قیام پاکستان کے بعد کا ملتانی کلچر
قیام پاکستان کے بعد ہجرت کاعمل شروع ہوا تو اس نے ملتان کی تہذیب اور ثقافت کو یکسر تبدیل کردیا۔یہاں صدیوں سے آباد ملتانی ہندوبھارت چلے گئے اوربھارت کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانیں بولنے والے مہاجر ملتان آگئے۔روایتی قدیم ملتانی اندرون شہر کے صرف ایک حصے تک محدود ہو کررہ گئے اور باقی علاقوں میں ہریانوی ،اردو اور پنجابی بولنے والے آباد ہوگئے۔اہل ملتان نے اپنی روایتی مہمان نوازی کاثبوت دیتے ہوئے ان لٹے پھٹے مہاجروں کا کھلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہر کی تجارت اور پھر سیاست میں بھی ان کاعمل دخل بڑھ گیا۔ابتداءمیں مختلف زبانیں بولنے والے ایک دوسرے سے الگ تھلگ دکھائی دیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باہمی روابط میں اضافہ ہوا۔آپس میں شادیاں ہوئیں تو نئی رشتے داریاں قائم ہوگئیں اوراس کے نتیجے میں نئی زبان اور نئے کلچر نے جنم لیا۔
حملہ آوروں کے ساتھ آنے والے مہاجر ” ملتانی “ کیسے بنے ؟
ہجرت کا عمل ملتان میں پہلی بار نہیں ہواتھا ۔ہرعہد میں مختلف قوموں کے لوگ ہجرت کرکے ملتان آئے اور اس دھرتی کاحصہ بنتے گئے۔ان میں سے کچھ حملہ آوروں کے ہمراہ آئے تو کچھ نے تعلیم اوربہتر روزگار کےلئے اس شہر کا رخ کیا بلوچ، گیلانی، گردیزی، راجپوت، شیخ، انصاری، سید، صدیقی، کاظمی،قریشی،ڈوگر،بوسن،ہراج،خاکوانی ملتان میں آئے تو نہ صرف انہوں نے خود یہاں کی تہذیب و ثقافت کو قبول کیا بلکہ یہاں کی تہذیب نے بھی انہیں اس طرح اپنا بنایا کہ وہ خود کو ملتانی ہی کہنے لگے۔ایران سے ہجرت کرکے آنے والے بہت سے گھرانوں میں آج بھی فارسی بولی جاتی ہے۔آج مختلف زبانوں کا حسین امتزاج اس خطے کی زبان کو خوبصورت بنارہاہے اورمختلف ثقافتوں کے ملاپ سے ایک ایسی ثقافت جنم لے رہی ہے جو صرف اورصرف ملتان سے ہی وابستہ ہے۔
اسلامی فن تعمیر اور طرزِ معاشرت
محمد بن قاسم کی آمدکے بعد ملتان میں اسلامی فن تعمیر اور طرزمعاشرت کا آغازہواتھا۔اگرچہ قدیم ملتان کے فن تعمیر کی دومثالیں قلعہ ملتان اور سورج کنڈ مندر کی صورت میں پہلے یہاں موجودتھیں اور اس بات کو ظاہر کرتی تھیں کہ ملتان کے ماہرین تعمیر زمانہ قدیم میں بھی اپنے ہنر میں یکتا تھے۔لیکن محمد بن قاسم کے آنے کے بعد یہاں ایک نئے طرزِ تعمیر کا آغاز ہوا۔ساوی مسیت(سبز مسجد)اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت اظہاریہ ہے۔کوٹلہ تولے خان میں واقع اس مسجد کے بارے میں یہ طے نہیں ہوسکا کہ یہ کوئی مقبرہ تھا یا کوئی مسجد۔کہ اس کے صحن میں اب بھی بہت سی قبریں موجودہیں۔بلندی پر واقع یہ مسجد اپنے انداز تعمیر کے اعتبار سے ایک خوبصورت نمونہ ہے۔اسی طرح مسجد پھول ہٹ ،شاہی عید گاہ،اور مسجد ولی محمدکو بھی اسلامی فن تعمیرکا شاہکارکہا جاسکتا ہے۔
شاہ رکن عالم کا مزار اور پاکستان کا سب سے بڑا گنبد
مزارات میں حضرت شاہ رکن الدین عالم کا ہشت پہلو مزار بھی فن تعمیر کا عظیم نمونہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ غیاث الدین محمد تغلق نے اپنے لیے تعمیر کرایا تھا لیکن بعد ازاں اس میں حضرت شاہ رکن الدین عالم کو آسودہ خاک کیاگیا۔اس عمارت کو اس کے فن تعمیر کی خوبصورتی کے حوالے سے آغا خان ایوارڈ بھی دیاگیا۔مزار کے گنبد کو پاکستان کی موجودہ تاریخی عمارتوں میں سب سے بڑا گنبد قراردیاجاتا ہے۔
لکڑی کو لوہا بنانے والے ملتانی ہنر مند
حضرت شاہ رکن عالم کا مقبرہ اس بات کو مدنظررکھ کر تعمیر کیاگیا کہ یہ صدیوں تک زلزلے اور پانی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے۔گنبد میں استعمال ہونے والی لکڑی کو کئی سال تک تیل کے حوضوں میں ڈبو کر رکھا گیا جس کے نتیجے میں یہ دیمک سے محفوظ ہوگئی اور مضبوطی میں فولاد بن گئی۔مقبرے کی چالیس فٹ چوڑی بنیادیں پانی تک کھودی گئیں ان میں مٹی اورچونے کااستعمال کیاگیا۔117فٹ کی بلندی تک ہر اینٹ اس طرح استعمال کی گئی کہ وہ اپنا بوجھ خوداٹھاتی ہے ۔عمارت کے وزن کو اس طرح تقسیم کیاگیا کہ نچلی سطح پر اوپر والے حصے کا انحصار کم سے کم ہوگیا۔گنبد کی تین تہیں اس طرح سے ایک دوسرے کے اوپر ہیں کہ آسمانی بجلی بھی ان پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔یہ فن تعمیر 700سال قبل کے ہنرمندوں کی یاد دلاتا ہے۔ ایسا ہی ایک شاہکار سخی اکبر سلطان کا مقبرہ ہے۔اسی طرح حضرت شاہ شمس سبزواری کامزاربھی قدیم طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ایرانی فن تعمیر کی جھلک ہمیں حضرت یوسف شاہ گردیز کے مزار میں دکھائی دیتی ہے۔تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ تاج محل کی تعمیر میں بھی ملتان کے بہت سے ہنرمندوں نے حصہ لیاتھا
( جاری )