جب مَیں نے ہوش سنبھالا تو 1971ءکی جنگ ہو چکی تھی۔ اس جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار اتنا اہم ہوا کہ ایک محاذ ریڈیو نے بھی سنبھال رکھا تھا۔ پاکستان اگرچہ 71 کی جنگ میں 65 والی کارکردگی نہ دہرا سکا لیکن اس کے باوجود ریڈیو پاکستان کی 1971ءکی جنگ میں فاتح رہا۔ اس بات کو اگر مَیں یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہے کہ ریڈیو پاکستان ہی وطنِ عزیز کا وہ ادارہ ہے جس نے پاکستان کے قیام کی سب سے پہلے خبر دی۔ صرف یہی خبر پہلے ہی نہیں دی بلکہ پاکستان کے متعلق ہر اہم خبر مصدقہ طور پر ریڈیو پاکستان ہی دیتا ہے۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کے ہر کونے اور ہر زبان میں اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان میں انتخابات ہوں یا سیلاب کا زمانہ۔ زلزلے کی آفات ہوں یا مشرقی پاکستان کا بحران۔ ملک کا دو ٹکڑے ہونا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر ہو یا کسی طالع آزما کا شب خون مارنا۔ یہ تمام واقعات اتنے اہم ہوئے کہ لوگ باخبر رہنے کے لیے ریڈیو کے ساتھ جڑے رہے۔ٹی وی تو پاکستان میں 1964ءمیں آیا۔ پھر لوگوں کے گھروں میں یہ کافروں کی ایجاد 1980ءکے بعد عام ہوئی۔ اس سے پہلے تو صرف ریڈیو پاکستان ہی تھا جو ہر اہم ایشو پر سب سے پہلے متحرک ہوتا اور تو اور 1980ءسے پہلے مَیں کرکٹ، ہاکی کے میچوں کی رننگ کمنٹری بھی ریڈیو پاکستان سے سنا کرتا اور پھر ایک زمانہ یہ بھی آیا کہ چائنا نے رنگ برنگے اور مختلف ڈیزائن کے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے سستے ریڈیو بنا کر مارکیٹ میں لانچ کر دیئے۔ اب ریڈیو ہر گھر میں ہر ہاتھ میں دکھائی دینے لگا۔
ایک زمانہ وہ تھا جب کسی آسودہ گھرانے میں جاتے تو ان کے مرکزی کمرے میں ٹرانسسٹر ریڈیو پر غلاف چڑھا ہوتا تھا۔ سگھڑ خواتین ان غلافوں پر ہی گوٹا ٹانک دیتیں تاکہ ریڈیو دور سے نمایاں دکھائی دے۔ اس ریڈیو کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے کمرے کی اونچی جگہ پر رکھا جاتا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سردیوں میں بچوں کے لیے رات آٹھ بجے کہانی اور دُعا نشر کی جاتی۔ اتوار کی صبح بچوں کے لیے براہِ راست پروگرام نشر کیا جاتا۔ بچے اس پروگرام میں جا کر چھوٹی چھوٹی نظمیں اور پہیلیاں سنایا کرتے۔ گرمیوں کی راتوں کو بزرگ گیارہ سے بارہ بجے شب فرمائشی گیتوں کا پروگرام سنتے۔ کیا خوب زمانہ تھا ریڈیو سے رومانس اور وہ بھی اس انداز کا جس کو قلمبند کرنے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔
قارئین کرام! یہ ساری تمہید ہم نے اس لیے باندھی ہے کہ آج کل موجودہ حکومت کے ایک متوقع اقدام کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کے ملازمین شدید بے چینی کا شکار ہیں اور شکار کیوں نہ ہوں کہ اس وقت ریڈیو پاکستان کے ملازمین کئی ماہ سے مالی بحران کا شکار ہیں۔ مجھے ریڈیو پاکستان کے دیگر سٹیشنوں کی مالی صورتحال کا اندازہ نہیں ہے لیکن ریڈیو ملتان کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔ 21 نومبر 1970ءکو شروع ہونے والے ریڈیو ملتان / بہاولپور نے اس خطے کے لوگوں کو آواز کے ذریعے شناخت دی۔ اقبال بانو، پٹھانے خان، ثریا ملتانیکر، ناہید اختر، جمیل پروانہ، نصیر مستانہ، غلام عباس، عطاءاﷲ عیسیٰ خیلوی، منصور ملنگی، پروین نذر، نسیم اختر، سلیم گردیزی، سہیل اصغر، محسن گیلانی، نواز انجم، قیصر نقوی کے علاوہ درجنوں ایسے نام ہیں جنہوں نے ریڈیو کے ذریعے پہلی مرتبہ اپنی پرفارمنس دی اور پھر شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے۔ 1971ءکی جنگ میں ”جمہور دی آواز“ میں کی گئی باتوں کا جواب ہندوستان کے ریڈیو دیتے تھے۔ یہ پروگرام سیّد شمشیر حیدر ہاشمی اور عزیز الرحمن ملک کیا کرتے تھے۔ اِس وقت ریڈیو ملتان کی اُجڑی ہوئی عمارت میں ایف۔ایم101، ایف۔ایم93، صوت القران اور میڈیم ویو کی نشریات جاری ہیں۔تنخواہیں تاخیر کا شکار ہیں۔ 2 سال سے آرٹسٹوں کو معاوضہ نہیں ملا۔ ملازمین کی پنشن نہیں مل رہی ہے۔ طبی سہولت ختم ہو چکی ہیں۔ پیٹرول کا بجٹ نہ آنے کی وجہ سے گاڑیاں کھٹارا ہو چکی ہیں۔ شہر کی تقریبات کی کوریج نہ ہونے کے برابر اور کسی دن یہ بھی ہو گا کہ ریڈیو کا کوئی ملازم پنشن یا تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے خودسوزی کرے گا تو اربابِ اختیار کو ہوش آئے گا۔
پورے ملک میں ریڈیو کی عمارات اتنی اچھی ہیں کہ وہاں پر کچھ اور علمی ادبی ادارے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ مشینری تبدیل کر کے اس کو جدید ترین ریڈیو پاکستان کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ٹی وی کو زندہ رکھنے کے لیے بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس لی جا رہی ہے اگر سو روپے کے ہر موبائل کارڈ پر صرف ایک روپیہ ریڈیو کے لیے مختص کر دیا جائے تو ریڈیو پاکستان مالی بحران سے باہر آ سکتا ہے۔
لیکن اس بحران کا یہ حل نہ ہے کہ ریڈیو کی قیمتی اراضی کو لیز پر دے دیا جائے۔ ریڈیو قوم کی آواز ہے یہ ایسی عمارت ہے جو ریڈ زون میں واقع ہے اس کو سابقہ حکومت کے مفرور اسحاق ڈار رہن رکھوا چکے ہیں۔ اس رہن شدہ عمارت کو لیز پر دے کر نجانے یہ حکومت سابقہ حکومتوں کی غلط کاریوں کا کس طرح مداوا کرنے کا سوچ رہی ہے۔(جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )