عمران خان بے تابی سے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ وہ ایسے مودب میزبانوں کو پوڈ کاسٹ کر رہے ہیں اور انٹرویو دے رہے ہیں جو ان سے نرم اور من پسند سوالات پوچھیں۔ گویا ایسی آسان گیندوں کا سامنا کر رہے ہیں جن پر وہ آسانی سے چھکا لگا لیں۔ بدقسمتی سے وہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو خود ان کے لیے ندامت اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کا وہ دعویٰ ہے جس کے مطابق ان کی حکومت کسی ”مقامی سازش“ نے ختم کی۔ اور یہ بات قابل غور ہے۔
اب خان کا دعویٰ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ پی ڈی ایم گزشتہ جولائی سے ہی ان کی حکومت ختم کرنے کے منصوبے رکھتی تھی۔ یہاں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اسی لیے وہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے کہ وہ ان کی ”آنکھیں اور کان“ بن کر سازش کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس فیصلے نے ان کے اور جی ایچ کیو کے درمیان خلیج پیدا کردی کیوں کہ جی ایچ کیو فوج کے داخلی معاملات میں تقرریوں اور تبادلوں کے حوالے سے کسی قسم کی مداخلت نہیں چاہتا۔
عمران خان کا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا سہارا لینے اور اپنے بچاؤ کے لیے ان پر انحصار کرنے کا سلسلہ 2018 ء کے عام انتخابات تک پھیلا ہوا ہے جب ووٹوں کی گنتی کے دوران آرٹی سسٹم پراسرار طور پر بیٹھ گیا اور محیر العقول طریقے سے تحریک انصاف کا اسلام آباد کا راستہ صاف ہو گیا۔ اس کے بعد ”خود بخود“ ہی تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لیے آزاد اراکین، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، بی اے پی وغیرہ کی معاونت بھی حاصل ہو گئی۔ گزشتہ سال آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوج کی ہائی کمان نے ”غیر جانبدار“ رہنے کا فیصلہ کیا۔ نہ تو عمران خان کو سہارا دیں گے اور نہ ہی انہیں چلتا کرنے میں حزب اختلاف کی مدد کریں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے اپنی نالائقی اور انتہائی بدعنوان حکومت کی وجہ سے خود کو سہارا دینے والوں کی ساکھ مجروح کردی تھی۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی ان کا جانا ٹھہر گیا۔ اس کے بعد سے اب تک عمران خان جنرل باجوہ کے فیصلے سے خار کھاتے ہوئے اشارۃً کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے میں آرمی چیف کا ہاتھ ہے۔
اب میدان سج گیا ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نیٹ ورک نے جنرل باجوہ پر بھرپور حملے شروع کر دیے ہیں۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے گریٹ خان کا ساتھ چھوڑ کر حزب اختلاف کا عدم اعتماد میں ہاتھ بٹایا۔ درحقیقت حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران کے ذریعے آرمی چیف پر بے پناہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد جنرل باجوہ کی غیرجانب داری ختم کر کے عمران خان کو ایک بار پر مسند اقتدار پر بٹھانے میں مدد دینے پر آمادہ کرنا ہے۔
اب عمران خان کے میڈیا میں حامیوں نے اپنی پٹاری سے دو تازہ الزامات نکالے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جی ایچ کیو اسد خان کے ”کیبل“ سے آٹھ مارچ کو ہی آگاہ ہو گیا تھا (کیوں کہ اس کی نقول ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی ایم او اور سی او ایس کو بھی بھیجی گئی تھیں) لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے بارہ مارچ کو پڑھا۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جی ایچ کیو نے جان بوجھ کر معاملہ چھپایا تا کہ عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جائے۔
یہ بات ہی مضحکہ خیز ہے۔ اگر پی ڈی ایم کی جی ایچ کیو سے ساز باز گزشتہ سال جولائی میں شروع ہو گئی تھی تو اسے کامیاب ہونے میں نو ماہ کیوں لگے؟ یقیناً اس کی کامیابی کے لیے اتنا ہی درکار تھا کہ حکومت کے حامیوں کو آنکھ کا اشارہ ہو جاتا۔ ان کے پیچھے ہٹنے سے اعتماد کا ووٹ برقرار نہ رہ پاتا اور چشم زدن میں حکومت تبدیل ہو جاتی۔ لیکن حکومت کو اس مختصر سی کاوش میں نو ماہ کیوں لگے؟ وہ اس لیے حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ معاملات طے کرنا تھے اور عدم اعتماد کے لیے درکار ووٹوں کی گنتی پوری کرنا تھی۔اس کے بعد حکومت کی تبدیلی کے پیچھے مبینہ امریکی سازش پر بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اگر اس کا اولین اظہار آٹھ مارچ کا مراسلہ تھا تو عمران خان نے اسے ظاہر کرنے کے لیے ستائیس مارچ تک کا انتظار کیوں کیا؟ اگر پی ڈی ایم حکومت نے عمران خان کا مطالبہ مان کر اس کے مواد کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے تو اب وہ آزاد انکوائری کمیشن کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اگر جی ایچ کیو اور پی ڈی ایم نے گزشتہ جولائی کو عمران خان کو چلتا کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تو پھر اس میں نو ماہ بعد امریکی سازش کہاں سے آ گئی؟ اور پھر امریکہ کو پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ عمران خان نے امریکہ مخالف کون سے انتہائی اقدامات کیے تھے جن پر وائٹ ہاؤس نے برہم ہوتے ہوئے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا بٹن دبا دیا تھا؟ جب پاکستان نے 1998 ء میں امریکی ترغیب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چھے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو کیا امریکہ نے حکومت تبدیل کرنے کا حکم دیا؟ جب پاکستان نے 1990 ء کی دہائی میں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا تو کیا امریکہ نے حکومت تبدیل کرنے کا حکم دیا؟ جب پاکستان نے 2000 ء کی دہائی میں افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے دہرا کھیل کھیلا تھا تو کیا امریکہ نے حکومت تبدیل کرنے کا حکم دیا؟ جب پاکستان نے افغانستان کے لیے نیٹو سپلائی بند کردی تو کیا امریکہ نے حکومت تبدیل کرنے کا حکم دیا؟ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔
عمران خان کا یہ موقف انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ امریکہ کو فوجی ٹھکانے دینے سے انکار پر ان کی حکومت تبدیل کرائی گئی، جب کہ امریکہ نے ایسی کوئی سہولت مانگی ہی نہیں تھی (طیاروں کی مشروط پروازوں پر ہونے والی بحث کا تعلق امریکی فوجی اڈوں سے نہیں)۔ نہ ہی ماسکو کا ایک روزہ دورہ ایسی انقلابی پیش رفت کا حامل تھا کہ اس نے عالمی سیاسی حرکیات کو تہہ و بالا کر دیا ہویا اس دورے میں روس نے پاکستان کو ایسی کوئی رعایت دے دی تھی جس نے مغربی طاقتوں کی عائد کردہ پابندیوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور امریکہ نے تلملاتے ہوئے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کا حکم دے دیا۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔اب عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کی سازش کو جولائی 2021 کے ذکر سے جوڑا ہے۔ اسے جی ایچ کیو اور پی ڈی ایم سے منسوب کرنے کی کوشش دراصل اس حوالے کی یاد دلاتی ہے جس کا ذکر جنرل فیض حمید کے کسی ”معاملے“ پر سرگوشی کے انداز میں کیا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عمران خان نے گزشتہ سال نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری میں تاخیر کی تھی۔ اب نام لے کر عمران خان نے خود ہی سب کچھ طشت ازبام کر دیا ہے۔ جنرل صاحب یقیناً سخت شرمندہ ہوں گے۔ اس پر اٹھائیس مارچ کی ایک اہم رات وزیر اعظم ہاؤس میں پیش آنے والے کچھ واقعات کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس رات دو ہیلی کاپٹروں سے چند ایک طاقت ور افراد اترے اور عمران خان کو فوج کی ہائی کمان میں تبدیلی کا نوٹی فی کیشن جاری کرنے سے روک دیا۔اب عمران خان کی امیدوں کا محور اسلام آباد کی طرف لاکھوں افراد کا مارچ ہے تاکہ ہنگامی صورت حال برپا کر کے فوج کو مداخلت اور تازہ انتخابات کے اعلان پر مجبور کر دیں۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر وہ فوج کو پی ڈی ایم حکومت کے خلاف مداخلت پر اکسا سکیں تو پھر وہی فوج ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کو اقتدار پر بٹھا دے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا جلد از جلد ہو جائے تاکہ جب نومبر میں جنرل باجوہ ریٹائر ہوں اور نئے آرمی چیف کو نامزد کرنا ہو تو اقتدار ان کے پاس ہو۔
عمران خان نے معیشت کو دیوالیہ کر دیا۔ انہوں نے پسند اور ناپسند کا کھیل کھیلتے ہوئے فوج کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا، اس کی صفوں میں تقسیم کے بیج بوئے، اس کے اتحاد کو کمزور کیا (اور انڈیا نے اپنی اس خدمت پر عمران خان کو سراہا)۔ انہوں نے معاشرے میں قطبیت کی لکیر گہری کردی، مکالمے کا ماحول مکدر کر دیا اور آئین کو زک پہنچائی۔ سفارتی روایات کو نقصان پہنچا کر پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کر دیا۔ جتنی جلدی اسٹبشلمنٹ اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے کہ ہائبرڈ سیاست کا تازہ ترین تجربہ تباہ کن ناکامی تھا اور عمران خان کی دیوانگی کو اب برداشت نہیں کیا جا سکتا، قومی سلامتی کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
( بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز)