24اگست 1950ءکو ملتان کے علاقے بوہڑ گیٹ میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا، جس کے آباءواجداد تو زرگرتھے ،لیکن اس بچے نے زرگری کی بجائے مٹی کو سونابنانے کاعمل شر وع کردیا۔صادق علی شہزادکو بچپن ہی سے مصوری کاشوق تھا ۔پہلے انہوں نے زمین پر اور کاغذ پر تصویریں بنائیں ،پھر رفتہ رفتہ مٹی کو گوندھ کر مجسمے بنانا شروع کردیئے ۔مجسمہ سازی کوئی آسان کام نہیں،لیکن صادق شہزاد نے اسی فن کو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیا۔1965ءمیں پرائیویٹ طورپر میٹرک کا امتحان پاس کیا،پھر سول لائنز کالج میں داخلہ لیا، لیکن اصل جنون مجسمہ سازی تھا۔انہوں نے سینکڑوں مجسمے بنائے اورعمربھر اسی فن کے ساتھ وابستہ رہے ۔پلاسٹر آف پیرس سے بنے ہوئے اُن کے مجسمے آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں۔ابتداءانہوں نے پورٹریٹ مجسموں سے کی ۔مختلف شخصیات کے مجسمے بنائے ۔جیسے زرگر سونے پر نقش ابھارتا ہے ، بالکل اسی طرح صادق شہزاد نے بھی مٹی سے شکلیں ابھارنا شروع کردیں۔خواجہ غلام فرید ،وارث شاہ اور دیگر صوفی شعراءکے مجسمے ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جیتی جاگتی تصویریں کہ جیسے وہ ابھی ہم کلام ہوجائیں گی۔انہوں نے صرف شخصیات ہی نہیں، ثقافت کوبھی مجسموں کاموضوع بنایااورمجسمہ سازی کی اس روایت کے بانی بھی وہی تھے ۔ صادق علی شہزادنے وارث شاہ کی ہیر اور بانسری بجاتے رانجھے کے مجسمے بنائے ،دیہات کے منظرنامے کو نقش کیا،چرخہ کاتتی عورت اور ایسے بے شمار مجسمے کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔وہ مجسمہ سازی میں پلاسٹر آف پیرس کااستعمال کرتے تھے اور ان مجسموں کے ذریعے لوگوں تک کوئی نہ کوئی پیغام بھی پہنچاتے تھے ۔مصوروں نے تصویروں کے ذریعے تو اپنا مدعا بارہا بیان کیا ،لیکن مجسموں کو اظہار کاایسا ذریعہ صرف صادق شہزادنے ہی بنایا۔بیرون بوہڑ گیٹ ایک چھوٹی سی دکان اوراس کے پیچھے ایک کمرے پر مشتمل رہائش گاہ، ان کے فن کامرکز رہی۔وہ دن بھر مجسمے تراشتے تھے اور پھر انہیں اپنی دکان کے ایک کونے میں سجا دیتے تھے ۔قائد اعظم ،علامہ اقبال سمیت کئی پاکستانی مشاہیر کے مجسمے ان کی آرٹ گیلری میں موجودتھے ۔ایک جانب فیض احمد فیض اور احمد فراز کے مجسمے کچھ اس انداز میں اپنی جانب متوجہ کرتے کہ جیسے وہ ابھی ہمیں شعر سنانے لگیں گے ۔ہیروارث شاہ کی طرح انہوں نے غالب ،اقبال اور احمد فراز کے بہت سے اشعار کو بھی مجسموں کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی ۔دیہی مناظر ،سیاسی موضوعات ،ادبی منظرنگاری اور غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے لوگ یہ سب ہمیں ان کے مجسموں میں دکھائی دیئے ۔ ہرفنکار کی طرح صادق شہزادکے مجسمے بھی ان کے جمالیاتی ذوق کے آئینہ دار تھے ۔انہوں نے بہت سے مجسموں کے ذریعے محبوب کے خدوخال ابھارنے کی کوشش کی ۔خدوخال ہی نہیں کئی مجسموں میں تو محبوب کا پورا پیکر موجودہے اورشاید اسی شان کے ساتھ مجسم کیاگیاہے ،جس شان کے ساتھ وہ مجسمہ ساز کے ذہن میں موجودتھا۔ 2007ءمیں اس وقت کے گورنر خالد مقبول نے الحمرا، لاہور میں صادق شہزادکے مجسموں کی نمائش کا اہتمام کیا۔محمد علی واسطی نے ملتان آرٹس کونسل میں اُن کے مجسموں پر مشتمل آرٹ گیلری قائم کی، جو انہی کے نام سے موسوم ہے ۔وہ ایک ایسے فن کی آبیاری کرتے رہے ،جس کا مستقبل بظاہر تاریک دکھائی دیتا ہے ۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاءپسندی مجسمہ سازی کے فروغ میں رکاوٹ بنی، لیکن صادق علی شہزادناامید نہیں تھے ۔وہ مجسموں کے ذریعے اپنے خطے کی تاریخ ایک نئے ڈھب سے تشکیل دیتے رہے ۔زمانے کی سردمہری سے مایوس ہو کر ایک بار صادق شہزادنے کہا تھا کہ ان مجسموں کو میرے ساتھ میری قبر میں ہی دفن کردینا،پھرایک روز جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ فن آپ کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا ،تو صادق شہزادنے کہا :نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا!کیاکبھی محبتیں بھی ختم ہوئی ہیں؟ یہ تو محبت کاسفر ہے ،جو جاری رہے گا۔میرے بعد کوئی اورآئے گا، جو مٹی سے شکلیں ابھارے گااوروہ مناظر تشکیل دے گا ،جو اس کے ذہن میں موجود ہیں۔ ممکن ہے ، آنے والے دور کافنکار پیدا بھی ہوچکا ہو، لیکن ابھی اسے تلاش کرنے والا کوئی نہیں۔اس فن کی آبیاری کرنے والا کوئی نہیں۔صادق شہزادصرف مجسمہ ساز ہی نہیں تھے ،وہ مجسم محبت تھے ۔ایک جنونی جواپنے فن سے محبت کرتاتھا ،جس نے اپناپورا جیون آرٹ کے لیے وقف کررکھاتھا۔وہ کسی اعزاز کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں مگن رہتاتھا۔ مجسمہ سازی میں جو اختراع صادق شہزادنے پیدا کی، وہ ہمیں کہیں اوردکھائی نہیں دیتی۔ملتان میں ہی نہیں وہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کے واحد فنکارتھے ۔انتہائی نفیس انسان کہ جوعشق کواپنا اوڑھنا بچھونا کہتاتھا ،جودھیمے لہجے میں بات کرتا تھا اور معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر اپنے انداز میں احتجاج کرتا تھا۔ صادق شہزادکو ہم نے ہمیشہ اس چھوٹی سی دکان میں دیکھا، جہاں وہ دن بھر مجسمہ سازی میں مصروف رہتے تھے ۔یہیں ایک بار فیض احمد فیض انہیں ملنے کے لیے آئے تھے ۔یہیں دنیا بھر سے آرٹ کے طالب علم ان سے ملاقات کے لیے آتے ۔وہ عاجزی ،انکساری اور محبت کاپیکرتھے ۔ایک بار فنکاروں کی ایک محفل میں کسی نے کہاکہ حکومت کو ہمارے فن پارے خریدنے کے لیے کوئی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہم آسودگی کی زندگی گزارسکیں،ہماری مالی مسائل کم ہوسکیں۔صادق شہزادسے جب اس بارے میں رائے لی گئی، تو وہ مسکرائے ،انہوں نے کہاکہ فن پارہ فروخت کرنا فن کی توہین ہے ،فنکار کی توہین ہے ۔ میں کئی راتیں لگا کرجو مجسمہ تیارکرتاہوں،کوئی اس کی بھلا کتنی قیمت دے سکتا ہے ؟یہ محبتوں کے سودے ہیں اور محبتوں کے سودے میں صرف خسارہ ہی ہوتا ہے اوریہی خسارہ دراصل منافع ہوتاہے ۔صادق شہزاد کی گفتگو میں کچھ عرصہ سے احتجاج دکھائی دینے لگا تھا۔ دھیمے لہجے میں بات کرنے والایہ فنکار اب کبھی کبھاربہت جذباتی ہوجاتاتھااورایسا کیوں نہ ہوتا۔صادق شہزاداظہارتونہیں کرتے تھے ، لیکن رائیگانی اور محرومی کااحساس وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جارہاتھا۔ان کاقصور تو بس یہی تھا کہ وہ ملتان میں پیدا ہوئے ۔لاہور ،کراچی ،اسلام آبادجیسے مرکزی شہر میں مقیم ہوتے ، تو ان کے فن کی پذیرائی بھی زیادہ ہوتی۔ شاید ان کی زندگی میں کوئی آسودگی بھی آتی۔شاید انہیں کسی اعزاز کا حق داربھی قراردیا جاتا، لیکن ملتان کی مٹی سے جنم لینے والایہ فنکار اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کی کوشش میں اسی مٹی کاحصہ بن گیا۔ 9فروری 2016ءکوجب اس کاجنازہ رخصت ہوا، تو مجھے باربار اس کاوہ جملہ یادآنے لگا، جو اس نے کئی برس پہلے کہا تھا “میرے مجسمے میرے ساتھ ہی دفن کردینا ،اس فن کی یہاں کوئی قدرنہیں”۔مجسمے توان کے ساتھ دفن نہیں کیے گئے ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ صادق شہزاد کے ساتھ ملتان میں مجسمہ سازی کا فن ضرور دفن ہوگیاکہ اس شہر میں اپنی نوعیت کے وہ واحد فنکارتھا۔ان کے بعداس فن سے وابستہ کوئی بھی شخص تو باقی نہیں رہا۔ممکن ہے ، آنے والے دور کا کوئی فنکار پیدا بھی ہوچکا ہو،لیکن ابھی اسے تلاش کرنے والا کوئی نہیں۔محبت کاسفر جاری رہے گا، لیکن صادق علی شہزادکاسفر توختم ہوگیا۔
فیس بک کمینٹ