میرے کئی کرم فرما ہر روز باقاعدگی سے وٹس ایپ کے ذریعے مجھے اقوال زریں اور موٹیویشنل سپیکرز کی ویڈیوز بھیجتے ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ سنہری باتیں ہمارے اندر کسی مثبت تبدیلی کا باعث بنتی ہیں اور ہمیں کسی اچھے عمل پر آمادہ کرتی ہیں؟
پاکستان میں آج کل موٹیویشنل سپیکرز کا کاروبار تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر رابطوں کے باعث بہت سے موٹیویشنل سپیکرز لندن اور برطانیہ کے مختلف شہروں کا رخ بھی کرتے ہیں لیکن یہاں آ کر اُن کی دال مشکل سے ہی گلتی ہے۔ ویسے ہم پاکستانیوں کی اکثریت کومحض باتوں سے دِل بہلانے کی عادت ہے اسی لئے ہم لوگ عملی طور پر کچھ کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ ہماری مساجد نمازوں اور خاص طور پر جمعہ کی نماز کے وقت نمازیوں سے بھر جاتی ہیں اور کسی بھی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے اوقات میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی یعنی نماز پابندی وقت کے لئے بھی ہماری تربیت کرتی ہے۔ اور نماز سے پہلے وضو کے ذریعے ہمیں صفائی کا درس ملتا ہے مگر عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو ہم زندگی کے دیگر معاملات میں وقت کی پابندی کو کبھی درخوراعتنا نہیں سمجھتے اور نہ ہی عام زندگی میں صفائی کو ملحوظ خاطر رکھنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔
خاص طور پر عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے بعد جس طرح ہمارے گلی محلے آلائشوں اور غلاظت سے اٹ جاتے ہیں، انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کتنے صفائی پسند ہیں پاکستان میں جو لوگ ان پڑھ یا جاہل ہیں وہ پیروں اور عاملوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے یا مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے پیروکار ہیں اور جو نام نہاد پڑھے لکھے ہیں وہ موٹیویشنل سپیکرز کے جھانسے میں بہت آسانی سے آ جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کی برین واشنگ اتنی آسانی سے ہو جاتی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ تعلیم اور تربیت کی کمی ہے۔ برطانیہ میں بچوں کو پرائمری سکول میں ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تربیت دی جاتی ہے کہ اُن کے اندر ایسی خود اعتمادی پیدا ہو جائے جو عملی زندگی میں اُن کے کام آئے اور کوئی اُن کی برین واشنگ کرکے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکے۔ برطانیہ کے پرائمری سکولوں میں بچوں کو جو تعلیم و تربیت دی جاتی ہے وہ اُن کی کردار سازی میں بہت اہم اور بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے اس ابتدائی مرحلے میں ہی تمام برطانوی بچے انسانی حقوق، نسلی مساوات، مذہبی ہم آہنگی، شخصی آزادی، وقت کی پابندی، ماحولیات اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بنیادی اصولوں سے واقف ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
جب یہ تعلیم اور تربیت یافتہ بچے بڑے ہو کر عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو کسی موٹیویشنل سپیکر کے لئے ان کو جھانسہ دینا یا کسی مذہبی ٹھیکیدار کے لئے ان کو ورغلانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت اپنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کی پیروی کرنے کی بجائے نام نہاد مولویوں، سیاستدانوں اور موٹیویشنل سپیکرز کی پیروی کرنے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں ہلکان ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں جو شخص کامیاب ہو جاتا ہے، دولت کما لیتاہے یا مشہور ہو جاتا ہے وہ اسے اللہ کا کرم سمجھنے کی بجائے اپنا کمال سمجھنے لگتا ہے اور عام لوگ اُسے رول ماڈل بنا کر اس کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ دولت بلکہ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے اس لئے چالاک اور مفاد پرست لوگ دولت کے حصول کے لئے ہر وہ چورن بیچنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے خریدار موجود ہوں چاہے اس کے لئے انہیں موٹیویشنل سپیکر ہی کیوں نہ بننا پڑے۔
میرے ایک دوست کے دادا کی عمر سو برس سے تجاوز کر چکی تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد اُن سے ہر روز ان کی طویل عمری کا راز جاننے کے لئے آنے لگی۔ ابتدا میں سب کو وہ یہی بتاتے کہ سادہ غذا اور بے فکری ہی میری لمبی عمر کا راز ہے اور یہ اللہ کا کرم ہے کہ جس نے مجھے اس عمر میں بھی اچھی صحت عطا کی ہے۔ اُن کی یہ باتیں سُن کر لوگوں کو یقین نہ آتا اور وہ اصرار کرتے کہ اصل راز بتائیں؟ جب لوگوں نے انہیں بہت زِچ کرنا شروع کر دیا تو تنگ آ کر انہوں نے کہا کہ میں روزانہ 6کیلوں کے چھلکے کھاتا ہوں اور یہی میری لمبی عمر کا راز ہے۔ اُن کی یہ بات سن کر لوگوں کی تسلی ہو گئی اور آدھا گاؤں روزانہ 6کیلوں کے چھلکے کھانے پر لگ گیا۔ ہمارے لوگوں کا یہ نفسیاتی پہلو بہت دلچسپ ہے کہ جب تک ہم کامیاب لوگوں اور لمبی عمر پانے والوں کی زندگی کا راز نہ جان لیں ہمیں اطمینان میسر نہیں آتا۔ جن باتوں کی تلقین ہمارے والدین ہمیشہ کرتے رہتے ہیں ہم اُن پر کان نہیں دھرتے لیکن جب یہی باتیں ہمیں کوئی موٹیویشنل سپیکر بتاتا ہے تو ہمیں اُن میں بہت زیادہ افادیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ یہ موٹیویشنل سپیکر ہمیں جو کچھ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اُن کے اپنے افعال اور معمولات اس کے برعکس ہوتے ہیں۔
ملتان کے ایک موٹیویشنل سپیکر گزشتہ دنوں لندن آئے اور ایک عشائیے میں اپنے مداحوں کو بار بار یہ کہتے رہے کہ عصر حاضر میں انسانوں کی بے سکونی اور اضطراب کا سب سے بڑا سبب موبائل فون ہے جب تک ہم انسان اس موبائل کے عذاب سے محفوظ تھے ہماری زندگی بڑی پرسکون تھی۔ اس حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے یہ موٹیویشنل سپیکر مسلسل اپنے موبائل فون سے چپکے ہوئے تھے۔ اسی طرح لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک اور متمول موٹیویشنل سپیکر اپنے لیکچرز میں ہر ایک کو یہی تلقین کرتے ہیں کہ ’زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں‘ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ یہی بات بتانے کے لئے اپنے ہر لیکچر کا معاوضہ تین لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ وفاقی دارلحکومت کے ایک موٹیویشنل سپیکر اپنی ویڈیوز کے ذریعے لوگوں کو طرح طرح کے طبی امراض کا علاج بتاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ان میں سے کئی امراض میں مبتلا ہیں ا ور اپنا علاج ڈاکٹروں سے مسلسل کروا رہے ہیں۔ یعنی جو بت اپنی ناک پر بیٹھی مکھی کو نہ اُڑا سکتا ہو وہ کسی اور کے مسائل کیسے حل کر سکتا ہے۔
ضعیف الاعتقاد لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے اپنے خالق سے رجوع کرنے کی بجائے اس کے اُن بندوں سے آس لگا لیتے ہیں جو خود اپنے مسئلے کے حل کے لئے اپنے رب کی رحمت کے محتاج ہوتے ہیں۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کونجات، یہ حقیقت ہم سب کو دعوت فکر دیتی ہے کہ برطانیہ اور یورپ میں آباد وہ غیر مسلم جو نہ تو کسی پیر اور عامل سے رجوع کرتے ہیں اور نہ کسی مذہبی پیشوا سے کوئی آس لگاتے ہیں اور نہ ہی کسی موٹیویشنل سپیکر کے جھانسے میں آتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ہم مسلمانوں کے مقابلے میں کم مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر اس کا سبب اور وجہ کیا ہے؟
کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ خالق کائنات جو صرف رب المسلمین نہیں بلکہ رب العالمین ہے وہ اپنی مخلوق کے اعمال کے حساب سے اُسے آسانیاں فراہم کرتا یا مشکلات میں مبتلا کرتا ہے؟ ہمیں اس حقیقت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم غور نہیں کریں گے تو یونہی اُن رستوں میں بھٹکتے رہیں گے جو ہمیں منزل پر لے جانے کی بجائے منزل سے دور لے جا رہے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ