دنیا بھر میں عالمی سرمایہ داری کے پہریداروں نے نظام زندگی کی باگ ڈور چند ہاتھوں میں دے کر دنیا کی اکثریتی محنت کش طبقات کو دیوار سے لگایا ہوا ہے وہاں پاکستان کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں کم از کم اجرت ، روزگار کے مواقع ، پینشن ، محنت کش خواتین کے حقوق ، سوشل سیکورٹی ، تعلیم ، صحت، فیکٹریوں اوسر کارخانوں میں سیفٹی کے ایشوز یہ وہ نمایاں مسائل ہیں جن پر ہر دور میں قوانین تو بنائے جاتے ہیں مگر وہ سب صرف خانہ پری تک ہی ہوتے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک میں اقتدار حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیوں کا مجموعی رویہ کالے قوانین اور محنت کشوں کا استحصال ہی رہا ہے ۔ ملک میں مسلسل بڑھتی بے چینی کا اصل سبب معاشی نا ہمواری ہے ماں باپ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بچوں سمیت اس گلے سڑے نظام کو الزام دیتے ہوے خود کشی کو آخری حل سمجھ کر گلے لگا رہے ہیں مہنگائی اور بے روزگای کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں یہ اس بد بو دار نظام زندگی پر ایک سوال ہے اس موقع پر ہم محنت کشوں کی بڑی بڑی تنظیموں سے بھی سوال کرتے ہیں کہ ان حالات میں انہوں نے کیوں چپ سادھ لی ہے حق یہ تھا کہ محنت کشوں کی نمائندگی کرنے والی قیادتوں کو آج پالیسی ساز اداروں میں بیٹھ کر اپنے طبقات کی نمائندگی کرنی چاہیے تھی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی اب مفاد پرست سیاست کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام محنت کش تنظیمیں اپنے طبقے کی حقیقی سیاست کریں اور ہر جگہ ہر پلیٹ فارم پر استحصالی قوتوں کیخلاف متحد ہوں پھر ہم سمجھیں گے کہ اب اس ملک میں اصل عوامی قوت بن کر ملک کے سیاسی دھارے کی سمت درست کر رہے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ