گزشتہ پندرہ روز کے دوران تین ادبی میلوں میں شرکت کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہم جو نئی نسل کی کتاب سے اور شعر و ادب سے دوری پر شکوہ کناں رہتے ہیں وہ کسی حد تک درست بھی اور کافی حد تک صورت حال مختلف بھی ہے۔ ان میلوں میں نئی نسل نے جس بھر پورانداز میں شرکت کی اور ادب اور کتاب سے جس محبت کا اظہار کیا وہ بہت والہانہ تھا۔ہم ان میں سے دوادبی میلوں کااحوال آج آپ کو سنارہے ہیں ۔ ان میں سے پہلے میلے کا اہتمام نیشنل بک فاؤ نڈیشن کے روح رواں اور اردو کے ہر دل عزیز شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کیا تھا۔ یہ دسواں قومی کتاب میلہ تھا جس کے بارے میں سب کی متفقہ رائے یہ ہے کہ یہ میلہ اب اہل قلم کانفرنس کی صورت اختیار کرچکاہے۔ اس میلے میں دنیا بھر سے ادیب ، شاعر ، دانشور ، کالم نگار ، شائقین کتب اور سفیران کتب شرکت کرتے ہیں اورمیلے کے دوران کتاب کے فروغ پرگفتگوہوتی ہے ۔
دسویں قومی کتاب میلے کے موقع پربھی ہمیشہ کی طرح اسلام آباد کی سڑکوں کو میلے کے شرکاءکی تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ قومی کتاب میلہ پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر میں منعقد ہوتا ہے۔ نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹراور ممتاز شاعراور ادیب ڈاکٹر انعام الحق جاویدنے اپنے سیکرٹری انجینئر عامر حسن کی قیادت میں وزارت تعلیم اور قومی تاریخ وادبی ورثہ کے وزیر شفقت محمود کی وساطت سے یہ میلہ منعقد کیا۔ اگرچہ میلے میں شرکت سے محروم رہ جانے والے وسائل کے ضیاع کا الزام لگاتے رہے اور اس میلے کو حکومت کی بچت پالیسی کے منافی قرار دیتے رہے لیکن شور مچانے والوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ہمیشہ کی طرح ”این بی ایف میلہ “ اپنے وسائل اور سپانسرز کی مدد سے منعقد کیا۔ افتتاحی تقریب میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔انہوں نے بتایا کہ میلے میں اس بار 185سے زائد بک سٹالز لگائے گئے ہیں جہاں چالیس فیصد تک رعایت پر کتب دستیاب ہیں۔ میلے میں 65کے لگ بھگ پروگرام رکھے گئے تھے۔ بچوں اور بڑوں کے لیے الگ الگ دلچسپی کے اردو انگریزی اور قومی زبانوں کے پروگرام لکی ڈرا ، میوزک ، میراتھن کا اہتمام تھا۔
افتتاحی تقریب میں بچوں نے کتاب ترانہ پیش کیا تو سماں بندھ گیا۔
کتابوں کی دنیا سلامت رہے
روشنی دوستی کی علامت رہے
انجینئرعامر حسن سیکرٹری برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن نے کہا ہم قوم میں کتب بینی کی عادت کو فروغ دینا چاہتے ہیں یہ ڈیجیٹل دور میں کتاب اور قاری کو قریب کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ وزیرتعلیم شفقت محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نسل کے لوگ کتابوں کا شوق رکھتے ہیں اور جب تک کاغذ والا اخبار نہ پڑھیں مزہ نہیں آتا مگر آنے والے دور میں کتاب کی صورت بدل رہی ہے۔ اب کنڈل پر کتب پڑھی جانے لگی ہیں۔ رفتہ رفتہ کتاب معدوم ہونے کے خدشات ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے طویل گفتگو کی اور اچھی بات یہ تھی یہ صرف کتاب کے فروغ اور مطالعے کے رجحان سے متعلق تھی ۔ صدر کے برجستہ جملوں پر تالیاں بجتی رہیں۔ انہوں نے کہا کتاب کا نشہ سب سے بہترین نشہ ہے یہ والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو مطالعے کی عادت ڈالیں۔ صدر نے کتاب کا پرچم بھی لہرایا۔اس کتاب میلے کو افتخار عارف ، عکسی مفتی اور مسعود اشعر کی موجودگی نے معتبر بنا دیا۔ ہمارے ساتھ شاکر حسین شاکر، خالد مسعود خان اور نسیم شاہد ملتان کی نمائندگی کے لئے وہاں موجود تھے۔ مختلف سیشنز میں نام ور دانش ور، کہانی کار اور ناول نگار حفیظ خان بھی وسیب کے مسائل اور قومی زبانوں کے ادب پر گفتگو کرتے دکھائی دئے۔ ڈاکٹر صغراصدف کی موجودگی میں پلاک کی ان خدمات کاذکرہواجووہ قومی زبانوں کے فروغ کے لئے انجام دے رہاہے اورسرائیکی علاقے کے دانشوروں کو پلاک سے جوتحفظات ہیں ایک سیشن کے دوران وہ بھی زیربحث آئے ۔میلے میں عائشہ مسعود ،نیلم احمد بشیر، بینا گوئندی،زاہدہ حنا،آمنہ مفتی ،فاطمہ حسن سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک ٹی وی پروگرام میں شاکر حسین شاکر فرخ سہیل گوئندی،ڈاکٹرانعام الحق جاویداورڈاکٹرصغرا صدف کے ساتھ موجود تھے۔ڈاکٹر اختر شمار ،ناصر بشیر، عدیل برکی، امین کنجاہی، نوید مرزا عارف نوناری، الماس شبی،قمرریاض ، حامد محمود، عقیل عباس جعفری،میجرعاطف مرزا،ظہیرقندیل،اصغرعابد، اور کئی احباب کے ساتھ ملاقات رہی۔ اختر رضا سلیمی کے اردو املا سافٹ ویئر کی تقریب میں افتخار عارف محمود شام کے علاوہ ریاض مجید، آغاناصر، حمید شاہد، ناصرعلی سید، وحید احمد، محبوب ظفر،حفیظ شیرعلی موجود تھے۔ اختر رضا سلیمی نے ایسا اردو املا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس سے انگریزی کی طرح اب اردو کی اغلاط بھی درست کی جاسکیں گی۔ عالمی مشاعرے کی صدارت محترم افتخار عارف نے کی۔ ڈاکٹر صغراصدف، آغا ناصر، فاطمہ حسن، نذیر تبسم مہمان خاص تھے۔ عابدہ تقی اور محبوب ظفر نے نظامت کے فرائج انجام دیئے۔ خالد شریف، راشد نور ، ناصر علی سید، خالد مسعودخان، سلمان باسط، ڈاکٹر اختر شمار، ناصر بشیر، سعداللہ شاہ ، عقیل عباس جعفری ، رحمان حفیظ، اختر عثمان، بینا گوئندی، عائشہ مسعود، باسط خلیل ، مظہر مسعود، قمرریاض، منظر نقوی، عدیل برکی، جنید آذر، حسن عباس رضا ، نوید مرزا،راحت سرحدی، ایوب عافی، عادل بھٹی، حکیم ارشد شہزاد، باسط جلیلی، روبینہ شاد، محسن مگھیانہ اور دیگر شعراءنے کلام سنایااورمحبوب ظفرنے بہت مہارت کے ساتھ اس طویل مشاعرے کومقررہ وقت کے دوران نمٹادیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیس اپریل کو شروع ہونے والاتین روزہ قومی کتاب میلہ تو 21اپریل کو ختم ہوگیا۔لیکن اسی دوران ایک اورادبی میلے کادعوت نامہ ہمیں موصول ہوچکاتھاجواسی شہراقتدارمیں26اور27اپریل کوہونے جارہا تھا۔یہ میلہ پروین شاکر ٹرسٹ کے زیراہتمام ہرسال منعقدہوتاہے۔پروین شاکر اردوادبی میلے میں بھی ملک بھر سے شاعروں ،ادیبوں،دانشوروں اورفنکاروں کو مدعوکیاجاتاہے ۔اس موقع پرعکس خوشبوایوارڈکی تقریب بھی منعقدہوتی ہے۔یہ ایوارڈ ہرسال کسی ایک شعری مجموعے کودیاجاتاہے۔کسی ایسے مجموعے کوجس میں کوئی نئی بات ہوتی ہے یاجوشاعری کے ہجوم میں اپنی الگ شناخت رکھتاہے۔اس مرتبہ عکسِ خوشبوایوارڈمیں شاعری کے علاوہ فکشن کو بھی شامل کرلیاگیا۔2018ءکے لئے فکشن کاایوارڈمردان سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم اوراستاد ڈاکٹراویس قرنی کی کتاب” پہلی بار “کو دیاگیا۔جبکہ شاعری کااعزازڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر زاہد محمودزاہد کی” کتاب گرفت ِعکس“ کے حصے میں آیا۔اس میلے کے روحِ رواں معروف افسانہ نگارمظہرالاسلام ہیں جوادب صحافت فنون لطیفہ کے شعبے میں اپنے منفردآئیڈیازکے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔مظہرالاسلام ایک متحرک شخصیت کانام ہے ،وہ ہمہ وقت کسی ایسے کام میں مگن رہتے ہیں جومنفرد بھی ہوتاہے اوراس سے پہلے کسی اورکے حصے میں بھی نہیں آیاہوتا۔وہ ملک بھر سے ٹیلنٹ تلاش کرتے ہیں اورپھراس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس میلے میں بھی ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کابھرپوراظہارہوا۔پروین شاکر ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادرآغااورسیکرٹری راناسیرت ہیں۔پروین قادرآغاکو پروین شاکر کی ایسی دوست کی حیثیت سے جاناجاتاہے جنہوں نے خوشبوکی شاعرہ کے رخصت ہونے کے بعد بھی اس کے نام اورکام کو زندہ رکھاہے۔اس دوروزہ ادبی میلے میں جن نامورشخصیات سے ملاقات کاموقع ملاان میں نامور اداکارقوی خان،نامورافسانہ نگارمسعوداشعر،ڈاکٹرصضیہ عباد،ناصرعلی سید،پروفیسر فتح محمدملک،سینیٹررضاربانی،مرزاحامدبیگ ،ڈاکٹرسعادت سعید،نذیرقیصر،حمیدہ شاہین کے نام قابل ذکرہیں۔میلے میں ناسٹیلجیاورکشاپ ،کتابیں پڑھنے کاسنہری دور،غزل کامشاعرہ ،نظم کامشاعرہ ،طاہرہ اقبال کے ناول نیلی بارکی تعارفی تقریب ،رضاربانی کی کتاب اوجھل لوگ کی تعارفی تقریب ،ادیب بچوں سے ملاقات قابل ذکرہیں۔اس ادبی میلے کاحاصل یہ بھی تھاکہ ہمیں بہت ساوقت اپنے شہر کے خوبصورت افسانہ نگاراورماہر تعلیم ڈاکٹرلیاقت علی کے ساتھ گزارنے کاموقع ملااوررات گئے تک ڈاکٹرسعادت سعید ،مرزاحامدبیگ اورفہیم جوزی کے ساتھ طویل مکالمے نے بھی اس سفرکویادگاربنادیا۔
فیس بک کمینٹ