گزشتہ روز اسلام آباد کے ادبی میلے میں ایک مکالمے کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے واضح کیا تھا کہ ’ملک خیرات اور عطیات پر نہیں چلتے ، اس کے لیے ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا اور نجی شعبہ کو ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے آگے آنا پڑے گا‘۔ اور آج پاکستان کے لوگ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ایک خود کش دھماکے میں 26 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبر کے ساتھ بیدار ہوئے۔
ان دونوں وقوعات کا براہ راست ایک دوسرے سے تعلق نہ ہونے کے باوجود دیکھا اور جانا جاسکتا ہے کہ جس ملک میں حکومت تمام تر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود دہشت گردی پر قابو پانے اور شہریوں کی زندگی کو لاحق خطرات ختم کرنے میں کامیاب نہ ہورہی ہو، وہاں پر سرمایہ کاری کے امکانات کی کیوں کر توقع کی جاسکتی ہے؟ گزشتہ ہفتے کے دوران ہی اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران چینی سفیر نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کہ اگر پاکستان چینی شہریوں کی حفاظت کا اہتمام کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو سی پیک کے تحت سرمایہ کاری میں مشکلات حائل ہوسکتی ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے ملک کے سفیر نے دیا ہے جو عام طور سے بین امللکی تعلقات پر بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتا ہے اور حکومتوں کے درمیان معاملات کو پبلک مباحثہ سے دور رہ کر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے چینی سفیر کے بیان کے بعد نرم الفاظ میں احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ لب و لہجہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تاہم وزارت خارجہ کی ترجمان اپنے ہی وزیر خارجہ کو شاید یہ بتانے کا حوصلہ نہیں کرسکیں کہ کسی پبلک پلیٹ فارم پر دو ملکوں کے باہمی تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ایسی لفاظی سے گریز کرنا چاہئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ کوئی ملک اپنے شہریوں کی جان و مال کی پروا کیے بغیر دو طرفہ تعلقات میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اس حوالہ سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ سرمایہ کاری کی صورت حال اس عذر سے بہتر نہیں ہوسکتی کہ دو لیڈروں کے درمیان کس لب و لہجہ میں بات ہوئی یا خیر سگالی کامظاہرہ کرنے کے لیے کسی غیر ملکی لیڈر نے وزیر اعظم کو کیا یقین دہانی کرائی تھی۔ ہر حکومت کہیں پر سرمایہ لگانے یا اپنے شہریوں اور کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ضرور کسی بھی ملک کے سماجی، سیاسی اور مالی حالات کا جائزہ لے گی۔ اسی کے بعد سرمایہ کسی مارکیٹ کا رخ کرے گا۔
سرمایہ کار خواہ کوئی دوست ملک ہو یا نجی کمپنیاں ہوں، وہ زیادہ تردد کے بغیر منافع کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یعنی جس ملک میں انہیں آسانی سے اور زیادہ پیچیدگی کے بغیر اپنے سرمایے کا تحفظ حاصل ہوگا ، مناسب داموں میں مقامی لیبر و مہارت دستیاب ہوگی، حکومتی ادارے خوشدلی سے تعاون کرنے اور سہولت فراہم کرنے پر آمادہ ہوں گے، مقامی قوانین و نظام عدل ان کے پاؤں کی زنجیر نہیں بنے گا ، وہ اسی ملک میں سرمایہ لگانے پر آمادہ ہوں گے۔ ان رہنما اصولوں کے تناظر میں پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو کوئی خوشگوار تصویر سامنے نہیں آتی۔ اس میں سب سے پہلے تو امن و امان کی حالت ہے، اس کے بعد ملک میں سیاسی تصادم کا ماحول ہے۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کل ملک میں کیا حالات ہوں گے اور منافع کمانے کے لیے یہاں آنے والے ملکوں یا سرمایہ کاروں کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کوئٹہ میں آج ہونے والا دھماکہ ایک قومی المیہ کی علامت کرتا ہے جس کا سلسلہ تمام تر مذمتی بیانات اور عملی کوششوں کے باوجود دراز ہوتا چلا جارہا ہے۔ کیوں کہ اس بدامنی اور تشدد کی کارروائیوں کو حکومت چند علیحدگی پسند گروہوں کی دہشت گردی کہہ کر ’غیر اہم‘ بتانے کی کوشش کرتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مٹھی بھر عناصر پاکستانی قوم و حکومت کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتے کیوں کہ انہوں نے آگے بڑھنے اور معاشی ترقی کرنے کا عزم کرلیا ہے۔ عملی طور سے یہ عزم محض غیر ملکی دوروں اور سربراہان مملکت سے ملاقات میں سرمایہ کاری کی درخواستیں کرنے تک محدود ہے۔ ہوسکتا ہے پاکستان کا وزیر اعظم جب کسی دوست ملک کا دورہ کرتا ہے اور وہاں کی قیادت کے سامنے سرمایہ کاری کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے تو وہ جواب میں سفارتی نرم روی کا مظاہرہ کرتے ہوں ۔ لیکن یہ مہذب طریقہ اظہار سرمایہ فراہم کرنے کا وعدہ نہیں ہوتا لیکن ہماری حکومت اوراس کے کارپرداز ایسے اشاروں کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سناکر قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
البتہ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی اسلام آباد میں بے تکلفانہ گفتگو سے ایسے بہت سے تاریک پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے جو یوں تو عام نظروں سے اوجھل نہیں ہیں لیکن حکومت اور اس کے ترجمان کبھی ان پہلوؤں پر توجہ دلانے اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ’عطیات سے ملک نہیں چل سکتے۔ ڈپازٹ اور قرضوں میں توسیع کے لیے اب کوئی تیار نہیں ہے۔ ملک کو چلانے کے لیے نجی شعبے کو آگے آنا ہوگا‘۔ اگرچہ بیان کا یہ حصہ بھی الجھا ہؤا اور مبہم ہے لیکن ایک بات تو واضح ہوئی ہے کہ ملک کا وزیر خزانہ پاکستانی عوام کو یہ پیغام پہنچا رہا ہے کہ اب دوستی کے نام پر کوئی پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ کاری اور معاشی احیا کی ضرورت ہوگی تاکہ ملک اپنے وسائل میں اضافہ کرے اور خود اپنے ہی وسائل سے خالی خزانہ بھرا جاسکے اور عوام کی ضرورتیں پوری ہوں۔
محمد اورنگ زیب نے واضح کیا کہ ملک میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا، نئے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنا اور قومی آمدنی میں مسلسل اضافہ بے حد ضروری ہے۔ موجودہ حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافہ کی کوشش کرنے والی پہلی حکومت نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی حکومتیں تسلسل سے یہ کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن ناکام بھی رہی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اس مقصد میں کیسے کامیاب ہوگی؟ وزیر خزانہ کے پاس اس سوال کا کوئی براہ راست جواب نہیں تھا۔ شاید ملک میں کسی بھی ماہر معاشیات کے پاس اس سوال کا جواب موجود نہیں ہے۔ سب طریقہ بتا سکتے ہیں لیکن اس طریقے پر عمل کے لیے حکومت کو پرعزم اور عوام کو تعاون پر آمادہ ہونا پڑے گا۔
ملک میں یہ صورت حال دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسی لیے محمد اورنگ زیب نے کہا کہ اگر نئے ٹیکس ادا کرنے والے سامنے نہ آئے تو حکومت کو مجبوراً تنخواہ دار طبقے اور صنعتوں پر ہی مزید ٹیکس کا بار ڈالنا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتادیا کہ اب یہ دونوں طبقات بھی مزید بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ صنعتوں پر ٹیکس و محاصل سے آمدنی حاصل کرنے کے لیے نئی صنعتیں لگنا ضروری ہیں ، جس کے لیے سرمایہ درکار ہے۔ اسی طرح طرح تنخواہ دار طبقے سے مزید ٹیکس وصول کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ملک میں روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں اور اس طرح حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس مقصد کے لیے بھی سرمایہ کاری اور نجی شعبے کو متحرک و مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔ البتہ امن و امان کی صورت حال و سیاسی بدامنی مسلسل مشکل کا سبب بنی ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ نے بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیات کی صورت حال کو خطرناک قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب آبادی میں اضافہ کو محض ٹائم بم کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا، یہ دھماکہ ہوچکا ہے۔ ملک کی آبادی 24 کروڑ ہے اور اس کا پیٹ بھرنے اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو اندازہ کیا جائے یہ آبادی چالیس پچاس کروڑ ہوجائے گی تو اس کی ضرورتیں کیسے پوری ہوں گی؟ یہ اہم سوال ہے لیکن اس اہم سوال پر کسی فورم پر تسلسل سے مباحثہ کا اہتمام دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی حکومت کی پالیسیوں میں کوئی ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے قیاس کیا جاسکے کہ اقتدار پر قابض عناصر کو حقیقی مسائل کا ادراک ہے اور وہ انہیں حل کرنے کے لئے مناسب اقدمات لے رہے ہیں۔ پاکستان میں آبادی، غربت اور ماحولیات پر بات چیت غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے و الی این جی اوز تک محدود رہتی ہے۔ یہ پریشانیاں سرکاری پالیسیوں میں منعکس نہیں ہوپاتیں۔ ملک کے وزیر خزانہ نے جو باتیں ایک ادبی میلہ میں ہونے والے ایک مکالمہ میں کی ہیں ، اصولی طور سے تو انہیں یہ باتیں کابینہ کے اجلاس یا پارلیمنٹ میں کرنی چاہئیں لیکن لگتا ہے کہ وہاں ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ اور وہ ایک پبلک پلیٹ فارم پر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
یہ بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی میڈیا میں گزشتہ روز کی جن خبروں کو نمایاں طور سے پیش کیا گیا تھا، ان میں وزیر خزانہ کی کہی ہوئی باتیں شامل نہیں تھیں۔ جن اخبارات نے اس خبر کو شائع کرنے کی ضرورت محسوس کی ، وہاں بھی نئی تازہ بہ تازہ سنسنی خیز خبروں کے ہجوم میں یہ ’بے ضرر‘ خبر دب کر رہ گئی۔ اس رویہ سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ احساس زیاں کا احساس کسی بھی قومی سطح پر موجود نہیں ہے۔ اور آج ایک خود کش حملے اور دور درجن سے زائد افراد کی ہلاکت نے تصویر کو مزید خون آلود اور پیچیدہ کردیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف مسلسل بیرونی دوروں میں سرمایہ کاری لانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سرمایہ کاری کے لیے حالات بہتر بنانے کی طرف توجہ مبذول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا تشدد بنیادی طور پر سیاسی محرومی کی وجہ سے نشو و نما پاتا ہے۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد بھی اسی لیے طاقت پکڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں کیوں کہ حکومت قبائیلی علاقوں میں لوگوں کی ضرورتوں، پریشانیوں اور تکلیفوں کی طرف توجہ مبذول نہیں کرپاتی ۔ اس پر مستزاد قومی سطح پر انتخابی دھاندلی اور ایک بڑی پارٹی کے ساتھ مسلسل تصادم نے معاملات کو مزید پیچیدہ اور دشوار بنا دیا ہے۔
اس منظر نامہ میں ملک کے وزیر اعظم کو سرمایہ کاری کے لیے ملک ملک دوڑ بھاگ کرنے سے پہلے قومی سطح پر ہم آہنگی، مفاہمت اور امن و امان بحال کرنے کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے۔ الزا م تراشی کرنے، چند گروہوں کو الزام دے کر مسئلہ کو نظر انداز کرنے سے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت ہی نہیں دہشت گرد اور قوم پرست گروہوں سے نمٹنے کی حکمت عملی میں ملوث سب ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور قابل عمل راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ لوگوں کو خود سے دور کرنے اور مزاحمت پر مجبور کرنے کی بجائے، گلے لگانے اور دل کا حال کہنے اور سننے کی کوشش کی جائے تاکہ یہ قوم موجودہ اور مستقل قریب میں رونما ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار ہوسکے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ