ایسے شخص کے بارے میں کیا لکھنا جسے آپ اچھی طرح جانتے نہ ہوں اور اس کے بارے میں کیا لکھنا جسے اچھی طرح جان لیا ہو۔ اسرار اور توقعات شخصیت کو جاذب بناتی ہیں کسی شخصیت کے بارے میں لکھنا دراصل اسے جاننے کی ایک سعی ہے۔ کسی بھی شخصیت کی مکمل جان کاری مشکل بلکہ ناممکن ہے چاہے وہ اپنی ذات ہی کیوں نہ ہو کہ شخصیت کی پرتیں ہوتی ہیں ۔
کوئی مہک نہ چن سکا، کوئی چٹک نہ سن سکا
پھول بھلا دکھائے کیا بھاؤ سبھاؤ ذات کے
جانے میں جو پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد کو دیکھنے کی جو کوشش کر رہی ہوں یہ مفتی منیب الرحمٰن کی طرح سعی لا حاصل ہے جو عید کا چاند دیکھنے کی کو شش کرتے ہیں یا پھر یہ ایک عاشق کی سعی مشکور ہے جسے چودھویں کا چاند بے خود کر دیتا ہے۔
اٹھائیس سال قبل جب میں اردو ادب میں داخلے کے واسطے جامعہ زکریا ملتان گئی تو انوار احمد صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی لبوں پر تو مسکراہٹ کی رمق نہیں لیکن سوچتی جانچتی اور کچھ کچھ مسکراتی آنکھیں۔ احساس ذمہ داری سے زیر بار ڈاکٹر انوار احمد پروفیسر سے زیادہ پرچون فروش لگ رہے تھے۔ لیکن لمحوں میں ہی محسوس ہو گیا کہ وہ رنگساز ہیں۔ مختلف رنگ ان کے جسم سے پھوٹتے ایک قوس قزح بنا رہے تھے۔ اور یہ رنگ دھیرے دھیرے میری ذات میں بھی سرایت کر گئے۔
انہی رنگوں نے میری شخصیت کو منفرد کیا لفظ تو ہمیشہ سے بھاتے تھے لیکن پھر ان کا باقاعدہ چسکہ پڑگیا انوار صاحب تو خیر سے ست رنگی شخصیت ہیں وہ اردو ادب پڑھاتے ہیں بلکہ اسے زندگی کا اسلوب بنا دیتے ہیں۔ ایسے رنگساز ہیں جو چنریوں کو مختلف رنگ دیتا، ان پر لہرے ڈالتا، رنگوں کے امتزاج سے دلکش نقوش ابھارتا اور انھیں مختلف النگنیوں پر سجا کر فخریہ نظروں سے تکتا ہوا۔ یہ ایسا اولڑا رنگ ہے جو چھٹائے نہیں چھٹتا ۔ بھیڑ میں کوئی منفرد شخصیت نظر آئے تو جان لیجئے انوارین ہے۔
انوار احمد صاحب زندگی کو ایک نئے رنگ ڈھنگ سے دیکھنے کا زاویہ دیتے ہیں ان کے لفظ محض شیٹ پر لکھ کر نمبرز لانے کا سبب نہیں بنتے بلکہ شخصیت کے خالی گوشوں کو بھرتے ہیں ذات کے ڈینٹ درست کرتے ہیں کورچشم کو نگاہ عطا کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت پورے ڈیپارٹمنٹ پر چھائی ہوئی تھی بلکہ شنید ہے کہ اب تک چھائی ہوئی ہے وہ برگد کے درخت کی مانند ہیں اور شاگرد ان کی شاخوں پر چہچہاتے پرندے۔ سادہ شگفتہ، بامعنی انداز گفتگو، اپنے آپ کو عالم فاضل محسوس کرائے بنا ہی پڑھاتے ۔ طالب علم ان سے ایسے مانوس ہوجاتے جیسے چوزے مرغی سے، لیکن کمال تو یہ ہے جب یہ چوزے شہباز بن جاتے ہیں تب بھی ان کے ہاتھ ہی پر آ کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے شاگرد کبھی ان کے حلقہ مقناطیسیت سے باہر نہیں نکلے ان کے ارد گرد ہی اڈاریاں بھرتے پھرتے ہیں چونچ میں دانہ دنکا ہو یا شاہکار ان ہی کے سامنے آ کر ڈالتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی بنت میں خوف ، واہمے اور اندیشے ہیں ہر فرد میں اندیشے اور بدگمانی رچ سی گئی ہے۔ اعتبار اور اعتباد والی شخصیات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی خوبصورت شخصیت نظر آجائے تو ہمارے ذات کے اندیشے ، سنگریزے بن کر اس کی سنگ ساری شروع کر دیتے ہیں، بدصورت معاشرے میں خوبصورتی برادشت نہیں ہو پاتی اور کچھ اوپری اوپری سی بھی لگتی ہے۔ سرگوشیوں سے ماحول گونجنے لگتا ہے اندیشہ ہائے دور دراز کے وسیع دالان ہیں۔ جن میں محمود و ایاز ایک صف ہی میں کھڑے نظر آتے ہیں، ترقی پسند ان کی دستار فضیلت پر شک کرتے ہیں اور رجعت پسند بارہا یوم حیا منا چکے لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔
اس شدت کی ژالہ باری میں خود کو ثابت و سالم رکھنا بڑی بات ہے انوار احمد صاحب اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اپنی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کے شاگرد ان پر پھول نچھاور کرتے رہتے ہیں یہ ان کی دنیا ہے یہ ہی ان کی جنت ہے۔ یہ محض "کن”کی پیداوار نہیں اس کی تعبیر تو برسوں کی تپسیا کے بعد ہی ممکن ہو سکی۔ سوچ کی تروتازگی، فکر کی گہرائی خیال کی سچائی اور خلوص نے اس دنیا کو تمثال وار بنا دیا ہے۔
رنگسازی کا یہ عمل انوار احمد صاحب اور انوارین کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ اس رنگ و خوشبو نے ملتان کے ماحول کو معطر اور مہمیز کر رکھا ہے۔
فیس بک کمینٹ