کرنے پڑتے ہیں۔ اس بے رخی سے خفا ہو کر ایک فوجی جرنیل نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے بوٹ خود ہی پالش کرنے ہیں تو جاؤ، کل سے ہم نہ تمہارے لئے وزارتِ خارجہ چلائیں گے نہ فوجی عدالتیں لگائیں گے۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کی خفگی دور کرنے خود وزیرِ اعظم پہنچے اور اگر کوئی اس بات سے یہ اندازہ لگا بیٹھا ہے کہ وزیرِاعظم نے خفا جرنیل کے بوٹ پالش کیئے تو وہ یقیناً غلط سمجھتا ہے۔ اس لیئے کہ اب مارشل لاء بالکل نہیں اور فوج آئین کے تابع ہے۔
ایک قومی اخبار کے نمائںدے نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ فوج آئین کے اتنے تابع ہے کہ کئی مرتبہ آئین کو آئینی مداخلت کر کے کہنا پڑا کہ اے وطن کے سجیلے جوانو اتنی تابعداری نہ کرو کہ بعد میں ہمیں تاریخ کے آگے شرمںدہ ہونا پڑے۔ قومی اخبار کے نمائندے نے ہمیں اس سے آگے کچھ نہ بتایا کیونکہ وہ جلدی میں تھا۔ اس نے ابھی جا کر اپنی دکان بھی کھولنی تھی جس کا نام’حرمتِ حرف کریانہ سٹور‘ ہے۔
ماہنامہ قومی غیرت کے مدیر شریف خان اتفاقی نے بتایا کہ 23 مارچ کے حوالے سے ملک کے وزیرِ اعظم، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں مطلع کیا ہے کہ اب تاریخ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ ہمیں گمان گزرا کہ شائد کیلنڈر کے کاغذ کی کوالٹی کا معاملہ ہے یا اس تاریخ کا جو عدالت میں ریڈر کو سو روپے دے کر لی جاتی ہے مگر انہوں نے کہا کہ اب آنے والی نسلوں کو درست تاریخ پڑھائی جائے گی۔ آپ 23 مارچ کے حوالے سے بھگت سنگھ، راج گرواور سکھ دیو کی قربانی پر کھل کر لکھیئے۔ دروغ بہ گردنِ شریف خان اتفاقی انہوں نے فرمایا کہ تینوں مقتدر حضرات جانتے ہیں کہ اگر بھگت سنگھ نے نوجوان بھارت سبھا نہ بنائی ہوتی تو گورا ملک چھوڑنے پر کبھی مجبور نہ ہوتا۔
کہنے لگے کہ تینوں چیف صاحبان جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ پاکستان کے چک نمبر 115 گ ۔ ب، تحصیل جڑانوالہ، ضلع لائلپور میں 27 ستمبر 1907 کو پیدا ہوا۔ ابھی نو عمر ہی تھا کہ جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر نے ہندوستانی عوام کا قتلِ عام کیا جس کا بھگت سنگھ پر بہت گہرا اثر پڑا۔ اسی لیئے وہ گاندھی کی عدم تعاون تحریک کا حصہ بنا۔ پھر چوری چورا میں جب شاںت جلوس پر پولیس نے گولی چلائی اور بھیڑ نے بھڑک کر تھانے کو آگ لگا دی جس میں 22 پولیس والے ہلاک ہوئے تو گاندھی جی نے تحریک واپس لے لی۔ اس سے بھگت سنگھ کی شخصیت میں ایک باغی نے جنم لیا جس نے آگے چل کر عوام کو ’انقلاب زںدہ باد‘ کا نعرہ دیا۔
پھر بھگت نے لالہ لاجپت رائے کے بنائے ہوئے نیشنل کالج میں داخلہ لیا، جہاں اس کی ملاقات سکھدیو اور دیگر انقلابیوں سے ہوئی جن میں جے دیو کپور اور بھاگوتی وغیرہ شامل تھے۔ ودیالںکر جی اسی کلج میں پڑھاتے تھے۔ اس دوران کچھ انگریزوں نے بھاگوتی بھائی کے ملازم خیرو پر تشدد کیا جس کا بدلہ بھگت اور سکھدیو نے ان گوروں کی پٹائی کر کے لیا۔ یہ شروعات تھی۔
ودیالںکر جی نے بھگت، سکھدیو اور بھاگوتی بھائی کو رام پرساد بسمل صاحب سے ملوایا۔ جب بھگت وغیرہ کی ملاقات ہوئی تو تینوں نے ہندوستان رپبلکن ایسوسی ایشن جوائن کر لی۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ہندوستان رپبلکن ایسوسی ایشن کانگرس یا مسلم لیگ کی طرح سرمایہ دارانہ طرزِ کی سامراج نواز سیاست نہیں کرتی بلکہ ڈائریکٹ ایکشن پر یقین رکھتی ہے۔ اب بھگت اور اس کے ساتھیوں کی رام پرساد بسمل، اشفاق الہ خان، روشن سنگھ اور دیگر کامریڈز سے ہوئی۔ جب رام پرساد بسمل، اشفاق الہ خان، روشن سنگھ اور چندر شیکھر آزاد وغیرہ نے کاکوری اسٹیشن پر برطانوی سامراج کا سرکاری خزانہ لوٹ لیا تو بھگت وغیرہ کو یقین آ گیا کہ ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کوئی مفاد پرست ٹولہ نہیں بلکہ عوامی جمہوری انقلاب کے زریعے مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ واقعہ کاکوری کے بعد انگریز کو اپنے ہاتھوں پیروں کی پڑ گئی اور ایک ملک گیر ایکشن کے بعد ایچ آر اے کے بیشتر افراد پکڑے گئے، جنہیں انگریز سرکار نے اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا۔
صرف چںدر شیکھر آزاد بچ نکلے اور تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی۔ بھگت اور ساتھی ان کے بازو بن کر ساتھ کھڑے ہوئے۔
اس دوران سائمن کمشن لاہور آیا جس کے خلاف تنظیم نے لالہ لاجپت رائے کا ساتھ دیا۔ گوروں نے بد ترین لاٹھی چارج میں لالہ جی کو شہید کر دیا۔ ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن نے ٹھان لی تھی کہ لالہ جی کی شہادت کا بدلہ سکاٹ کو مار کر ہی لیں گے۔ اس دوران راج گرو بھی شامل ہو چکا تھا۔ سو، 17 دسمبر 1928ء کو راج گرو، سکھدیو تھاپڑائر آزاد جی نے حملہ کر دیا۔ مگر غلط شناخت کے باعث اے ایس پی جان پی سانڈرس اس ایکشن میں ہلاک ہو گیا۔ تاہم بھگت جس طرح سے لوگوں کو عوامی جمہوری انقلاب کے لیئے تیار کرنا چاہتا تھا، ویسا نہ ہو سکا۔ لہٰذہ بھاگت سنگھ نے کامریڈز کی ایک بہت بڑی میٹنگ کوٹلہ فیروز شاہ میں بلائی۔
اس میٹنگ کے دوران بھگت سنگھ نے واضح کر دیا کہ صرف گوروں سے آزادی ان کا مقصد نہیں۔ مقصد ہے وطن بنانا۔ ایک سوشلسٹ وطن، جہاں ملک کے تمام ذرائعِ پیداوار پر مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کا حق ہو۔ اسی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ ایچ آر اے کا نام تبدیل کر کے ہندوستان سوشلسٹ رپبلکن ایسوسی ایشن رکھ دیا جائے۔
ایچ ایس آر اے نے فیصلہ کیا کہ چونکہ حکمرانوں کو اپنے مفاد کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا اس لیئے کہیں دھماکہ کیا جائے، مگر کچھ اس طرح کہ کوئی شخص زخمی نہ ہو۔ مگر بم بنانا صرف جتن داس کو آتا تھا۔ فرنںدا ناتھ گھوش ان کو جتن داس کے پاس لے گیا اور بھگت سنگھ نے جتن داس کو قائل کر لیا کہ گاندھی صرف اپنے پارٹی مفاد کے لیئے کام کر رہے ہیں اس لیئے ایچ ایس آر اے کو مضبوط کرنا ہی عوامی جمہوری انقلاب کا واحد راستہ ہے۔ جتن داس نے ان کا ساتھ دیا اور آخر تک دیا۔
اپریل 1929 کو جب وائسرائے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے پبلک سیفٹی بل کا قانون پاس کرنے لگا، جس کے تحت احتجاج کرنے کا قانونی حق بھی مزدوروں سے چھن جانے والا تھا تو بھگت اور بٹو کشور دت نے دلی کی مرکزی قانون سازاسمبلی میں بم کا دھماکا کر کے اس کی مذمت کی۔ اس دھماکے میں کسی کو خراش تک نہیں آئی بلکہ پلان کے مطابق دونوں عظیم کامریڈوں نے اپنی گرفتاری پیش کی۔
جیل جاتے ہی بھگت سنگھ نے ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف بھوک ہڑتال کر دی۔ 1929 میں جب لاہور کے پارٹی آفس میں چھاپہ پڑا تو باقی ساتھی بھی جیل میں آ گئے اور بھگت کی بھوک ہڑتال میں شامل ہو گئے۔ ان کامریڈز میں کشوری لال اور جتن داس کا نام بہت اہم ہے۔ دو ماہ سے زیادہ کی بھوک ھڑتال ایک طرف تو عوام میں انقلاب کا شعور بیدار کر رہی تھی تو دوسری طرف وائسرائے کے دربار میں بھی بھگت اور اس کے انقلابی ساتھیوں کے لیئے ہمدردیاں بڑھ رہی تھیں۔ بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے، جتن داس جیل میں شہید ہوئے۔ اس دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو اور کئی اور نامی قائدین نے بھگت سنگھ کی بڑھتی ھوئی مقبولیت دیکھ کر بھگت سنگھ کے حق میں بیانات دیئے اور گہری سرکار کی مذمت کی۔ کانگریس نے ’دہری حکومت‘ کا نعرہ بلںد کیا ہوا تھا جومفاد پرستوں کی طرف سے غیور عوام کے لیئے محض ایک بہلاوہ تھا۔ بھگت نے ’پورن سوراج‘ یعنی ٹوٹل انڈیپنڈنس کی مانگ کی تو مجبوراً نہرو کو بھی یہی نعرہ لگانا پڑا۔
اس سے برطانوی سامراج کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔ وائسرائے لارڈ ارون جارج زوسٹر نے غیر قانونی طور پر ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت ملزمان کی غیر موجودگی میں بھی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا تھا۔ وائسرائے نے جلد از جلد گاندھی سے ارون پیکٹ پر سائین کروائے اور سنٹرل جیل لاہور میں 23 مارچ 1931 کو عوامی جمہوری انقلاب کے تین روشن ستاروں کو بجھا دیا گیا، انہیں پھانسی دی گئی اور لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا میں بہا دیا گیا۔
مگر ان کا قافلہ رکا نہیں۔ آج بھی پیپلز ڈیمو کریٹک فرنٹ عوامی جمہوری انقلاب کے سپنے کو لے کر جدوجہد کر رہی ہے۔
آخر میں شریف خان اتفاقی نے ہمیں بتایا کہ لکھو بیشک کھل کر، تینوں چیف صاحبان کو کہئی اعتراض نہیں، مگر چھپوایا تو فی الفور بند کرنے کا حق انہیں آین نے دے رکھا ہے۔
آیئن نے حق نہ بھی دیا ہوتا تو ہم کیا کر لیتے؟ ہم نے سوچا اور سر جھکا دیا۔
فیس بک کمینٹ