یہ گیارہ برس قبل پندرہ ستمبر 2014 کا واقعہ ہے۔ مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف ان دنوں وزارت عظمی کے منصب پر فائز تھے اور پی ٹی آئی نے ان کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی۔ سیلاب نے ان دنوں بھی ملتان کو اپنی لپیٹ میں اسی طرح لپیٹ میں لے رکھا تھا جیسے آج ملتان کا بڑا علاقہ اس کی زد میں ہے۔ آج جن علاقوں میں نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز شریف سیلاب زدگان میں امداد تقسیم کر رہی ہیں گیارہ برس قبل نواز شریف انہی دنوں وزیر اعظم کی حیثیت سے ان علاقوں کے دورے کر رہے تھے۔ شیر شاہ کا علاقہ جو آج بھی حفاظتی بند کے حوالے سے خبروں میں زیرِ بحث ہے، ان دنوں بھی اسی طرح زیر بحث تھا۔ 2014 ہی نہیں یہ علاقہ اپنی سیاسی اہمیت کی وجہ سے ہر مرتبہ توجہ کا مرکز رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ناظم علی شاہ کا تعلق شیر شاہ سے ہی تھا وہ پارٹی کے بانی کارکنوں میں سے تھے اور 1970ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اسی علاقے میں دربار حضرت شیر شاہ کے مخدوم احسن شاہ اور مونی شاہ کا بھی اثر رسوخ ہے۔ ہم نے یہ سیاسی پس منظر اس لیے بیان کر دیا تاکہ آپ کو علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے۔ یہ علاقہ چونکہ جاگیر داروں اور گدی نشینوں کے زیرِ نگیں ہے، اس لیے خاک نشینوں کی زندگیاں یہاں اجیرن ہی رہتی ہیں۔ ناظم شاہ صاحب بے شک پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہاں کی صوبائی نشست تو ان کی ذاتی جاگیر ہی تھی۔ کسی کو ان کی راجدھانی میں پر مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
شیر شاہ ہو، جلال پور پیر والا ہو، ملتان کا علاقہ نواب پور ہو یا اوچ شریف اور اندرون سندھ کے علاقے یہاں بند توڑنے یا پانی کا رخ موڑنے کے فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہی ہوتے ہیں۔ جو پارٹی برسرِ اقتدار ہوتی ہے اس کے با اثر لوگ اپنے حامیوں کے علاقوں کو بچا لیتے ہیں۔ اور مخالفوں کے علاقے ڈبو دیے جاتے ہیں۔ 2014 کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو یہ وہ سال تھا جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کی جانب سے 2011 میں لانچ کیے جانے والے پروجیکٹ عمران خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے پیش رو جنرل ظہیر الاسلام عباسی آگے بڑھا رہے تھے۔ 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں مینار پاکستان پر ایک جلسے کے ذریعے عمران خان کی رونمائی ہو چکی تھی۔ اسی جلسے سے آزادی مارچ کا آغاز کیا گیا جسے عمران پرستوں نے سونامی مارچ کا نام دیا تھا۔ عمران خان اور ان کے حامی 2013 کے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کر رہے تھے اور اسی احتجاجی مہم کے دوران ”گو نواز گو“ کا نعرہ لگایا گیا۔
بندوبست کرنے والوں کی طرف سے عمران خان اور طاہر القادری کو ایک ہی کنٹینر پر سوار کرا کے اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ پھر ایک طویل اور ناکام دھرنا شروع ہوا جو اے پی ایس پر حملے تک جاری رہا۔ بعد ازاں اے پی ایس حملہ بھی مبینہ طور پر خود ساختہ قرار پایا۔ بات ہم ”گو نواز گو“ کے نعرے کی کر رہے تھے۔ یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی سرگرمیاں محدود ہو کر رہ گئیں۔ کرکٹ میچوں کے دوران ”گو نواز گو“ کے نعرے لگائے اور پلے کارڈ لہرائے جانے لگے۔ پی ٹی آئی کے کارکن یا تو خود تقریبات میں پہنچ جاتے تھے یا پھر کارکنوں کے بھیس میں مختلف سرکاری اداروں کے کارندوں کو ان عوامی مقامات پر بھیج دیا جاتا تھا جہاں نواز شریف یا ان کی کابینہ کے اراکین کی شرکت متوقع ہوتی تھی۔ اس دوران کارکنوں کے مابین تصادم بھی ہوا اور وزراء کی گاڑیوں پر حملے بھی کیے گئے۔
ٹی وی سکرینوں پر ان نعروں کی براہ راست کوریج ہونے لگی تو چینلوں کے رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کو بھی یہی اسائنمنٹ دی جانے لگی۔ پندرہ ستمبر 2014 کو ہم سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے شیر شاہ کے دیہی مرکز صحت پر موجود تھے۔ یہاں نواز شریف نے سیلاب متاثرین میں امداد تقسیم کرنے آنا تھا۔ نواز شریف نے پہلے سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی معائنہ کیا اور مقامی انتظامیہ سے روایتی بریفنگ لی۔ ملتان کے کمشنر اسد اللہ نے انہیں نقصانات کی تفصیل بھی بتائی اور سیلاب کا باعث بننے والے ہیڈ محمد والا پل کے نقائص سے بھی آگاہ کیا۔ اس روز شدید حبس تھا نواز شریف کو ڈیرہ غازی خان بھی جانا تھا۔ سیلاب زدگان سے انہوں نے جذباتی تقریر کے دوران مخصوص انداز میں کہا کہ آپ کو نئے گھر بنا کر دیے جائیں گے جب تک آپ کو چھت نہیں ملے گی آپ کا خادم نواز شریف چین سے نہیں بیٹھے گا۔
اس تمام عرصہ کے دوران پنڈال میں ان کے حق میں زور دار نعرے لگائے جاتے رہے۔ جلسہ ختم ہوا وزیر اعظم اور انتظامیہ کے افسران روانہ ہو گئے اور پھر میڈیا کا کھیل شروع ہوا۔ ملتان کے ایک کیمرہ مین نے جلسہ گاہ کے دروازے پر کیمرہ آن کیا اور گو نواز گو کے نعرے لگوانا شروع کر دیے۔ اس کے ایک ساتھی نے کہا ’زور سے نعرے لگائیں آپ کی تصویریں جیو پر نشر ہو رہی ہیں‘۔ بس پھر کیا تھا امداد لے کر آنے والے جو چند لمحے قبل نوز شریف زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے ”گو نواز گو“ کے نعرے لگانے لگے۔ نواز شریف کا اصل جلسہ غائب ہو گیا اور ”گو نواز گو“ اس روز کی بریکنگ نیوز بن گئی۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )