قیصر عباس صابرکالملکھاری
ملتان کچہری کا مسئلہ : صدائے عدل / قیصر عباس صابر

جیسے جیسے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ قریب آ رہی ہے ویسے ویسے ملتان کے وکلاءکی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وجہ ملتان کچہری کا مسئلہ ہے اور اس ایشو سے پیدا ہونے والی انا کی سرد جنگ نے لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ ملتان سے لودھراں اور ساہیوال کے اضلاع بھی چھین لئے تھے حالانکہ ریونیو حدود کے تحت ان اضلاع کا ملتان بنچ سے الگ ہونا سمجھ سے بالاتر تھا بہرحال وہ تو ہائیکورٹ ملتان بنچ کو تالے لگانا اور برانچیں بند کرنا بھی کسی خاص حکم پر ممکن ہوا تھا۔
کسی بھی شہر کا زیرو پوائنٹ کچہری ہوا کرتی ہے اور یہاں تو بات ملتان کی پانچ ہزار سالہ زندہ تاریخ کو مسخ کرنے کی ہے کہ لینڈ مافیا نے اپنے پلاٹ مہنگے داموں بیچنے کے لئے کچہری کے کرتا دھرتا رہنماﺅں کو بھی رام کرلیا تھا اور زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے کےلئے کئی منصوبوں کے افتتاح کروائے گئے اور خبر تو یہ بھی تھی کہ کچھ پلاٹ تحفے کے طور پر بھی دیے گئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب نیو جوڈیشل کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا گیاتو اس وقت بھی کچھ وکلاءکا مستقبل ”روشن“ کرنے کا اہتمام کیا گیا مگر ہم تو شہر کی اس تاریخ کا رونا رورہے ہیں جو جدت کے نام پر مسخ کی جارہی ہے 14نومبر2017 ءکو ملتان کے سائل جب وہاں پہنچے جہاں 168برسوں سے کچہری آباد تھی اور شہریوں کا آنا جانا آسان تھا تو انہیں ڈسٹرکٹ کورٹس کے دروازے پر لگے بینر کی تحریر سے معلوم ہوا کہ آج مقدمات کی سماعت نیو جوڈیشل کمپلیکس متی تل روڈ میں ہوگی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اس جنگل میں منگل تک سائل کن مشکلات سے پہنچے ،کچہری کی منتقلی کے بعد وہاں خیمہ بستیاں ، اوپن واش رومز اور گرد وغبار کے علاوہ رکشوں کے مہنگے کرائے ملتان کے شہریوں کا نصیب بن گئے۔ شہر کے دل کچہری کو بے آباد کردیا گیا اور پھر منافع خور درندے اس کمرشل زمین کے استعمال کے منصوبے بنانے لگے ۔
پرانی کچہری میں اپنی جوانیاں گزارنے والے وکلاءاور منشی ملول دلوں کے ساتھ گھروں بیٹھ گئے اور نیو جوڈیشل کمپلیکس میں چیمبرز کی الاٹمنٹ کے نام پر وکلاءکے احتجاج کو تقریباً ختم کردیا گیا ۔ عین اسی وقت جب الاٹمنٹ کی رقوم نوجوان وکلاءجمع کروا رہے تھے توسابق صدر ہائیکورٹ بار قمر الزمان بٹ وکلاءکو یقین دلا رہے تھے کہ کچہری واپس آئے گی کیونکہ نیو کچہری کا منصوبہ ابھی دس سال بھی قابل عمل نہیں ہے تب ایک آواز زیر گردش رہی کہ نیو کمپلیکس سے پرانی کچہری میں عدالتوں کی واپسی ایک دیوانے کا خواب ہے مگر تعبیر تو دیوانوں کے خواب کو ہی ملتی ہے۔ قمرالزمان بٹ، سید اقبال مہدی زیدی، خان برادران، شیر زمان قریشی، خواجہ قیصر بٹ اور ان کے رفقاءپر امید تھے اور اسی امید پر ہی انہوں نے احتجاجی ریلی نکالی جس کے دوران وکلاءکو دفاعی پوزیشن پر لانے کےلئے کچھ شرپسندوں نے 13دسمبر2017ءکو نئی کورٹس کی کھڑکیاں اور شیشے بھی توڑے ۔ اسی روز دہشت گردی ایکٹ کے تحت وکلاءپر مقدمہ ہوا ، گرفتاریاں ہوئیں اور پھر چوک کچہری پر وکلاءنے دھرنا دیا۔ دسمبر کی شدید سردی میں وکلاءمسلسل رات دن چوک کچہری پر بیٹھے اپنے حق کے لئے لڑتے رہے مگر لاہور میں بیٹھے ایک سید زادے کے کان تک آواز نہ پہنچ سکی پھر چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے ملتان کے وکلاءکے نمائندہ وفد نے ملاقات کی اور اپنا احوال بیان کیا تو چیف صاحب فوراً ملتان پہنچے ۔ان کے اس دورے کے دوران کچہری کو نیو جوڈیشل کمپلیکس منتقل کروانے والے اور پراپرٹی مافیاز سے پلاٹ لینے والوں کے چہرے کھل کر سامنے آگئے جب انہوں نے چیف جسٹس کو وکلاءکے مسائل کا ” ناقابل عمل حل “ بتایا۔ چیف جسٹس پاکستان نے نیو کچہری کا دورہ کیا تو سب پردے ہٹ گئے اور انہوں نے رجسٹرار ہائیکورٹ سید خورشید رضوی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ سہولیات دیے بغیر کچہری کیوں منتقل کی گئی ؟ اس وقت کے سیشن جج کو غلط رپورٹ مرتب کرنے پر بھی کھری کھری سنائی گئیں ۔ رجسٹرار ہائیکورٹ اور سیشن جج ملتان کو خاموش پیغام بھی دیا گیا کہ کچہری کی منتقلی ایک منصوبہ نہ تھا بلکہ ایک شخص کی انا کی تسکین تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کچہری کو واپس زیرو پوائنٹ پر منتقل کرنے کا حکم دے کر ملتان کی تاریخ اور وکلاءکے بھرم کو بچالیا مگر وہ منتقلی عارضی تھی ۔ اب چیف جسٹس پاکستان کے دورہ ملتان کے دوران انہیں پولیس لائن بھی دکھائی گئی ۔ انہوں نے لودھراں اور ساہیوال کے اضلاع کی ہائیکورٹ ملتان بنچ سے علیحدگی کے سلسلے کے مسئلہ کو حل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ۔ بنیادی حقوق کےلئے اپنا آرام قربان کرنے والے چیف جسٹس پاکستان کو ملتان کے شہریوں کا بنیادی حق ”پرانی کچہری“ کی شکل میں بخش دینا چاہیے کہ انصاف کے عمل کی تکمیل کے لئے لمبا سفر زیادہ اخراجات کا سبب بنتا ہے اور سنا ہے کہ انصاف سستا ہونا چاہیے ۔چیف صاحب اگر ملتان کچہری کا مسئلہ ادھورا چھوڑ کر ریٹائر ہوگئے تو پراپرٹی مافیا پھر سے افسر شاہی کو رام کرلے گا۔
فیس بک کمینٹ