ویسے تو حیاتی برباد کرنے والے واقعات سارے سماج کے امن اور خوشحالی کو بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں،لیکن کبھی کبھار سماج کی مذہبی انتہاپسندی اور طبقاتی ناہمواری والی غلیظ سوچ ایسے ناجائز حرامی بچے کے مترادف مسائل کو جنم دیتی ہے، جو مسائل نہ فقط حالات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن اقتدار پر فائز ان نمائندوں کی سفاکیت کی عکاسی بھی کرتے ہیں جس میں اس کے اعمال اور اظہار ہمدردی کے ڈھونگ کا احساس اور ان کی جھوٹی سیاست سمجھ میں آتی ہے اور ان سے منسلک ہماری ساری امیدیں ہاتھوں سے گرے ہوئے آئینے کی طرح ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ مسائل تو اپنے جگہ پر ہر سورج کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں اور موت منرل واٹر کی بوتل سے بھی مزید سستی ہو گئی ہے۔ لیکن آج میں آپ کو ایک ایسی دکھی کرنے اور اپنے ذہن پر کشیدگی برپا کرنے والے واردات سے مطلع کروں گا، جس کو سن کر ہر باضمیر انسان کی آنکھوں میں آنسوں آ جائینگے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر یہ واقعہ کسی اور ملک یا صوبے میں پیش آتا تو وہ ایسی ہی پردے میں نہیں رہتا اور سارے ملک کے چپے چپے پر یہ خبر پنہچ جاتی لیکن یہ سندھ ہے جس میں وڈیروں نے غریب کسانوں کا وہ حال کر رکھا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔گذشتہ کچھ دنوں کی بات ہے کہ صوبہ سندھ کے بڑے ڈویژ ن میرپورخاص کے ایک چھوٹے سے شہر کنری میں، ایک بے قصور کسان کو بیچ شہر میں اتنی بیدردی سے قتل کردیا گیا ، جیسا کہ وہ کوئی دہشت گرد تھا۔ بھیل برادری سے تعلق رکھنے والے اس جوان لڑکے کا نام گھنشام داس تھا وہ بنیادی طور پر تھرپارکر ضلع کا رہائشی تھا، لیکن اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے وہ کنری کے بئراجی علاقے میں مزدوری کر رہا تھا ۔ اس گھنشام بھیل کا اور کوئی بھی قصور نہیں تھا،اس نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی،اس نے کسی آدمی کا خون نہیں کیا ، بس اس نے غلامی سے انکار کیا اور وڈیروں کے ا حکام کو ٹھکرایا اور ان وڈیروں کے احکام کو ٹھکرانے کے باعث اس جوان لڑکے گھنشام بھیل کو کلھاڑی سے کترہ کترہ کر دیا گیا اور بہت حیران کن بات یہ ہے کہ گھنشام بھیل کے قتل کے بعد مقتول کے وارثوں نے لاش کو سڑک پر رکھ کے احتجاج کیا اور حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ گھنشام بھیل سے انصاف کیا جائے اور ایسے وہ پانچ دن لاش کو روڈ پر رکھ کے اس کی بوڑہی ماں، باپ ،بھائی اور بہنیں روتی رہیں، کانپتی رہیں، لیکن کسی بھی سیاستدان نے انصاف تو بعد کی بات لیکن ان سے اظہار یکجہتی کرنا بھی گوارہ نہیں سمجھا اور پانچ دن مسلسل دھرنا جاری رہا ، لیکن نہ اس لاش پر اقلیتوں کے نمائندے آئے نہ ہی سندھ کے وزیراعلی کو اپنی سندھ کے کنری شہر کی سڑک پر اجرک میں لپٹی ہوئی لاش نظر آئی اور نہ ہی عمران خان کی تبدیلی نظر آئی۔ اگر اپنی دھرتی سے بے حد پیار کرنے والے دراوڑ بھیل برادری روڈ بلاک کر پاتی،شہر بند کرواتی،ٹائر جلاتی تو شاید یہ حکومت تحرک میں آجاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی گھنشام بھیل کا قتل ارشاد رانجھانی کے کیس جیسا مضبوط ہو سکا ۔اور سرکار کی بے حسی،نااہلی تو یہ ہے کہ ایک کسان کی لاش کو یہ کہہ کر مدفون کروایا گیا کہ قاتل پنجاب بھاگ گیا ہے ،ہم اسے پکڑ کر جلد گرفتار کریں گے ۔اور وارثوں نے مجبوری میں یہ بات مان کر اسے اپنے مٹی ماں کے پیٹ میں سلانے کے لیے سواری کا کہا، تو ان کو ایمبولینس کی بجائے ڈاٹسن دی گئی اور وہ لاش کو پانچ دن احتجاج کرنے کے بعد جب کسی طرح کا کوئی انصاف نہیں ملا تو 20 آدمی ایک ڈاٹسن میں اکھٹے ہو کر لاش کو لے کر تھرپارکر کے ریگستان میں نکل پڑے اور ایسے جوان گنشام بھیل کی لاش کو اپنی مٹی ماں کے حوالے کیا۔ اب دس دن گذر جانے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔اور یاد رہے کہ یہ پہلا ظلم نہیں ہے اس سے پہلے بھی بھورے بھیل کے لاش کو قبر سے نکال کر باہر پھینکا گیا تھا۔
معاف کیجیئے گھنشام بھیل سندھ کا شعور آپ کو انصاف نہیں دے پایا ،کیوں کہ جس ملک کا بانی سکرات میں ہو اور ان کو اس ایمبولینس میں بٹھایا جائے جس ایمبولینس کا ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی پیٹرول ختم ہو جائے اور وہ تڑپ تڑپ کے مر جائے اس ملک میں آپ کی کیا حیثیت ہے۔کیا ایک بے قصور کسان سے یہ ابھی تک گونگی،بہری اور اندھی حکومت انصاف کر پائے گی یا نہیں ؟؟مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
فیس بک کمینٹ