ایک روز پہلے روحانیت پر تحقیق کرنے والی القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے روحانیت کو سپر سائنس قرار دینے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے آج پنجاب میں براہ راست انتخاب کی بنیاد پر بلدیاتی نظام متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے شہروں کے مئیر براہ راست انتخاب کے ذریعے چننے کا اعلان کرنے کے علاوہ بتایا ہے کہ 22 ہزار دیہی کونسلوں کے انتخابات بھی ڈائیریکٹ ووٹنگ کی بنیاد پر منعقد ہوں گے۔ وزیر اعظم نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو 40 ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ یہ ادارے مقامی سطح پر ترقیاتی کام کروانے کے لئے صوبائی یا وفاقی حکومتوں کے محتاج نہ ہوں۔
وزیر اعظم نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بلدیاتی انتخاب کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بھی روحانیت کو سائنس بنانے کی باتوں جیسا ہی غیر واضح ہے۔ القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عمران خان نے روحانیت کو سپر سائنس قرار دیا تھا۔ جہلم میں سوہاوہ کے مقام پر قائم ہونے والی اس یونیورسٹی کو شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے منسوب کرنے کی یہ وجہ بیان کی تھی کہ انہوں نے روحانیت کو سائنس کے ساتھ منطبق کیا تھا۔ روحانیت کو سپر سائنس قرار دیتے ہوئے عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان سابقہ حکومتوں کی وجہ سے ناکام ہؤا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمارے سیاسی لیڈر پاکستان کے نظریہ، تصور اور مقاصد کو بھلا بیٹھے تھے۔ ہم نے اپنا متعین راستہ بھلا دیا تھا۔ اب القادر یونیورسٹی جیسے اداروں کے ذریعے ملک کو واپس درست راستے پر ڈالا جائے گا۔ یہاں ریاست مدینہ کے تصور کی بنیاد پر نوجوان لیڈر پیدا ہوں گے۔ یہاں تحقیق کی جائے گی کہ مسلمان مدینہ سے اٹھ کر کس طرح دنیا پر چھا گئے۔ ہم چین کے تعاون سے نئی ٹیکنالوجی پر تحقیق کریں گے‘۔
ملک کے عام لوگوں کی طرح خواص اور دانشور بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وزیر اعظم روحانیت کو سائنس بنانے سے کیا مراد لیتے ہیں ۔ کیا سائنسی ایجادات کے اصول سلوک کی منازل طے کرنے والے طالب علموں پر منکشف ہوں گے یا عمران خان یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی سے ایسے روحانی عامل پیدا ہوں گے جیسے بعض قصوں کے مطابق 1965 کی جنگ کے دوران دکھائی دیے تھے کہ ملک کے اہم پلوں اور عمارتوں پر کھڑے انجان بزرگوں نے دشمن کے پھینکے ہوئے بموں کو اپنی چادروں میں سمیٹ لیا تھا ۔ اس طرح اہم شہری سہولتیں اور فوجی تنصیبات کو تباہ ہونے سے بچا لیا گیا تھا۔ ایک طرف القادر یونیورسٹی میں روحانیت کو سائنس ثابت کرنے کے لئے کام ہو گا لیکن اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہاں ہونے والی سائنسی تحقیقات چین کی مدد سے ہوں گی۔ یہ بات ابھی غیر واضح ہے کہ اگر روحانیت سائنس ہے تو ایک ایسے ملک کے ماہرین سے مدد لینے کی نوبت کیوں آئے گی جو خدا کی بجائے مادہ اور محنت کو ہی مقصد اور راستہ مانتا ہے۔
عمران خان کے ڈریم پراجیکٹ القادر یونیورسٹی کے روحانی سائنس کے ماہرین نے اگر روحانیت کو سپر سائنس ثابت کر دیا اور یہ واضح ہو گیا کہ مدینہ کے عرب صرف اس لئے دنیا بھر پر چھا گئے تھے کیوں کہ وہ روحانی طور پر طاقت ور تھے اور اس قوت کی بنیاد پر انہوں نے ہر مشکل اور دشمن کو زیر کرلیا تھا، پھر تو چین کو اس یونیورسٹی کے ماہرین کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ وہ ایمان اور روحانیت کا راستہ اختیار کر کے کسی محنت اور تحقیق و جستجو کے بغیر اور دنیاوی ایجادات اور ہتھیاروں کا سہارا لئے بغیر دنیا بھر کو زیر کرنے کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے ہونہار اپنی تحقیق میں کامیابی سے ملک کو فوج کے مصارف سے نجات دلا دیں گے کیوں کہ روحانی طاقت سے لبریز نوجوان قائدین کی ایک پوری نسل اپنی ’سپر سائنس‘ کے ذریعے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے ایسے طریقے سامنے لے آئے گی کہ دشمن کو پاکستان کی سرحدوں پر بری نگاہ ڈالنے کی جرات ہی نہیں ہوگی۔
ملک کے چیف ایگزیکٹو کی بصیرت کے مطابق اگر القادر یونیورسٹی کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، پھر انہیں ملک کے اسٹیٹ بنک کا انتظام سنبھالنے کے لئے آئی ایم ایف کے کسی ماہر کو لانا پڑے گا اور نہ ہی ٹیکس کے کسی ماہر کو بورڈ آف ریوینو کا چئیر مین بنا کر لوگوں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کے جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ سارے کام روحانیت کی سپر سائنس کے ذریعے کسی مشقت اور غور و فکر کے بغیر ہی انجام پاسکیں گے۔ تاہم وزیر اعظم نے یہ باتیں چونکہ’ منازل سلوک کے شناور ‘کے طور پر اشاروں کنایوں میں کی تھیں، اس لئے عام لوگوں کے لئے انہیں سمجھنا اور اس حقیقت تک پہنچنا ممکن نہیں ہوسکتا جس مقام پر عمران خان بوجوہ خود کو فائز سمجھتے ہیں۔
ابھی اس پیچیدہ مگر روحانی بصیرت سے لبریز تقریر کو سمجھنے کی کوششوں کا آغاز بھی نہیں ہؤا تھا کہ آج وزیر اعظم نے پھر سے چند چہیتے ’سینئر صحافیوں‘ کو مدعو کیا اور پنجاب کے بلدیاتی نظام کا روڈ میپ سامنے رکھا۔ اس میں براہ راست انتخاب، سابقہ جمہوری حکومتوں کی غیر جمہوری حرکتوں اور غیر جمہوری حکومتوں کے اس جمہوری ماڈل کا ذکر تفصیل سے سامنے آیا جس کے تحت پنجاب کے عوام کو براہ راست گلی محلے میں وسائل سے مالا مال نمائیندے دستیاب ہوں گے۔ عوام انہیں براہ راست منتخب کریں گے اور وہ ماضی کے غیر جمہوری اور عوام دشمن نظام کی بجائے ایک ایسے انتظام کے تحت منتخب ہوں گے جس کا اہتمام پنجاب اسمبلی کے بلدیاتی ایکٹ 2019 کے تحت کیا جائے گا۔
اس خوابناک بلدیاتی نظام کے بارے میں گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے لیکن اس سے پہلے عمران خان کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ جمہوری لیڈر ہونے کے باوجود اپنے سارے ’آئیڈیل‘ ملک کے سابقہ آمروں میں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایوب خان کا عہد ملک کی ترقی کا سنہرا دور تھا جبکہ بیشتر مؤرخین کے خیال میں اسی آمرانہ دور میں ان تمام سیاسی اور سماجی برائیوں کی بنیاد رکھی گئی جن کی وجہ سے نہ ملک میں جمہوریت پنپ سکی اور نہ ہی مثبت اور صحت مند سماجی مزاج استوار ہو سکا۔ پاکستانی معاشرہ اس وقت اقربا پروری اور بدعنوانی کے جس عفریت سے سے نمٹنے کی خواہش رکھتا ہے اسے ایوب خان کے دور میں ہی دریافت کیا گیا تھا اور پھر یہ علتیں ضیا آمریت کی نرسری میں پروان چڑھیں ۔ اپنی آمرانہ حکومتوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے آمروں نے ضرور بلدیاتی نظام متعارف کروائے لیکن ان کے ذریعے کبھی جمہوریت پھل پھول نہیں سکی بلکہ خوشامدی اور مفاد پرست سیاست دانوں کی پوری نسل تیار ہوکر سامنے آئی ۔
بلدیاتی نظام کو مؤثر، طاقتور اور نمائندہ بنانے کے اصول سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن کیا عمران خان واقعی اسی مقصد کے لئے یہ جتن کررہے ہیں یا وہ پنجاب میں مقامی سطح سے مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کو ختم کرنے کی خواہش و کوشش میں بلدیاتی نظام میں کثیر وسائل صرف کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام کو عوام کا نمائندہ بنانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کا اہل کرنے کے وعدے کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت پنجاب میں ان کی چہیتی حکومت نے جو بلدیاتی بل منظور کیا ہے اس کے تحت تمام بلدیاتی ادارے تحلیل ہو چکے ہیں اور ان کا انتظام حکومتی شکنجے میں دیا جاچکا ہے۔ عوام کو براہ راست انتخاب اور کثیر وسائل کا لالی پاپ دکھاتے ہوئے عمران خان نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ انتخابات کب تک مکمل کروا لئے جائیں گے؟
وزیر اعظم نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے شہروں اور بلدیاتی اداروں کو چالیس ارب روپے دینے کا وعدہ کرنے کے علاوہ براہ راست ٹیکس لگانے اور جمع کرنے کا اختیار دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا کہ وفاقی و صوبائی حکومت کون سے شعبوں میں ٹیکسوں کی سہولت دے گی تاکہ عام لوگ بلدیاتی اداروں کے محاصل ادا کرکے اپنے علاقوں کی ترقی کا خواب پورا کر سکیں۔ یاغربت اور مہنگائی کے مارے ہوئے عام خاندانوں کو اب مزید محاصل کی اطلاع دی جا رہی ہے جو بلدیاتی ادروں کو مضبوط کرنے کے نام پر جمع کئے جائیں گے۔ عوام کی قوت خرید میں اضافے اور ملک میں معاشی احیا کے لئے ٹھوس اقدامات سے پہلے اس قسم کی گفتگو دیوانے کی بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
حکومت نے پاکستان کے مالی معاملات عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین کو آؤٹ سورس کردیے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کے پروردہ ماہرین اسی ادارے سے پاکستان کے لئے قرض کی شرائط طے کریں گے۔ پاکستان کا بھلا سوچنے والے کسی ماہر کو اس سے کسی بہتری کی امید نہیں ہے۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم نہ جانے کون سی روحانی سائنس کے دم پر عام آدمی کے گھر میں روشنی لانے کی باتیں کررہے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ