رضی الدین رضیکتب نمالکھاری
زبیر شفیع غوری آثاریات سے شاعری تک ۔۔ رضی الدین رضی

زبیر شفیع غوری کی کتاب ” سوچ سفینہ “ ہمیں اپریل میں موصول ہوئی اور ہم نے اس کا پیش لفظ تو پہلے روزہی ایک ہی نشست میں پڑھ لیا تھا اور سوچا تھا تفصیل کے ساتھ انہیں اس کی رسید دیں گے ۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ مصروفیت اور روایتی تساہل آڑے آیا اور ہم اس کتاب پر کچھ لکھ بھی سکے اور نہ ہی زبیر بھائی کواس کی رسید دی ۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ آج پانچ ستمبر کو ہم نے جب اس کتاب کو دوبارہ پڑھا اور اس پر مضمون لکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ آج ان کا جنم دن بھی ہے ۔ زبیر شفیع غوری پانچ ستمبر 1960 کو خوشاب میں پیدا ہوئے تھے۔ اس طرح یہ مضمون ہماری جانب سے ان کے لئے سالگرہ کا تحفہ بھی قرار پایا کہ کسی تخلیق کار کے لئے اس سے اچھا تحفہ کیا ہو گا کہ اس کے جنم دن پر اس کے لئے مضمون تحریر کیا جائے ۔ سو اب سب سے پہلے زبیر شفیع غوری کو جنم دن کی مبارک باد کہ مضمون تحریر کرنے میں تاخیر پہلی بار بر محل اور بروقت محسوس ہوئی کہ اسی کو دیر آئید درست آئید کہتے ہیں ۔
شاعری کے ذکر سے پہلے ایک بار پھر اس کتاب کے پیش لفظ کا ذکر کرتے ہیں ۔ہمیں توان کے پیش لفظ نے ہی کچھ ایسے حصار میں لیاکہ آج بھی جب اس کتاب پرلکھنے بیٹھے تواس پیش لفظ کوایک مرتبہ پھرپڑھاکہ اس میں ان بہت سی ہستیوں کاذکرہے جن سے ہمارا محبت بھرارشتہ ہے۔زبیر شفیع غوری کابچپن لیہ میں گزرا اوروہیں سے انہوں نے اپنے علمی وادبی سفرکاآغازکیا۔پیش لفظ میں ڈاکٹرخیال امروہو ی ،نسیم لیہ ،غافل کرنالی ،شعیب جاذب اورارمان عثمانی کا ذکرموجودہے۔پھرارمان عثمانی کی نسبت سے ان کے استادعلامہ عیش فیروزپوری کاذکرہے جن کی ملتان سے خاص نسبت تھی ۔اسی پیش لفظ میں حکیم عبدالمجیدراہی اورسجادبریلوی کاتذکرہ بھی ہے۔زبیرشفیع غوری نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنی ادبی زندگی کے ا وائل کاذکرکیاہے ۔
ہم زبیرشفیع غوری کو ریلوے کے افسر اورآثارقدیمہ کے ماہرکی حیثیت سے جانتے تھے ۔او چ شریف کی تاریخ کے حوالے سے ان کی تحقیقی کتاب بھی ہمارے زیرمطالعہ رہتی تھی اورہمیں جب بھی آثاریات کے حوالے سے یااو چ شریف کے حوالے سے کچھ دریافت کرناہوتا توزبیر شفیع غوری یاان کی کتاب ہماری مددکرتی ۔ان کی کتابوں میں ”او چ شریف ۔تاریخ ،ثقافت ،آثار ِ قدامت وعظمت“، ”مولتان دوران محاصرہ اورمابعد“ ، ”راوی کنارے کی ہڑپائی بستیاں اورنیرنگ ایران “ شامل ہیں ۔
زبیر شفیع غوری کاشاعرہونا ہمارے لئے ایک خبرہے اورخبربھی ایسی کہ جسے خوشخبری کہناچاہیے ۔ان کے ساتھ اس سے پہلے جب بھی ملاقات ہوئی شاعری زیربحث ہی نہ آئی ۔ہم نے ہمیشہ ان سے نئی تحقیقی کتابوں کے بارے میں اوران کے تحقیقی مقا لے پرتبادلہ خیال کیااوربس ۔ایک مرتبہ وہ ادبی بیٹھک میں تشریف لائے توانہوں نے اس خطے کی تہذیب اورتاریخ کے حوالے سے سیرحاصل گفتگوکی تھی ۔یہ گفتگو ہم سب کےلئے حیران کن بھی تھی اورہمیں اس کے ذریعے اپنے خطے کے بارے میں ایسی بہت ساری معلومات حاصل ہوئیں کہ جن سے ہم پہلے بے خبرتھے ۔لیکن اب آثاریات کاذکررہنے دیں کہ صحراﺅں ،دریاﺅں ،پہاڑوں ،میدانوں اوران کے باسیوں سے محبت کرنے والے کی شاعری میں ہمیں یہ سب کچھ شاعرانہ حسن کے ساتھ دکھائی دیتاہے۔زبیرشفیع غوری کی شاعری میں ہمیں زندگی کے وہ تمام رنگ دکھائی دیتے ہیں جن رنگوں کوانہوں نے ایک ماہر آثاریات کی حیثیت سے تلاش کرنے کی کوشش کی ۔اس میں کوہ و دمن بھی ہیں اورچمن بھی ،گل وگلزار بھی ہیں اورغبار بھی ۔وہ عہد خزاں کا ذکر بھی کرتے ہیں اورصحرائے بےکر اں کابھی ،ان کی شاعری میں سمندراورسراب ہمیں ایک ہی مصرعے میں دکھائی دیتے ہیں ۔ڈاکٹرمحمد امین نے زبیرشفیع غوری کے بارے میں ”آثارشناسی میں حسن تغزل کی تلاش“کے عنوان سے جومضمون تحریر کیاہے اس میں انہوں نے ان کی شاعری کا اسی تمدن اورتہذیب کے پس منظرمیں تجزیہ کیا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کتاب میں شاعری کے وہ تمام حسن دکھائی دیتے ہے جواس دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔شاعریوں بھی تاریخ ،تہذیب اورا ساطیر ی حوالوں کو اپنی شاعری کے حسن میں اضافے کےلئے استعمال کرتے ہیں ۔لیکن اگرکسی شاعر کابنیادی موضوع ہی تاریخ تہذیب اوراساطیر ہو تواس کی شاعری میں کتناحسن ہوگااس کااندازہ اس کتاب کے مطالعے سے ہوتاہے ۔زبیر شفیع غوری کی اس کتاب میں غزل کے تمام وہ موضوعات موجودہیں جوغزل کو غزل بناتے ہیں ۔غم دوراں اورغم جاناں کاخوبصورت امتزاج ان کی شاعری کی بنیادی خوبی ہے ۔لیکن پہلے ہم اس کتاب سے تاریخ ،تہذیب اورا ساطیر کو تلاش کرتے ہیں اورپھر دیگرموضوعات کی جانب آتے ہیں
دریانے جورستہ چھوڑاتھا
اس پراب بھی سبزہ اگتاتھا
اونچے ٹیلوں کے بالکل پیچھے
پانی کاایک چشمہ بہتاتھا
تھوڑاہٹ کران راہوں سے
ماضی میں کوئی رہتاتھا
ٹوٹے پھوٹے برتن بکھرے تھے
کچی اینٹوں کاایک کمرہ تھا
۔۔۔
رات کاپچھلاپہر تھااورمیں تھا
یادکابپھرابھنورتھااورمیں تھا
۔۔
زیاں ہواہے نشیمن جلانہیں سارا
پلوں کے نیچے سے پانی بہانہیں سارا
نہ میرے زخم نئے ہیں نہ ان کی گھات نئی
فسانہ دل وجاں نیانہیں سارا
گواہ اب ہیں موجودصحن مقتل میں
لہوکے باقی ہیں دھبے دھلانہیں سارا
بحثیت مجموعی زبیر شفیع غوری کی شاعری تازہ ہوا کاایک جھونکاہے ہمیں ان کی شاعری میں جہاں روایت کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہیں ان کی شاعری میں الفاظ کا دروبست تلازمے تشبیہات اوراستعارے بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں ۔150صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 300روپے ہے اور اسے اقبال پبلشر لاہورنے بہت خوبصورت انداز میں شائع کیاہے ۔