اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے ،دشمن کو زیر کرنے کےلئے اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے ”انسانی ہجوم“ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔تاریخ انسانی میں دیکھا گیا ہے کہ استعمال کرنے والے ، استعمال ہونے والوں کو مقاصد کے حصول کے بعد بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں ۔ پاکستان کے شہر اقتدار کے ڈی چوک میں 126دن کا غیر سنجیدہ دھرنا اگر ایک ناتجربہ کار سیاستدان کو وزارتِ عظمی کی کرسی پر بٹھا سکتا ہے تو پھر ”دھرنے “ کو سیاسی مشکل کشا مانا جانا کوئی غلط بھی نہیں۔
ہجوم کے زور پر مخالف کو بے بس کردینا اور پھر مذاکرات پر لے آنا دراصل کوئی نئی بات نہیں ۔ عالم و فاضل اور کمال کے مقرر علامہ طاہر القادری اور جناب عمران خان عورتوں اور بچوں کو ”دھرنے “ کا ایندھن بنانے والے کوئی پہلے دھرنا ماسٹر نہ تھے اور شائد ہی مولانا فضل الرحمن آخری ہوں ۔
1212میں پہلی بار بچوں کو اپنی عسکری و نظریاتی جنگ میں استعمال کیا گیا ۔ عیسائیوں کے مذہبی اور فوجی رہنماﺅں نے صلیبی جنگوں میں مسلسل شکستوں کے بعد قوم کے جذبات ابھارنے کےلئے بچوں کو استعمال کیا تھا ۔ اٹلی کے شمالی کوہستان کے لوگوں نے دیکھا کہ ہاتھوں میں لکڑی کی صلیبیں اٹھائے ،حمدیہ گیت گاتے ،اسٹیفن نامی بارہ سالہ بچے کی قیادت میں بچوں کا جلوس وادیوں اور دیہاتوں سے گزرا ۔ اسٹیفن نامی بچہ یہ دعوی کررہا تھا کہ اسے یسوع مسیح نے ایک خط سونپ کر ہدایت کی ہے کہ وہ صلیبی جنگوں کا راستہ دوبارہ ہموار کرے ۔ اس وقت کے مذہبی رہنماﺅں نے اسٹیفن کو یقین دلایا تھا کہ جب وہ سمندر کے کنارے پہنچیں گے تو ایک کرامت کے ذریعے سمندر ہٹ جائےگا اور انہیں راستہ مل جائے گا۔ ان کے سرزمین مقدس پہنچتے ہی سارے مسلمان عیسائی ہوجائیں گے اور اس طرح وہ بیت المقدس کو فتح کرنے میں کامیاب ہوجائینگے ۔
بچوں کے جلوس سے جب لوگ پوچھتے کہ وہ کہاں جارہے ہیں تو انہیں جواب ملتا” خدا کے پاس“ یہ بچے ونیڈوم کی وادی کے غریب چرواہوں کی اولاد تھے ۔ کلیسا کے طاقتور ترین پوپ، انوسینٹ نے ، بچوں کی مثال دے کر لوگوں کے جذبات ابھارے اور انہیں گھروں سے نکلنے کی ترغیب دی ۔ چرچ کا مقصد تو پورا ہوگیا کہ ایک بڑا ہجوم گھروں سے نکل آیا مگر جب انہیں سمندر نے راستہ نہ دیا اور ” کرامت“ رونما نہ ہوئی تو بہت سارے بچے گھروں کو پلٹ گئے اور کچھ بحری قزاقوں اور بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہیں جہازوں پر بٹھا کر یروشلم لے جانے کی بجائے تیونس اور اسکندریہ لے جا کر غلام بنا کر فروخت کردیا گیا ۔ ایک بحری جہاز راستے میں ہی غرق ہوا کچھ بچے سالوں بعد صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گھروں کو پلٹے جو بیٹیاں انسانی درندوں کے ہاتھوں اپنی عزت لٹواچکی تھیں انہیں پھر نفرت اور حقارت سے شیطان کی کنیزیں پکارا جانے لگا ۔ بچوں کے اس بہیمانہ استحصال کی بنیاد پر پاپائے روم کو صلیبی جنگوںکے مردہ بدن میں جان ڈالنے کے لئے ایک نئی تحریک مل گئی۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر نے برطانوی شاہی فضائیہ کے جنگی قیدیوں کو اتحادی افواج کے ہوائی حملوں کے خلاف انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ 7اگست 1944ءکو پولینڈ میں سویلین خواتین کو مسلح گاڑیوں پر انسانی ڈھال کے طور پر زبردستی استعمال کیا گیا ۔ بیلجیئم نے مئی 1940 ءمیں 140میں سے 86ایسے سویلین مارے گئے جنہیں جرمن افواج نے فائرنگ کی زد میں آئے ہوئے ایک پل کو عبور کرنے کے لئے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ 1979ءمیں 20نومبر سے دسمبر کے پہلے ہفتے تک تقریبا500مسلح باغیوں نے ، جن میں عورتو ں اور بچو ں کے ساتھ ساتھ حجاج کرام کو انسانی ڈھا ل کے طور پر استعمال کیا۔ کویت پر قبضے کے بعد صدام حسین کی حکومت پر 1990-91 ءکی خلیجی جنگ میں پکڑے گئے مغربی ممالک کے سینکڑوں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے الزامات لگے ۔
امریکہ نے 1991ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ عراقی حکومت نے اپنے فوجی ہتھیار ، جنگی سازو سامان اور جیٹ طیارے مختلف سویلین اداروں ، عالمی ورثہ رکھنے والے تاریخی مقامات، بین الاقوامی ہوٹلز کی چھتوں ، عام دیہی علاقوں اور معصوم شہریوں کے گھرو ںکے قریب پھیلا کر انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعما ل کیا۔
2007ءمیں اسلام آباد کی لال مسجد سے متصل مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے غیر قانونی مساجد کے انہدام کے ردعمل میں بچوں کی ایک لائبریری پر قبضہ کرلیا ۔ جون 2007ءمیں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبا ءوطالبات نے فحاشی کی ترویج اور جسم فروشی کا مکروہ دھندہ کرنے کے الزام میں کچھ چینی باشندوں کو بھی اغواءکیا اور مسجد کے اندر نظر بند کردیا ۔ جولائی 2007ءمیں رینجرز اور پولیس نے جب لال مسجد پر آپریشن کا آغاز کیا تو خواتین اور بچوں کو اپنی ہی فورسز کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں ”جنت کے سوداگر“ غریب اور دیہاتی بچوں کو خودکش حملوں میں استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ بیشتر والدین کو اپنے بچوں کی اس تربیت کا پتہ تب چلا جب وہ میت وصول کرنے کے لئے بلائے گئے۔
عمران خان نے وزارتِ عظمی کے حصول کے لئے 126دن خواتین اور نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں کا مسلسل استعمال کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد استعمال ہونے والی اسی نوجوان نسل کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔ مولانا فضل الرحمن بھی مدرسوں کے طلباءکی فوج ظفر موج لیکر اسلام آباد پر یلغار کرنے والے ہیں ۔ کنٹینر اور حلوہ فراہم کرنے کے وعدے کرنے والی حکومت اب مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کا راستہ روکے گی۔
مولانا فضل الرحمن کو انسانی ڈھال کے استعمال کے کامیاب گر عمران خان اور طاہر القادری نے سکھائے تھے ۔ اسلام آباد میں ہونے والال دھرنا اس لحاظ سے مختلف ہوگا کہ پولیس نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے دھرنا حاضرین کو ٹینٹ ، ہوٹل کے کمرے ، روٹی ، پانی ، لاﺅڈ سپیکر اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزیں فراہم کرنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی کا انتباہ کردیا ہے۔ ”اندر “کے تجزیہ کار اس بات پہ بضد ہیں کہ کوئی مانے نہ مانے 126دن والے دھرنے اور مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا سکرپٹ رائٹر ایک ہی ہے اور مقاصد بھی مختلف نہیں مگر ہم عمران خان کے دھرنے کی طرح مستقبل قریب میں ہونے والے دھرنے کے بھی مخالف ہیں کہ بلیک میلنگ کے ذریعے نظام کو ڈی ریل کرنا غیر مناسب اور غیر جمہوری ہے ۔ یہ الگ بات کہ موجودہ حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا اور نہ ہی کوئی وعدہ پورا ہوا جو حکومت میں آنے سے پہلے کیا گیا۔ ہم دعا گو ہیں کہ دھرنے کا ایندھن بننے والے خیر خیریت سے اپنے گھروں کو لوٹیںکہ اب کی بار اسلام آباد کا کنٹرول اعجاز شاہ کے سپرد ہے ۔