غمخوارحیات/ محمود ابڑو
’’حاجی صاحب! آئیے خدا لائے آپ کو۔۔۔ بہت دن سے نظر نہیں آئے۔۔۔؟‘‘ مرادخان نے حاجی بوہر کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں ، بس جینے کے لئے رنج و غم تو بہت ہیں ۔۔ اور خدمت خلق میں بھی مصروف ہیں‘ ‘ حاجی نے تسبیح کو گھماتے ہوئے جواب دیا۔
’’آج کل کیا مصروفیات ہیں ؟ ۔۔ گزر بسرکیسے چل رہا ہے ؟ ‘‘
’’جی اللہ کا دیا ہو ا بہت ہے ،مدرسے میں مُلا ہوں ۔۔ بس طالبوں کے وسیلے مجھے بھی نوالہ مل جاتا ہے پھر رمضان کے مہینے میں دوست احباب دبئی بلاتے ہیں ۔ وہاں کچھ ان طالبوں کے لئے فطرانہ بھی جمع کرتا ہوں ۔ کیا کریں ؟ یہ زندگی تو وفا نہیں کرتی ۔۔ بس کہتاہوں کہ چار دن اللہ کی راہ میں گزریں۔ ‘‘
’’خیر یہ باتیں ہوتی رہیں گی ۔۔۔حاجی صاحب آپ تو بہتر سمجھتے ہو کہ آج کل قوم سے قوم داری چلی گئی ہے ۔۔ کام کے وقت غیرکے ساتھ کھڑے ہیں ۔۔مگر میرا دل کہتا ہے کہ آپ سے رشتہ داری کرکے تعلق کو مضبوط کروں ۔۔ تو حاجی صاحب تم میرے بیٹے کو داماد بنا لو ۔۔ ‘‘مراد خان نے حاجی کے لئے چائے ڈالتے ہوئے ان سے درخواست کی
’’نہیں بابا ایسے نہیں ہوگا۔مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالو۔‘‘
’’پھر بھی حاجی ! میرا دل کہتا ہے ۔۔ یہ بھی کار خیر ہے۔‘‘
آپ اس طرح کے کام میں جلد بازی نہ کرو۔۔۔ میں دیکھوں گا۔۔۔استخارہ کروں گا۔۔۔ جو بھی اللہ کی رضا ہوئی ۔۔۔ حاجی نے اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ بہت مشکل کام ہے۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ آج ہی فیصلہ کرو ۔۔ بلکہ پہلے اپنی بیٹی اور اس کی ماں سے پوچھو !مزیدکچھ استخارہ بھی آپ کی رہنمائی کرے گا ‘‘
مرُادخان اُس کے فیصلے سے خوش ہوتے ہوئے باتوں کو چاشنی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’آپ ایسی سادگی والی بات مت کرو۔۔۔ کیونکہ پہلے کبھی ہمارے معاشرے میں کسی نے اپنی بیٹی اوراس کی ماں سے مشورہ کیا ہے کہ میں خود کو میاری کروں۔۔۔ بس ! میں نے کہا کہ جو خدا کی مرضی ہو گی ‘‘
اچھا!محترم آپ عالم بندے ہیں ۔آپ بہتر جانتے ہیں ۔ہم جاہل تو ویسے بھی باتیں کرتے رہتے ہیں۔مر رُ اد خان نے حاجی کی دلیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔
کچھ دنوں کے بعد مرُادخان کی بیوی معلوم کرنے کے لئے حاجی بوہر کے گھر گئی ۔۔۔ حاجی اس وقت گھر میں موجود نہیں تھا۔۔۔ اس کی بیوی سے پوچھا۔۔۔ ’’محترمہ!ہم نے اس دن حاجی صاحب سے رشتہ کے حوالے سے بات کی تھی ۔اس کا کیا ہوا ؟‘‘
’’ایسے نہیں ہو سکتا ۔۔۔ حاجی مانے یا مانے لیکن تمہارا بیٹا میری بیٹی کے بالکل قابل نہیں ۔‘‘
’’آپ اس طرح کیوں بول رہی ہیں ؟کیوں ! میرا بیٹا مسلمان نہیں کیا ؟میرا بیٹا چرسی ، شرابی ، یا موالی ہے ؟یا چور،دھاڑیل،لوفرہے ؟‘‘
’’نہیں بس ! آپ غصہ نہ ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کے بیٹے میں وہ قابلیت نہیں ہے‘‘
کچھ وقت کے بعد مُراد خان کی حاجی بوہر کے ساتھ بازا رمیں اچانک ملاقات ہوئی ۔۔۔ پوچھا ’’حاجی صاحب سنا ہے کہ بیٹی کی شادی ہوگئی ہے ۔‘‘
’’ہاں !محترم خیر خوشی سے شادی ہو گئی۔ ‘‘
’’کس کے ساتھ کہاں شادی کرادی ؟‘‘
’’جی! مَلک سال جان کے ساتھ ۔ ‘‘
’’اچھا وہی مَلک سال جان جو آٹھ دس سال سے دبئی میں تھا ‘‘مُراد خان کے جواب میں حاجی صاحب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ’’جی وہی مَلک سال جان آج کل دبئی کی ملازمت سے ریٹائرہوکر آگیا ہے۔‘‘
’’نہیں حاجی صاحب ! مَلک کی قابلیت کی سچی بات کیوں نہیں بتا رہے ہو ؟کہ اس نے آپ کو دس لاکھ روپے ’لب ‘دیا ہے ۔ وہ خود تو 60 سال کی عمرمیں ہے ۔۔۔ آپ کی بیٹی تو 20 سال کی ہے!!‘‘
۔۔۔۔
لب : بلوچستان میں لڑکے والے ،لڑکی والوں کو شادی کے موقع پر رقم یا مال کی صورت میں ادا کرتے ہیں ۔
میاری:جس پر طنز کیا جائے۔