یہ 1985ء کی بات ہے میں ان دنوں نیا نیا لاہور گیاتھا۔ شہر میں کسی ادیب یا شاعر کے ساتھ میری شناسائی نہیں تھی۔ میرے ملتانی دوست اطہر ناسک، طفیل ابن گل اور اختر شمار بھی ابھی لاہور منتقل نہیں ہوئے تھے۔ شام کے وقت پاک ٹی ہاﺅس، چائنیز لنچ ہوم یا کسی ادبی تقریب میں شرکت میرا معمول تھا۔ایک روز معلوم ہوا کہ فلیٹیز ہوٹل میں کوئی ادبی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ ایک نوآموز قلمکار کی حیثیت سے میں بھی اس تقریب میں پہنچا اور خاموشی کے ساتھ پچھلی نشستوں پر جا بیٹھا۔ سٹیج پر دیگر نامور شخصیات کے ساتھ ڈاکٹر انور سدید بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے اس سے پہلے ایک سرسری ملاقات چند برس قبل ملتان میں ڈاکٹر مقصود زاہدی کے کلینک پر ہو چکی تھی۔ انور سدید صاحب ان دنوں ایکسیئن انہار کی حیثیت سے کوٹ ا دو میں تعینات تھے اور لاہور واپسی پر جب بھی ملتان سے گزرتے تو ڈاکٹر مقصود زاہدی کے کلینک پر کچھ دیر کے لئے ضرور رکتے۔ ڈاکٹر صاحب کا کلینک مجھ جیسے نوجوانوں کے لیے ادبی بیٹھک کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہیں میں نے پہلی بار ڈاکٹر انورسدید کے ساتھ مصافحہ کیا اور ان کی گفتگو سنی تھی۔ بعد کے برسوں میں ان کے ساتھ خطوط کے ذریعے بھی رابطہ ہو گیا۔ میں جن اخبارات میں کام کرتا تھا ڈاکٹر صاحب ان کے لئے کوئی نہ کوئی ادبی مضمون یا تحریر ارسال کرتے رہتے تھے۔ فلیٹیز ہوٹل والی تقریب ختم ہوئی تو حاضرین ڈاکٹر انورسدید کے ساتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھے لیکن مجھے خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ ڈاکٹر انورسدید اس ہجوم میں مجھے تلاش کر رہے تھے اور میری جانب بڑھ رہے تھے۔مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ وہ اس ہجوم میں مجھے پہچان لیں گے۔
ایک ایسے نوجوان کو جس کے ساتھ ان کی صرف ایک ملاقات ہے اور جس کے ساتھ ان کا صرف خطوط کے ذریعے رابطہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گرم جوشی کے ساتھ مجھے گلے لگایا۔ میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا اور ملتان کے دوستوں کی خیریت دریافت کی۔ ادب کی انتہائی معتبر شخصیت کے اس محبت بھرے لہجے اور اپنائیت نے ایک ہی لمحے میں اُس 21 سالہ نوجوان کو اپنا اسیر کر لیا جو خود کو لاہور میں اجنبی سمجھتا تھا۔ یہ محبت بھرا تعلق ان کی آخری سانس تک جاری رہا۔ شاہ نور سٹوڈیوز کے سامنے محلہ سید پورہ کے ایک چھوٹے سے بیٹھک نما کمر ے سے اقبال ٹاﺅن تک ہر دوسرے تیسرے روز جانا میرا معمول بن گیا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لئے کبھی وقت بھی نہیں لینا پڑتا تھا۔ دستک پرعموماً وہ خود یا ان کے صاحبزادے مسعود انور دروازے پر آ تے تھے۔ نامور ماہر تعلیم صابر لودھی اورمعروف افسانہ نگار فرخندہ لودھی صاحبہ کے ساتھ بھی ان کے پاس ملاقاتیں ہوئیں۔ ادب کے بے شمار موضوعات زیربحث آتے تھے۔ بہت سی نئی کتابیں ڈاکٹر انور سدید مجھے مطالعے کے لئے فراہم کرتے اور پھر ان کتابوں پر گفتگو بھی ہوتی ۔” اوراق “ اور ماہنامہ ”اردوزبان “ کی طباعت سے لے کر ڈاکٹر صاحب کی اپنی کتابوں کی اشاعت تک کے مراحل بھی میرے سامنے طے پاتے تھے۔ ادبی معاملات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب میرے ساتھ میری تعلیمی مراحل اور معاشی مسائل پر بھی گفتگو کرتے تھے۔ اقبال ساغر صدیقی اور ڈاکٹر مقصود زاہدی کی طرح وہ بھی اس بات پر فکر مند رہتے تھے کہ میں نے میٹرک کے بعد اپنی تعلیم ادھوری کیوں چھوڑ دی۔ڈاکٹر انورسدید کے ہی اصرارپر میں نے لاہور بورڈ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی کے درمیان محاذ آرائی عروج پر تھی۔ اوریہ محاذ ایک جانب ڈاکٹر طاہرتونسوی اور دوسری جانب ڈاکٹر انور سدید نے سنبھال رکھا تھا۔ڈاکٹر انور سدید کی رفاقت میں مَیں بھی وزیرآغا گروپ کا حصہ بن گیا۔ میرے ترقی پسند دوستوں کو اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ میں ڈاکٹروزیرآغا اور ڈاکٹر انور سدید جیسے ”رجعت پسندوں“ کا ہم نوا کیوں ہوگیا ہوں۔ اس حوالے سے طعنہ زنی بھی جاری رہی لیکن میں نے اس وابستگی پر کبھی بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا کہ میں ڈاکٹروزیرآغا اور ڈاکٹر انور سدید کو بہت قریب سے دیکھ رہاتھا اور ادب کے ساتھ ان کی وابستگی اور انسان دوست روئیے بھی میرے سامنے تھے جن کے آگے بہت سے قلمکاروں کی ترقی پسندی مجھے جعلی نظر آ تی تھی۔ ڈاکٹر انور سدید نئے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ انہیں راستہ دیتے تھے۔ آگے بڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ نئی کتابوں سے روشناس کراتے تھے اور اچھی تحریر کی تعریف میں کبھی بخل سے کام نہ لیتے تھے۔ معروف صحافی رفیق ڈوگر بھی ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں شامل تھے۔انہوں نے 1986ء میں15روزہ ”دید شنید “ کا اجراء کیا تو ڈاکٹر انور سدید نے مجھے ان کی ٹیم کاحصہ بنا دیا۔ وہ جانتے تھے کہ میری تنخواہ بہت کم ہے اس لیے کسی نہ کسی بہانے کوئی ایسی سبیل نکال لیتے تھے کہ مجھے معاشی آسودگی حاصل ہو سکے۔ پھرایک روز انہوں نے ایک پبلشر سے کچھ زیرطبع کتابیں لے کر پروف کے لئے میرے حوالے کردیں۔ ایک اور اشاعتی ادارہ ترجمے کا کام کروانا چاہتاتھا۔ڈاکٹر انورسدید نے خاموشی کے ساتھ وہ کام بھی مجھے دلوا دیا۔ باقی احمد پوری اس زمانے میں کویت میں مقیم تھے۔ وہ ایک ادبی رسالہ شائع کرنے کے لئے ڈاکٹر انور سدید کے پاس آئے تو ڈاکٹر صاحب نے مدیر کے لئے میرا نام تجویز کردیا اور مجھے بتایا کہ یہ رسالہ آپ نے ترتیب دینا ہے۔ پھرایک روز مضامین اور غزلوں کا کتابت شدہ مسودہ میرے حوالے کیا کہ یہ اشاعت کے لئے اسلم کمال صاحب کے پریس پر دے دیں۔ مدیر کے طورپر میرا ہی نام درج تھا لیکن کام سارا ڈاکٹر صاحب نے خود کیا اور اس کام کا اعزازیہ بھی مجھے دلوا دیا۔ وہ کسی نہ کسی بہانے اس کوشش میں رہتے تھے کہ میری انا بھی مجروح نہ ہو اور میری مالی مدد بھی ہو جائے۔ڈاکٹرانورسدید کے قریب رہ کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ مسلسل محنت پر یقین رکھتے تھے۔ دیانتداری ان کا بنیادی وصف تھی۔ ان کا ظاہر اورباطن ایک تھا۔ وہ کسی صلے یا ستائش کی پرواہ کیے بغیر تخلیقی و تحقیقی سرگرمیوں میں مگن رہتے تھے۔ وہ ہم جیسے لوگوں کے لئے ایک مثال تھے۔آخری ملاقات چند برس قبل اسلام آباد میں اہل قلم کانفرنس کے دوران ہوئی۔ وہ صابرلودھی اور فرخندہ لودھی کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ ایک لمحے کے لئے انہوں نے اجنبی نظروں سے مجھے دیکھا اورجب میں نے اپنا نام بتایا تو گرم جوشی کے ساتھ مجھے گلے لگا لیا۔ ان کی صحت کے بارے میں تشویشناک خبریں کئی روز سے موصول ہو رہی تھیں لیکن انہوں نے جس طرح عمربھر نامساعد حالات کا مقابلہ کیا اور ہار نہیں مانی ہمیں گمان تھا کہ وہ اس آخری جنگ میں بھی کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ جنگ بھلا کون جیت سکتا ہے۔ 20 مارچ 2016ء کو ان کی وفات کی خبر آئی۔ بلا شبہ یہ اردو ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہے لیکن میں تو اسے اپنا ذاتی نقصان بھی سمجھتا ہوں کہ میں ایک ایسے محسن سے محروم ہو گیا جسے لوگ رجعت پسند سمجھتے تھے لیکن وہ اپنے روئیوں میں مجھے کئی ترقی پسندوں کے مقابلے میں قد آور دکھائی دیتا تھا ۔
فیس بک کمینٹ