یہ 2010 کی بات ہے، میں ان دنوں سعودی عرب میں تھا، فیس بک نے انٹرنیٹ کی دنیا میں دھوم مچا دی تھی۔ پاکستان کے نوجوان اور متوسط طبقے کے "پڑھے لکھے” افراد سوشل میڈیا کی جانب مائل ہو رہے تھے۔ تب صدر آصف علی زرداری کی حکومت تھی، زرداری ایک غیرمقبول سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی صارفین تک پہنچنے کا راستہ چنا۔ ان دنوں مشرق وسطیٰ میں کچھ انقلابی تحاریک اٹھی تھیں جن کا آغاز تیونس سے ہوا تھا، یہ عوامی ابھار سوشل میڈیا کے مرہونِ منت تھے۔ سعودی عرب میں میرے دوست نوید نے ایک دن مجھے کہا کہ پاکستان میں عمران خان بہت تیزی سے سیاسی افق پر چھا رہا ہے، میں عمران کو سیاستدان نہیں سمجھتا تھا اس لیے میں نے اس امکان کو رد کر دیا۔ لیکن غالباً 23 مارچ 2011 کو مینار پاکستان لاہور میں عمران کی تحریک انصاف نے ایک بڑے جلسہ عام کے ذریعے اپنی سیاسی مقبولیت کا ثبوت پیش کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران کی لانچنگ کے پیچھے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کا ہاتھ تھا۔ آئی ایس آئی ایک طویل عرصے سے پراجیکٹ عمران خان پر کام کر رہی تھی، بدنام زمانہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل مرحوم نے 1990 کی دہائی میں شاید سب سے پہلے عمران کے سر پر اپنا دست شفقت رکھا تھا۔
لانچنگ کے بعد عمران کی سیاست کا "نظریہ” اس وقت کی دو مقبول سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نواز اور زرداری کی کردار کشی تھا۔ سوشل میڈیا پر نواز اور زرداری کی بدعنوانیاں سامنے لائی گئیں اور سوشل میڈیا صارفین کا ذہن ان رہنماؤں کی نفرت سے بھر دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک اور ٹویٹر پر ایک سیاسی کلٹ وجود میں آ گیا۔ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈز کے ذریعے اس کلٹ کی ذہن سازی کی گئی۔ اس سیاسی فرقے میں پاکستان کے ایلیٹ طبقے بالخصوص بڑے فوجی اور سول افسران کے خاندان شامل ہو گئے۔ سیاسی پرندوں نے ہمیشہ کی طرح اڑان بھری اور ایجینسیوں کے اشارے پر پی ٹی آئی کے درخت پر جا بیٹھے۔ 2013 کے انتحابات میں نواز شریف کامیاب ہو کر تیسری بار وزیراعظم بن گئے لیکن اس بار روایتی حریف پیپلز پارٹی سے زیادہ ٹف ٹائم انہیں پی ٹی آئی نے دیا۔ 2014 کا طویل دھرنا کون بھول سکتا ہے جس نے پاکستان کے سیاسی اور سوشل فیبرک کو تہس نہس کر دیا ۔ یہ دھرنا سانحہ اے پی ایس پشاور کو بہانہ بنا کر ختم کر دیا گیا لیکن عمران آئی ایس آئی اور فوجی اشرافیہ کے اشاروں پر کبھی چین سے نہیں بیٹھے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو بھی چین سے حکومت نہ کرنے دی۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان نے بالآخر حکومت حاصل کر لی اور وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔
2018 کے بعد ہم نے عمران خان کی سول آمریت کا بدترین دور دیکھا۔ مہنگائی اور بےروزگاری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ عمران کی آمریت کو مضبوط کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں اور قوانین منظور کیے گئے۔ پریس پر پابندیاں عائد کی گئیں، صحافیوں پر تشدد کیا گیا اور سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ پنجاب میں ایک ڈمی وزیراعلیٰ بنایا گیا جو عمران کا وسیم اکرم پلس تھا۔
2018 سے لے کر 2022 میں عمران کی وزارت عظمی کے اختتام تک ہم نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی صارفین جو نواز اور زرداری کی بدعنوانیوں پر ٹرینڈ چلاتے تھے، عمران کی بدعنوانیوں پر خاموش تماشائی بنے رہے۔عمران حکومت کے خاتمے کے بعد یہ سیاسی کلٹ بتدریج دوبارہ سوشل میڈیا پر متحرک ہو گیا۔ کچھ ہی دنوں میں سوشل میڈیا ٹرینڈز کے ذریعے عمران حکومت کے عوام پر ڈھائے گئے مظالم فراموش کر دیے گئے۔ ٹیم عمران اس وقت پاکستان کا واحد سیاسی گروہ ہے جو سوشل میڈیا کو استعمال کرنا جانتا ہے۔ عمران مخالف فوجی اور سیاسی اشرافیہ اس وقت عمران کے اس سیاسی ہتھیار سے شدید خوف زدہ ہے۔ کل ایک طویل عرصے بعد میں نے ٹویٹر پر اکاؤنٹ بنایا تو فالوئنگ آپشنز میں سب سے اوپر پی ٹی آئی کا آفیشل اکاؤنٹ تھا اور اس کے بعد میں نے عمران کے حق میں کی گئی بےشمار پوسٹس دیکھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دور جدید میں سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت بڑے عوامی انقلابات کا ذریعہ بن سکتے ہیں ۔ محنت کش طبقے کے رہنماؤں کو چاہیے کہ ان ذرائع کے استعمال میں مہارت حاصل کریں تاکہ سوشلسٹ پراپیگینڈے کے ذریعے محنت کش عوام میں طبقاتی شعور کو بیدار کیا جا سکے۔