گزشتہ ہفتے ہم نے رمضان المبارک کی آمد اوربابا ہوٹل کی بندش کاذکرکیاتھا۔ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ ادیب اورشاعر ہوٹل بند ہونے کے بعد منتشر ہوگئے ہیں۔اگرچہ شام کو ہوٹل میں اب بھی بیٹھک ہوتی ہے لیکن دوپہر کو کبھی کبھار جو نشست ہوتی تھی وہ رمضان المبارک کی وجہ سے تعطل کاشکار ہوگئی۔اس ماہ کے دوران ادبی تقریبات بھی منعقد نہیں ہورہیں۔ایک اردواکادمی کا اجلاس ہی باقی رہ جاتا ہے جو آندھی ہو یا طوفان ،مارشل لاءہویاجمہوریت،ہڑتال ہویا جلوس،ہرحال میں جاری رہتا ہے۔سو اکادمی کااجلاس رمضان کے مہینے میں بھی جاری ہے۔اس شہر میں اورکوئی ایسی ادبی تنظیم ہی نہیں جس کے اجلاس اتنی باقاعدگی سے منعقد ہوں۔
ادبی تقریبات منعقد نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ادیبوں اورشاعروں میں رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم ادیبوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اورحادثات سے جلد آگاہ نہیں ہوپاتے۔مثلاً ہمیں یہ خبر بہت دیر سے ملی کہ مظفرگڑھ میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں حاضرین نے ملتان کے شعراءاورشاعرات کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔اپنے والد محترم کے ہمراہ مشاعرہ پڑھنے کے لیے جانے والی ایک شاعرہ کے ساتھ جوبدتمیزی کی گئی اس کی تفصیل عباس ملک نے ہمیں سنائی اوران تک یہ خبر شفیق آصف نے پہنچائی تھی جو خود بھی اس محفل میں موجودتھے۔حاضرین کے رویئے کی تفصیل ایسی نہیں کہ جسے اس کالم میں بیان کیاجاسکے۔نہ ہم ان شعراءکا نام درج کرنا چاہتے ہیں جو اس بے داد کاشکارہوئے۔تاہم یہ رجحان حوصلہ افزاءنہیں۔اس سے پہلے ملتان میں بھی اس قسم کا واقعہ پیش آچکا ہے اوربہاﺅالدین زکریایونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام ہونے والے مشاعرے میں طلباءنے شعراءکے ساتھ عموماً اور ملتان کے شعراءکے ساتھ خصوصاً بدتمیزی کامظاہرہ کیاتھا۔
مشاعروں کے زوال کی دیگر وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حاضرین کو ایسے شعراءکاکلام سننے پر مجبور کیاجاتا ہے جنہیں وہ نہیں سننا چاہتے۔اورحاضرین بھی وہ ہوتے ہیں جنہیں پنڈال بھرنے کے لیے پٹواریوں کے ذریعے مشاعرہ گاہ میں ہانکاجاتا ہے۔انجام اس کاکیا ہوگا اس بارے میں ہمارے رائے سردست محفوظ ہی سمجھیں۔
ادبی تقریبات منعقد نہ ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ادیبوں اورشاعروں میں رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم ادیبوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اورحادثات سے جلد آگاہ نہیں ہوپاتے۔مثلاً ہمیں یہ خبر بہت دیر سے ملی کہ مظفرگڑھ میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں حاضرین نے ملتان کے شعراءاورشاعرات کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔اپنے والد محترم کے ہمراہ مشاعرہ پڑھنے کے لیے جانے والی ایک شاعرہ کے ساتھ جوبدتمیزی کی گئی اس کی تفصیل عباس ملک نے ہمیں سنائی اوران تک یہ خبر شفیق آصف نے پہنچائی تھی جو خود بھی اس محفل میں موجودتھے۔حاضرین کے رویئے کی تفصیل ایسی نہیں کہ جسے اس کالم میں بیان کیاجاسکے۔نہ ہم ان شعراءکا نام درج کرنا چاہتے ہیں جو اس بے داد کاشکارہوئے۔تاہم یہ رجحان حوصلہ افزاءنہیں۔اس سے پہلے ملتان میں بھی اس قسم کا واقعہ پیش آچکا ہے اوربہاﺅالدین زکریایونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام ہونے والے مشاعرے میں طلباءنے شعراءکے ساتھ عموماً اور ملتان کے شعراءکے ساتھ خصوصاً بدتمیزی کامظاہرہ کیاتھا۔
مشاعروں کے زوال کی دیگر وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حاضرین کو ایسے شعراءکاکلام سننے پر مجبور کیاجاتا ہے جنہیں وہ نہیں سننا چاہتے۔اورحاضرین بھی وہ ہوتے ہیں جنہیں پنڈال بھرنے کے لیے پٹواریوں کے ذریعے مشاعرہ گاہ میں ہانکاجاتا ہے۔انجام اس کاکیا ہوگا اس بارے میں ہمارے رائے سردست محفوظ ہی سمجھیں۔
روزنامہ امروز لاہور۔12اپریل 1990ء
فیس بک کمینٹ