عمران خان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کے شرکاءسے خطاب کرنے اور سعودی عرب کی مالی مدد حاصل کرکے وطن واپس پہنچے اور قوم سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر سے قبل قرآن پاک کی الم نشرح والی سورة مبارکہ کی تلاوت کی گئی جس کی ایک آیت شریف کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ”پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے“۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں قاری کی تلاوت اور ترجمہ سن کر اندازہ ہوجاتا تھا کہ جنرل صاحب نے کس نوعیت کی بات کرنی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے پہلے جو سورة مبارکہ تلاوت کی گئی وہ ویسے بھی بہت برکت والی سورة ہے۔ رحمت کا تصور یا اس کے وجود کا ثبوت اللہ تعالیٰ نے خود عطا فرمایا ہے۔ اس ذات پاک کا ارشاد ہے اور یہ ارشاد بڑے زور دار لہجے میں آیا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔یعنی خبردار میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
عمران خان نے بتایا کہ سعودی عرب سے ہمیں زبردست پیکیج مل گیا ہے جس کے لیے میں سعودی عرب کا شکر گزار ہوں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔ کوئی مبالغہ نہیں واقعہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری نابود ہے، زرمبادلہ مفقود ہے ،مقامی کاروبار پر جمود ہے۔ ملک گردن تک قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اگر ہمت کی پستی اور طبیعت کی خرمستی آڑے نہ آئے، نیز نیت بھی درست ہو تو قرض ادا ہوسکتا ہے۔ مرض شفا پاسکتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کےلئے باہر سے مہنگے ایکسپرٹ منگوانے اور سقراطی و بقراطی فارمولے بنانے کی نہیں بلکہ سادہ سا اصول اپنانے کی ضرورت ہے اور وہ ہے آمدن و خرچ میں توازن اور ضروریات و فضولیات میں فرق۔ وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا یہ دوسرا دورہ تھا جو خالصتاً معاشی معاملات کے حوالے سے تھا۔ توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے اور دوست ملکوں کو مشکل وقت میں پاکستان کی امداد پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے شرم آتی ہے بیرون ملک بھیک مانگتے ہوئے۔ یقینا کپتان نے صرف پاکستان کےلئے اپنے مزاج اور اپنی فطرت کے برعکس خود کو بے شرمی کا شکار کیا اور اب دکھی دل اور افسردگی کےساتھ آئی ایم ایف کی جانب بھی جارہے ہیں۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسے وقت، کہ امریکہ آئی ایم ایف کے قرضے کے حصول کی مجبوری کو افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر دباؤڈالنے اور نئی دہلی، واشنگٹن کے ذریعے اسلام آباد کےلئے مشکلات پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ 6 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیردفاع جم میٹس نے نئی دہلی میں جو معاہدے کئے اور مشترکہ اعلامیہ میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے پاکستان کے لیے کسی صورت خوشگوار نہیں کہا جاسکتا۔ یہ عجیب تجویز بھی سامنے آئی کہ آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بنائے کہ اسلام آباد کو قرض میںدیئے گئے ڈالر چین کا قرضہ بے باق کرنے کے کام نہیں آئیں گے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تنی ہوئی رسی پر چلتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان اپنے طور پر بھی بحران سے نکلنے کے لیے دورس اقدامات کرتا نظر آرہا ہے۔ جن میں سادگی اور کفایت کے طریقے اختیار کرنے ، درآمدات گھٹانے، برآمدات بڑھانے کی کوششیں سرفہرست ہیں۔ منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے بھی ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے۔ برطانیہ سے ٹیکس معلومات کے تبادلے کا معاہدہ طے پاچکا ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کا طریق کار سادہ بنایا جارہا ہے۔ ان سب اقدامات کو ان کی سچی روح کے ساتھ بروئے کار لایا گیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ جلد معاشی بحران سے نکلنے کے آثار نظر آنے لگیں گے۔
قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے اپوزیشن کو للکارا اور کہا ”کہ کسی کرپٹ کونہیں چھوڑیں گے اور نہ کوئی این آر او ہوگا۔ کرپٹ لوگ جیل جائیں گے۔ ان کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ عوام سے وعدہ کرکے آیا ہوں“۔ ارے بابا اب آپ وزیراعظم ہو۔ کوئی آپ سے این آر او نہیں لے گا اورنہ ہی کوئی وزیراعظم اپنے ہاتھوں سے لوگوں کو جیل میں ڈالتا ہے۔ ضرور احتساب کرو‘ بدعنوانوں پر بھرپور ہاتھ ڈالو اور کہنا یہ چاہیے تھا کہ نیب خود مختار ادارہ ہے اور عدالتیں آزادانہ فیصلے کررہی ہےں اور ہم ہر سطح پر کرپشن کے خلاف اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ آپ نے خوا مخواہ اپوزیشن کی سرگرمیوں کا ذکر کرکے انہیںاہمیت دےدی۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ میرے دوست سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم آئے دن آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کےخلاف بیانات دیا کرتے تھے تو ایک مرتبہ ارباب صاحب کے بیان پر محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی توجہ دلائی گئی تو محترمہ نے فوراً جواب دیا تھا کہ “Who is she” یعنی اہمیت ہی نہیں دی۔ گزشتہ دوماہ میں حکومت کے بعض ذمہ داروں کی انتظامی امور میں ناتجربہ کاری ، ذہنی ناپختگی اور عدم معاملہ فہمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ حالانکہ ہر وزیر اور مشیر نوعمر اور نو وارد نہیں۔ موجودہ لیڈروں کے مقابلہ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کہیں زیادہ ذہین، بہت پڑھے لکھے اور عصری تقاضوں کو سمجھنے والے تھے۔ اظہار پر قدرت رکھتے تھے۔ تبادلہ خیالات کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کو کارسرکار کا طویل تجربہ تھا۔ ان کو بھی خوشامدیوں نے گھیر لیا تھا اورچالاک افسران اپنے نرغے میں لے آئے تھے ‘جناب بھٹو کو پانچ برس لگے تھے آپ کو تو 60 دن کے اندر مخصوص گروہ نے گھیر لیا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کامیاب حکمرانی کا راز بہترین مشیروں اور ساتھیوں کے انتخاب میں ہے۔ آپ کے آفس کا تو یہ حال ہے کہ آپ کے قوم سے خطاب کا ابتدائیہ ایک نجی ٹی وی پر آپ کی تقریر سے پہلے نشر ہوگیا۔ ایک نعیم الحق صاحب ہیں۔ ڈی چوک پر یوٹیلیٹی کارپوریشن کے ملازموں نے دھرنا دیا ہواتھا‘ ان سے خطاب کرنے پہنچ جاتے تھا۔ ان کو یقین دہانیاں کراتے۔ ارے بھائی آپ کو جانا تھا تو اس امر کو یقینی بناتے کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیتے۔ نہ آپ کا یہ کام تھا اور نہ ہی آپ وزارت پیداوار کے مشیر تھے۔ نعیم الحق صاحب خطاب فرمارہے تھے اور مشیر عبدالرزاق داؤد سے دھرنے والوں کے مذاکرات ناکام ہو رہے تھے۔ گو اب یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور دھرنا ختم کردیاگیا ہے۔
اقتصادیات میں Sentiments کی بنیاد پر اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ انتخابات سے پہلے عمران خان نے کہا تھا اسلام آباد والو اسد عمر کو ووٹ دو یہ ہمارے وزیرخزانہ ہونگے۔ ان کو تو بہت زیادہ ہوم ورک کرنا چاہیے تھا پہلے سے ۔ لیکن انہوں نے اب تک مایوس کیا۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وزیر خزانہ سے زیادہ طاقتور اور بااثر سرمایہ کار ہوتا ہے۔ اس شعبہ میں طاقت نامعلوم دولت والے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری صاحب ایک ذہین اور جہاں دیدہ ہستی چودھری الطاف مرحوم کے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ کسی نہ کسی سے الجھتے رہتے ہیں انہوں نے کہاکہ ”بیوروکریسی کو ہماری پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ گھر چلی جائے “۔ دوماہ کے اندر یہ نوبت آگئی۔ یہ درست ہے کہ افسر شاہی میں پی ٹی آئی کی پہلے سی کوئی مضبوط لابی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی اقتدار میں رہے تھے ۔ ان کو کیا معلوم کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بیوروکریسی کے اندر کیسے کام کیا گیاہے۔
آئندہ چند دنوں کے اندر بہت کچھ ہونے جارہا ہے۔ ڈیل ہورہی ہے یا ڈھیل دی جارہی ہے سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ عمران خان نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ میں کوئی ڈیل نہیں کروں گا۔ کھیل شروع ہوا چاہتا ہے۔ یہ حکومت فی الحال چلے گی۔ نئے کام ہونگے۔ نیا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ خدا کرے یہ چند روز آرام سے گزر جائیں اور کوئی حادثہ پیش نہ آئے تو پھر قوم کو خوشخبریاں سننے کو ملیں گی۔ 50 لاکھ گھروں پر بعد میں تحریرکروں گا۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ ضروری ہے کہ عمران خان پوری تیاری اور ہوم ورک کرکے چین کے دورے پر جائیں۔ وہ چینی صدر شی جن پنگ اور دوسرے قائدین سے ملاقات کے دوران چینی قیادت میں پیدا شدہ بدگمانی ، وسوسے اور شکوک و شبہات کو دور کریں۔ نہ جانے عبدالرزاق داؤد نے سی پیک کا ازسر نو جائزہ لینے کا اعلان کس کے اشارے پر کیا تھا۔ سعودی عرب کی طرح چین کا دورہ بھی کامیاب ہوگا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان دونوں ممالک کا دورہ کرکے وزیراعظم اور پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر جو بھی پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا تو پاک سرزمین اسی پر تنگ ہوجائے گی۔ یہ قدرت کا فیصلہ ہے۔ پاکستان کو مصائب اور مشکلات سے نکلنا ہے۔ بہت ہوگیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ