ایک وقت تھا جب لوگ بی اے کی تعلیم کو ہی بہت سمجھتے تھےاس زمانے میں اساتذہ کرام بھی محدود تھے اور تعلیم کے ذرائع اور سائنس و ٹیکنالوجی نے بھی اتنی ترقی نہیں کی تھی ۔لیکن اب صورت حال مختلف ہے ۔ رواں سال کی رپورٹ کے مطابق آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے پاکستان میں فروغ پایا ہے وہیں تعلیم کی افادیت اور اہمیت بھی بڑھ گئی ہے ۔ اب لوگ
M.aاور M.phil کرنا ضروری خیال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی شخصیت اور کردار کمیں بہتری کے ساتھ ساتھ روزگار کے بھی بہتر مواقع حاصل کرسکیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔اسی طرح اساتذہ کرام کو طلبا و طالبات کی علم کی تشنگی و تجسس کو ختم کرنے کے لئے بھرپور محنت کر نا پڑتی ہے ۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں چند مخصوص مضامین پڑھائے جاتے تھے لیکن اب پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے بہت سے تمام مضامین میں تعلیم دی جاتی ہے تاکہ پاکستانی عوام دنیا کے ہر شعبے اور کسی بھی ممالک میں کام کرنے سے شرمندگی محسوس نہ کرے بلکہ یہ ثابت کرے کہ پاکستانی کسی سے کم نہیں ہے وہ دوسرے لوگوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتے ہیں اس لئے حکومت پاکستان تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے اور تمام پاکستانی بچوں کو تعلیم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے بھرپور کام کر رہی ہے ۔ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں تعلیمی مہم چلا رہی ہے جو لوگوں کو پاکستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں حصہ ڈالنے کی ترغیب دے رہی ہے تاکہ ہر فرد اس میں بھرپور حصہ لے اور اچھے کردار کو اپنی زندگی کا شعار بنائے تاکہ معاشرہ اور ملک مزید مستحکم ہو سکے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کا معیار بڑھ جانے اور شرح تعلیم میںاضافے کے باوجود ہم اخلاقی زوال کا شکار کیوں ہیں ؟ کیا تعلیم کو تجارت بنانے والوں نے ملک کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کر دیا ؟
فیس بک کمینٹ