چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کا مبینہ آڈیو،ویڈیو سکینڈل منظر عام پرآنے کے بعد نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق رائے زنی کررہا ہے۔ تجزئیے کئے جارہے ہیں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں۔یہ آڈیو ویڈیو اصلی ہیں یا نقلی اس کا فیصلہ تو تحقیقات پر ہی سامنے آئے گا۔اس سکینڈل کی مرکزی کردار طیبہ فاروق نامی خاتون جو خود کو قانون کی طالبہ کہتی ہیں اور مظلوم ثابت کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر آڈیوپیغام ریکارڈ کرارہی ہیں اور دھمکی دے رہی ہیں کہ ان کے پاس اور بہت ساری آڈیو اور ویڈیو ہیں جو وقت آنے پر وہ منظر عام پر لائیں گی۔ اگر یہ خاتون واقعی لاء کی طالبہ ہے تو قانون کی رو سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی وقوعہ کا فائدہ کون لے رہا ہے اب تک کے حالات کا بغور جائزہ لیا جائے اور خاتون کے ویڈیو پیغامات کو سنا جائے تو لگتا ہے کہ یہ سارا عمل ایک سوچاسمجھا منصوبہ تھا اور جو کچھ ہو رہا تھا خاتون کو اس کا علم تھا اور وہ اس ساری فلم میں بطو ر ہیروئن یہ کردار بطریق احسن نبھا رہی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ بھی ہوا چیئرمین نیب کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس قسم کی اوچھی حرکتیں اور وہ بھی ان کے اپنے آفس میں ہوں چیئرمین کے منصب کے شایان شان نہیں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے اور ایسا کیوں ہوا اس کا جواب تو چیئرمین نیب ہی دیں گے مگر اس عورت کے پیغام کو سن کر ایک انسان اور مسلمان یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عورت پستی کے گڑھے میں کس قدر تک گر چکی ہے اور کتنی ڈھٹائی سے سب کچھ بیان کررہی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ ” فرینڈلی“ اسی لئے تھی کہ اس کے شوہر کے خلاف مقدمات تھے کیا شوہر کے خلاف مقدمات ہونے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عورت سربازار اپنی عزت نیلام کر دے ایک مسلمان اور مشرقی عورت کیلئے تو اس کے ایمان کے بعد سب سے قیمتی چیز اس کی شرم و حیا اور عزت ہوتی ہے جس کیلئے وہ اپنی جان تک دے دیتی ہے بزرگوں سے سنا ہے اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت سینکڑوں مسلمان عورتیں اور لڑکیاں اپنی عزتیں پامال ہونے سے بچانے کیلئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر زندہ درگور ہوگئی تھیں مگر یہ خاتون نہ صرف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ویڈیو بنوا رہی تھی بلکہ محفوظ بھی کررہی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر سند رہے۔
دیکھا جائے تو خاتون کا نام کتنا پاک باز ہے( طیبہ)مگر اس کے کرتوت دیکھیں لفظ کی حرمت کو ہی پامال کر دیا اس کے گھٹیاکارناموں نے لفظ عورت اور طیبہ کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اس کے اعترافی بیان کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی عورت، بیوی، بہن، بیٹی اور ماں ہے جو اپنے ” کارناموں“ کو بڑی دیدہ دلیری سے بیان کرکے داد شجاعت وصول کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے اور اس کے اعترافی ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا اس کی مرضی سے ہوا اور وہ سب کچھ جانتی ہے چیئرمین نیب کو صرف ٹریپ کیا گیا مجھے تو اس کے شوہر کے مرد ہونے پر بھی شک ہے جو اپنی بیوی کو اس بیہودہ اور گھٹیا طریقہ سے استعمال کررہا تھا ہمارے ایک دوست اس قسم کی بیویوں کواپنے شوہروں کی اے ٹی ایم مشین قرار دیتے ہیں ۔کیا کوئی مسلمان شادی شدہ عورت جس کا نام بھی طیبہ ہو کسی غیر مرد سے بات کرکے خوشی محسوس کر سکتی ہے ؟ بڑی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے اس کے ساتھ ”مائنڈ“ بنانے کا اظہار کرسکتی ہے گھریلو اور پاک باز خاتون تو بہت دور کی بات اس قسم کی گفتگو تو ایک بازاری عورت اور طوائف بھی نہیں کرتی اور اس کا یہ کہنا کہ اس کے پاس اس قسم کی اور بہت ساری ویڈیوز ہیں سے نیب کے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک منظم جرائم پیشہ گروہ ہے جو شرفاء کو بلیک میل کرکے ”مال” بنا رہا تھا ۔اس اصلی یا نقلی سکینڈل کا چیئرمین نیب اور اداروں کو کتنا نقصان ہوگا اس کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہوگا مگر میری ذاتی رائے میں اس نام نہاد(طیبہ) نے ان لاکھوں خواتین کے اعتماد کو ٹھیس ضرور پہنچائی ہے جو سرکاری دفاتر،تعلیمی اداروں، فیکٹریوں ، کارخانوں، کھیتوں ، کھلیانوں غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ ہاتھ بٹا رہی ہیں کیا اس واقعہ کے بعدکوئی مرد اپنے ساتھ کام کرنے والی کس خاتون پر اعتماد کرے گا اور وہ یہ ضرور سوچے گا کہ وہ اس ساتھی خاتون سے بات کرنے میں کتنا محفوظ ہے اس خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ اس نے خود اپنے ساتھ کیا اسے کسی طور پر بھی اچھا فعل قرار نہیں دیا جاسکتا۔