عبدالقوی صاحب کو مفتی لکھنا چاہیئے یا نہیں یہ میرا مسئلہ نہیں کہ میں تو ممتاز مفتی اور جبار مفتی صاحب کو بھی مفتی ہی سمجھتا ہوں ۔ رہے ہمارے پیارے قوی صاحب تو ان سے بھی ہماری یاد اللہ بہت پرانی ہے ہم انہیں اس زمانے سے جانتے ہیں جب وہ 90 کے عشرے میں روزنامہ ” نوائے وقت“ کے دفتر میں عاشق علی فرخ صاحب کو ملنے آتے تھے اور عاشق صاحب انہیں از را ہ تفنن مفتی مقوی باہ کہتے تھے ۔ اس وقت تو ہم اسے مذاق ہی سمجھتے تھے لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ شائد عاشق صاحب با خبر ہونے کے ناتے ان سے ایسی چھیڑ چھاڑ کرتے تھے ۔
پھر کئی سال بعد ہمیں اپنے ایک دوست کی جان بچانے کے لیے مفتی صاحب سے رابطہ کرنا پڑا ۔ مفتی صاحب نے بلا تامل ہماری مدد کی اور اس ملاقات میں ایک ایسا جملہ کہا کہ جو ہمارے دل پر نقش ہو گیا ۔ مفتی قوی کا کہنا تھا کہ یہاں نام نہاد عالم اور مولوی لوگوں کی جان لیتے ہیں، میں جان لینے والوں میں سے نہیںجان بچانے والوں میں سے ہوں ، اگر میرے فتوے سے کسی کی جان بچتی ہے تو مجھے فتویٰ دینے میں کوئی اعتراض نہیں اور اگر کوئی جھوٹ بول کر مجھ سے فتویٰ لے جائے گا تو یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے ، پھر میں نہیں وہ خدا کی عدالت میں جواب دہ ہو گا ۔
وقت گزرتا رہااور نوبت قندیل بلوچ کے قتل تک پہنچ گئی ۔ قندیل بلوچ کے قتل میں ان کا کردار بھی زیر بحث آیا لیکن وہ عدالت سے بری ہو گئے ۔ قندیل کی موت پر ہمیں دکھ بھی ہوااور اس تمام عرصہ میں ہماری قوی صاحب سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی ۔ اسی دوران وہ پاکستان تحریک انصاف علماء ونگ میں شامل ہو چکے تھے اور ٹاک شوز میں ان کی گفتگو فروخت ہوتی تھی ۔ ۔پھر یو ٹیوب پر مبشر لقمان کے ساتھ ان کی گفتگو وائرل ہونے لگی ۔ مبشر لقمان کا مفتی صاحب کے ساتھ معاہدہ تھا کہ وہ ان کے چینل کے سوا کہیں اور بات نہیں کریں گے اور مفتی صاحب کو اس پروگرام کا غیر معمولی معاوضہ بھی ملتا تھا ۔
پھر گزشتہ برس روہی ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں ان سے طویل عرصہ بعد ملاقات ہوئی ، ان دنوں وہ علماء و مشائخ کانفرنس میں شرکت کے بعداسلام آباد سے واپس آئے تھے ، پروگرام کے بعد انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں ان کی اصل سفارش بشریٰ بی بی ہیں اور روحانی سلسلے کے حوالے سے میں ان کا احترام کرتا ہوں وہ بھی مجھے عزت دیتی ہیںاسی لیے تمام ترمخالفت کے باوجود اب تک کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔
حالیہ کہانیوں کا ذکر کرنے کی مجھے ضرورت نہیں کہ میں خود ان تمام حرکتوں اور واقعات پر حیرت زدہ ہوں ۔ اس سوال کا جواب میں بھی اب تک تلاش نہیں کر سکا کہ مفتی صاحب آخر اس سطح پر کیوں آگئے ؟ یا وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے ؟
اس کالم کے ذریعے سوال مجھے ان کے چچا عبدالواحد ندیم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اور نام نہاد معالجین سے کرنا ہے جنہوں نے مفتی صاحب کا فون چھین کر انہیں گھر پر نظر بند کر دیا ہے ۔ان سے یہ سوال تو پوچھنا چاہیے کہ اس حافظ قرآن خاندان کی عزت اور شان بھلا اس وقت کہاں گھاس چرنے گئی تھی جب قندیل نے مفتی صاحب کی ٹوپی ان کے سر سے اتار کر اپنے سر کا تاج بنا لی تھی ۔ اس عزت دار خاندان نےان سے اس وقت یہ فون کیوں نہ چھینا جب وہ نکاح کو غیر ضروری قرار دے رہے تھے ، جب وہ شراب کے حق میں بیان دیتے تھے اورجب وہ مبشر لقمان کو اپنے معاشقوں اور شادیوں کی چسکے دار کہانیاں سناتے تھے ۔ اور جب وہ بتاتے تھے کہ خواتین میری رفاقت کی خواہش مند رہتی ہیں اور جب وہ ایسے ہی بہت سے قصے اور کہانیاں تسلسل کے ساتھ سناتے تھے ۔
اہل خانہ کی جانب سے مفتی عبدالقوی صاحب سے مفتی کا ٹائٹل واپس لینے کی بات بھی بہت مضحکہ خیز ہےیہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی سے کوئی سند واپس لے لی جائے اور کہا جائے اب آپ ایم اے پاس نہیں رہے ۔ باقی رہ گیا ذہنی توازن یا نفسیاتی معاملہ تو ہم اسے بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں مفتی قوی نے اصل میں تو منافقت کا وہ لبادہ تار تار کیا ہے جو ان سب نے پہن رکھا ہےجو کام یہ سب چھپ چھپا کر کرتے ہیں مفتی صاحب نے وہ سب کچھ سر عام کیا ۔ مفتی صاحب کی ” حرکتوں “ سےاسلام کو نہیں ان کے خاندان کے کاروبار کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔اصل میں تو مدرسہ عبیدیہ کا مستقبل بچانے کے لیے مفتی صاحب کو قید میں رکھا گیا ہے ۔ اس معاملے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی بھی انتہائی افسوس ناک ہے ۔حبس بیجا میں اب مفتی عبدالقوی کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔انتظامیہ اور عدلیہ انہیں برآمد کرے ورنہ خود کشی جیسا کوئی واقعہ رونما ہوگیا تو لوگ موجودہ حالات میں اس پر یقین بھی کر لیں گے ۔ آخری بات یہ کہ مجھے قوی یقین ہے کہ مفتی قوی نہیں ان کے چچا کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں اگر ان کی ذہنی حالت ٹھیک ہوتی تو وہ اس کہانی کی مرکزی کردار حریم شاہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ضرور کرتے ۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز ۔۔ اسلام آباد )