زیرِ نظر کئی جہتی تحریر ملتان کے دانشوروں ‘ صاحبانِ علم و فن کی بیٹھک میں پڑھی گئی ۔ یہ بیٹھک ملتان آرٹس فورم کے زیر اہتمام 11 اکتوبر 2019 ءکو ملتان پوسٹ گریجویٹ کالج میں پروفیسر شوکت نعیم قادری کی زیر صدارت منعقد ہوئی ، افسانہ بنیادی طور پر علامتی اور مستقبل میں رونما ہونے والے حالات اور سائنسی ترقی کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا گیا ۔ خیال تھا ، پوری تحریر میں جو سوالات پیدا ہوئے ہیں یہ ماہرین علم و فن ان کے جواب ڈھونڈ لیں گے کیونکہ زندگی کے تمام شعبے باہم جڑے ہوئے ہوتے ہیں ، یہ ہم نے اپنی آسانی کیلئے شعبہ در شعبہ تقسیم کیا ہوا ہے۔ اگر تمام کچھ تفصیل سے لکھ دیا جاتا تو طوالت ہوتی اور یہ ایسے ہوتا کہ جیسے طالب علم کو پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ دانشوروں اور صاحبان علم کا کام ہوتا ہے کہ وہ تحریر کی جڑت کو اپنے اپنے اندازوں میں احاطہ علم میں سموئیں ، لیکن فورم میں بہت کم دیکھنے میں آیا کہ اس علامتی تحریر کو اس کے پیرائے میں دیکھا گیا ہو ۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
۔۔۔
اور سب کچھ بدل چُکا
دنیا میں اتنی ترقی تو ہو گئی تھی ، اخبارات کا چلن جاتا رہا تھا، اشاعتی ادارے اطلاعات دینے کیلئے خلا میں جگہ الاٹ کرا لیتے تھے ، خلا میں لکھا لوگ پڑھتے تھے ، حالات ابتر تھے ، لوگوں کا جینا محال ہو چکا تھا ، میں تنگ تھا ۔ کچھ بلین ڈالر میرے پاس محفوظ ہو گئے تھے ۔ میں نے خلا میں ایک مشہور زمانہ کمپنی کا اشتہار پڑھا ، لکھا تھا سیف ہاؤ س کی بکنگ 12 دسمبر کو ختم ہو جائے گی ۔ میں اُٹھا کمپنی کے دفتر جا پہنچا ، اپنی ریزرویشن کرا لی ۔ 500سال محفوظ رہنے کو ترجیح دی ۔ 500 برس بعد مجھے حفاظتی کیپسول سے نکالا گیا ، میں نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا اسی حالت میں میرا دماغ کام کر رہا تھا ،سوچ رہا تھا ،جب میں مکمل بحال ہو جاﺅں گا ہوش و حواس قائم ہو جائیں گے تو اپنا شہر دیکھنے جاﺅں گا، 100 صدی کیپسول میں منجمد رہنے کے بعد دنیا کتنی بدل چکی ہوگی مجھے اندازہ ہی نہ تھا نہ میرے وہم و گمان میں تھا۔ 100 صدیاں کیسے گزریں اب دنیا کی کیا حالت ہو گی ۔ نئے رسم و رواج نے شہروں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہوگی ۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے آبائی شہر کی اب کیا حالت ہوگی ۔ میں نے کمپیوٹر اُٹھایا دیکھا کہ 100 صدی میں کیا ردوبدل ہوا ہے ۔ میں نے سوچتے ہوئے سٹریٹ ہیلی کاپٹر لیا ہوائی اڈے پر جا پہنچا ۔ وہاں پتہ چلا جہازوں کا اُڑان متروک ہو چکا ہے ان کی جگہ اُڑن طشتریوں نے لے لی ہے ۔
جب مجھے کیپسول سے باہر نکالا گیا تو مجھے بتایا گیا کہ زماں و مکان کا فرق محدود ہو چکا ہے ۔ اب لسان کی جگہ اعداد نے لے لی ہے ۔ آپ جس شہر میں جانا چاہیں اس کے اعداد فیڈ کریں گے تو ساری معلومات آپ کے سامنے موجود ہونگی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے شہر ملتان کے ڈی جیٹ کیا ہیں۔ میرے ہیلپ لائن ملانے سے پہلے کمپیوٹر بول اُٹھا ،ملتان کسی زمانے میں برصغیر میں ہوا کرتا تھا ، ایک بڑا دریا اس کی بغل میں بہتا تھا اس کے ساتھ کچھ فاصلے پر اس سے بڑا دوسرا دریا موجود تھا جسے ”سندھ “کہا جاتا تھا ۔ تو مجھے یاد آیا کہ کیپسول میں جانے سے پہلے میں نے نیٹ پر دیکھا تھا کہ غالباً عراق کا ایک دریا بہتا تھا جس میں پانی کی جگہ ریت بہتی تھی ایک اور کلپ بھی سامنے آیا جہاں دریا پتھروں کا بہتا تھا جہاں پتھر چلتے ہوئے دکھائی دئیے ، جیساکہ پانی دریا میں موج در موج بہتا ہے بالکل اسی طرح بھاری پتھر لڑھکتے ہوئے بہہ رہے تھے ۔ کمپیوٹر میں بتایا گیا تھا ،سنتے تھے ایک زمانے میں پتھروں کے دریا بہتے تھے اب آپ دیکھ لیجئے پتھر چل رہے ہیں ۔ پھر مذہبی کتابوں میں بتایا گیا کہ وقت آئے گے پہاڑ بھی ایسے چل پڑیں گے۔ لاوا اُگل رہے ہوں گے ، لاوے کی حدّت سے پہاڑ استادہ ہو کر چل رہے ہوں گے۔
برموداٹرائی اینگل کی طرح دریاﺅں میں بڑے بڑے سوراخ پانی کو نگل رہے تھے ۔ وہی حالت میں نے کمپیوٹر میں دیکھی وہاں بتایا جا رہا تھا ملتان کے آگے ایک دریا سندھ تھا ، میں نے پوچھا اُس کا کیا ہوا ، جواب ملا اس کی بغل میں بہنے والا دریا چناب تھا اس دریا کے پاٹ میں بڑی بڑی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں پھر چند دنوں میں دریا کا پاٹ دریا کے پورے پانی کو نگل گیا ۔ دریا سندھ میں بھی یہی صورتحال بنی وہاں کے پانی کو بھی زمین پی گئی ۔ دریائے سندھ کے کچھ فاصلے پر پہاڑی سلسلے تھے کمپیوٹر میری حیرت میں اضافہ کر رہا تھا اور بول رہا تھا کہ جب یہ عمل مکمل ہوا دریا خشک ہو گئے تو پہاڑوں نے چلنا شروع کر دیا ۔ شہروں اور بستیوں کو روندتے ہوئے پہاڑ خشک دریاﺅں پر سوار ہو گئے ،اس کے ساتھ ہی قیامت خیز شور ہوا ،کمپیوٹرکہہ رہا تھا یہ قیامت صغریٰ نہیں قیامت کبریٰ کی آواز ہے ۔ لوگ اپنے گھر بار ،بچے ،پیارے بزرگوں کو چھوڑ کر بھاگنا شروع ہو گئے ۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ کہاں بھاگ رہے ہیں جس کا منہ جس طرف تھا اُسی سمت بھاگ رہا تھا ۔ ترقی کا یہ عالم تھا ان 100 برسوں میں سائنس نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ بولنے سے پہلے دماغ میں جو خیال آتا تھا فوراً ہی اس کا جواب کمپیوٹر پر نمودار ہو جاتا تھا ، ابھی میں نے سوچا ہی تھا کہ پھر کیا ہوا ،جواب اُبھرا زمین جگہ جگہ سمٹ رہی تھی ،دیو قامت عمارتیں اس میں دھنسی جا رہی تھیں ،پہاڑ آگے بڑھ رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی جگہ جگہ چشمے اُبل پڑے ، آبی مخلوق کے ڈھانچے بدبو پھیلا رہے تھے ، انتظامیہ اور شہری ادارے پہلے ہی اپنے گھر بار ، دفاتر چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ، پہاڑوں سے و ہ آگے بڑھ رہے تھے،
پھر کیا ہوا پہاڑوں نے آگ اُگلنا شروع کر دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے جگہ جگہ پہاڑوں نے منہ کھول لیا اور لاوے کی شکل میں آگ بہہ نکلی ،جگہ جگہ بنے غار لاوے سے بھر رہے تھے ،وہاں نئے پہاڑ کھڑے ہو رہے تھے ۔ لاوے سے اُٹھنے والے دھوئیں سے فضا پہلے ہی آلودہ ہو گئی تھی ، پرندے جل بُھن چکے تھے ،زمینی مخلوق فنا ہو رہی تھی ،سرسبز درخت ایندھن بن گئے تھے ، درجہ حرارت 100سینٹی گریڈ تے پہنچ چکا تھا ۔سینکڑوں کلو میٹر دور شہر بھی اس لاوے کی حدّت اور تپش سے بے حال تھے یہاں پینے کا پانی تھا نہ سانس لینے کی گنجائش تھی ۔اس دوران آسمان سے تیز بارشوں نے آ لیا ، کمپیوٹربولا شنید یہی تھی، مسلسل ایک برس تک بارشیں ہوتی رہیں ، میدانی اور ہموار زمین پر پہاڑ کھڑے ہو گئے تھے راستے بند تھے کسی کو نہیں معلوم تھا ملتان کے گرد و نواح میں بسنے والے شہروں کا کیا ہوا سب کچھ برباد ہو چکا تھا ،شہروں کے شہر زمین کے نیچے دفن ہو چکے تھے ،میںابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کمپیوٹر نے میرا دماغ پڑھ لیا اور بولا سائنس نے زندگی کے تمام شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے سب زیادہ توجہ دماغ پر دی گئی اور دماغ کے ان خلیوں کا کھوج لگا نے میں سائنسدان کامیاب ہوگئے جو خلیے نفرت ، حسد اور نئے خیالات کی آماجگاہ بنتے ہیں سائنسدانوں نے نفرت اور حسد کرنے والے خلیوں کو خیالات پر عمل کرنے والے خلیوں سے جدا کر لیا۔ نفرت اور محبت کے لطیف جذبات کو اُبھارنے والے خلیے علیحدہ علیحدہ خانوں میں سمو دیئے گئے، اس طرح نفرت کے خلیے دماغ سے بالکل الگ ہو گئے۔ اس سے پیوستہ حسد کے خلیوں بھی الیکٹرانک ریزز کے ذریعے فنا کر دئیے گئے اس طرح انسان کی جبلت ہی بدل دی گئی ، نفرت کے ساتھ حملہ کرنے والے خلیے بھی دماغ کیلئے اجنبی ہو گئے ۔ اب انسان صرف محبت اور اخلاص کی راہ پر چل پڑا ہے ، کمپیوٹر بولا یہی وجہ ہے پولیس تھانوں کی ضرورت ہی نہیں رہی،
آتشیں اسلحہ ساز فیکٹریاں کئی صدیاں پہلے بند کر دی گئی تھیں ، محبت اور اخوت کو فروغ دینے والے جذبات کے کیپسول ، گولیاں بازار میں عام بکتی تھیں ۔اب اس کرہ ارض پر کہیں لڑائی جھگڑے اور خون ریزی نہیں ہوتی ،اس لئے جیلوں کا بھی نام و نشان نہیں رہا ۔لوگ اپنے تحفظ کے لئے زیادہ بچے پیدا کرتے تھے لیکن جدید ترقی نے آبادی کو بھی کنٹرول میں کر لیا ہے۔ ہر گھر میں ایک بچہ جی رہا ہے ، ریاست کا وجود محض علامتی رہ گیا ہے کیونکہ سب کا سب کچھ محفوظ ہے، کمپیوٹر یہ بتا رہا تھا کہ اور میرا دماغ جواب دے رہا تھا ۔میں نے نیم غنودگی کے عالم میں کمپیوٹر کی اتنی آواز سنی اب ملتان شہر کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ۔ وہاں پہاڑ موجود ہیں وہاں جانے کا کوئی نام نہیں لیتا ،یہ سنتے ہی غنودگی کے عالم میں بے ہوشی میں چلا گیا ۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں سخنور فورم میں موجود تھا۔