یہ واقعہ دسمبر 2003ءکا ہے جب مہاراشٹر کے معروف ادبی، ثقافتی، سیاسی اور تہذیبی شہر ”پونے“ میں مراٹھی زبان کے مشہور ناٹک کار وجے ٹینڈولکر نے ایک تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:
”ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو آگ لگا کر راکھ کر دینے والے لوگ آج سماج میں اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اور ہم بھی ان کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں سے انعام و اعزازات قبول کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے وقت میں تو ہمارے ہاتھوں میں ہتھیار ہونا چاہیے۔ ایسے سفاک لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالنے سے ہی میری آتما کو سکون ملے گا۔ اس کے بعد عدالت میں یہ بیان بھی دے دوں گا کہ ان کا قتل مَیں نے سوچ سمجھ کر کیا تھا۔“
جس وقت مراٹھی زبان کے نامور ناٹک کار وجے ٹینڈولکر یہ اظہارِ خیال کر رہے تھے تو تمام حاضرینِ محفل حیران و پریشان تھے کہ آج وجے ٹینڈولگر کو کیا ہوا تھا؟ ان کی اس تقریر کو بہت سے ٹی وی چینل نے براہِ راست نشر کیا۔ اگلے دن کے اخبارات میں جب وجے کی اس تقریر کی خبر شائع ہوئی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی ذہنی حالت شاید اتنی بہتر نہ ہے کہ کچھ روز قبل ان کی جوان بیٹی کا اچانک انتقال ہوا تھا۔ لیکن اس تقریب کے ایک ہفتے بعد وجے ٹینڈولکر نے پھر اپنی پرانی تقریر کی تائید کی۔ اس میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ:
”اگر ان کو پستول مل جائے تو وہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کو گولی مار دیں گے اور گولی مارنے کے بعد عدالت کو یہ بیان بھی دیں گے کہ مَیں نے سوچ سمجھ کر مودی کا قتل کیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ:
”وہ ایسا سوچنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ انہوں نے پوری زندگی میں مودی سے گندا آدمی نہیں دیکھا۔“
یاد رہے مراٹھی زبان کے اس نامور ادیب کا پس منظر نہ تو تشدد پسند تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی تشدد کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ وہ سبزی خور برہمن ہیں۔ ان کے افکار بھی برہمنوں جیسے ہیں۔ ایسے میں وجے کے دو مختلف بیانات جن کا نفسِ مضمون ایک ہی ہے وہ 2003ءکے مودی کے ذہن کو لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ وجے ٹینڈولکر اصل میں گجرات میں فسادات کی شکل میں مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات پر دل گرفتہ ہوئے۔ اس کے بعد وہ اس بات پر خاصے رنجیدہ دکھائی دیئے کہ گجرات میں خون ریزی کے ذمہ دار کو انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔ یہ عہدہ ان کو انعام کی صورت میں عطا کیا گیا تاکہ مودی کے عزائم کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
2000ءسے لے کر 2019ءتک بھارت کے ہر زبان کے لکھاری نے نریندر مودی کے خلاف کھل کر لکھا۔ اور جب نریندر مودی کو بھارت کا وزیرِاعظم نامزد کیا گیا تب بھی بھارت کے ہر باشعور لکھنے والے نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس کا ماضی دیکھیں اور اس پر اعتبار نہ کریں۔
ارُن دھتی رائے سے لے کر علی سردار جعفری اور وجے ٹینڈولکر نے انسانیت کی بقا کی خاطر ہر دور میں تشدد پسندی کے خلاف آوازیں بلند کیں۔ جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھارت کے ان قلم کاروں کی پذیرائی ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے اہلِ قلم کو دیکھیں تو ان میں سے بے شمار لکھنے والے مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نامور لکھنے والوں کی رسائی صرف پاکستان تک محدود ہو گئی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی میں وطنِ عزیز کے لکھنے والے نجانے مودی یا بھارت کے خلاف کوئی واضح موقف اپنانے سے گریز کرتے رہے۔ جس جی وجہ سوشل میڈیا کے بزرجمہوروں کو اپنے افکار پھیلانے کا موقعہ مل گیا۔ 1965ءسے لے کر 1971ءکی جنگ میں ہمارے اہلِ قلم کا جذبہ تازہ دَم تھا۔ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد 24 گھنٹے قلم اور دیگر محاذوں پر پاک فوج کے شانہ بشانہ تھے لیکن اس مرتبہ حکومت نے بھی اس سلسلہ میں اہلِ قلم کے لیے مشترکہ طور پر کوئی پروگرام ترتیب نہ دیئے۔ اسی وجہ سے سب لکھنے والے گھروں میں خاموش بیٹھے رہے حتیٰ کہ فیس بک پر موجود لکھنے والے بھی اس کشیدگی پر کچھ نہ لکھ سکے۔
پاک بھارت کشیدگی میں لکھنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ادیب اپنی ذات سے باہر آ کر بھی سوچتا ہے۔ ادیب کو اپنے عصر کے تقاضوں کا ہم آہنگ ہونا چاہیے تاکہ وہ جرات کے ساتھ ظلم کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ادیب کا رول ختم ہو گیا ہے توپھر ہمیں 1965ءاور 1971ءکے دور کو سامنے رکھنا ہو گا کہ جنگ کے محاذ پر کہیں میڈم نورجہاں کی آواز جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھی تو کہیں پر شعراءکرام یہ لکھ رہے تھے:
”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے“
یہ سب باتیں اگر ماضی کا حصہ ہیں تو آج ہم اپنی صفوں میں ارُن دھتی رائے اور وجے ٹینڈولکر جیسے لکھنے والے کیوں تلاش کر رہے ہیں کہ شاید ان دونوں لکھنے والوں کے ذاتی عزائم نہ ہیں۔ لیکن شاید ہمارے ملک کے لکھنے والے اپنے مفادات میں گم ہو چکے ہیں اور اسی حالت میں وہ ملکی مفاد سے دور ہو چکے ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ