چند روز ہوئے ایکسپریس ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر آصف علی فرخ کا فون آیا وہ کہنے لگے ایک مشکل میں گرفتار ہوں، آپ سے مدد درکار ہے۔ ہم نے عرض کیا مشکل کشا تو اﷲ کی ذات ہے لیکن آپ پھر بھی حکم کریں آخر خالقِ کائنات نے انسان کو وسیلہ بنا کر زمین پر اتارا ہے جو مخلوق کے کاموں کے علاوہ مشکلات کا حل بھی نکالتا ہے۔ مسکرا کر کہنے لگے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ آپ فلسفے کی طرف آ جائیں۔ بس مجھے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ چاہیے۔ مَیں نے یہ سنتے ہی کہا یہ کون سی مشکل بات ہے ابھی آپ کو بازار سے خرید کر قائداعظم کا پورٹریٹ بھجوائے دیتا ہوں۔ کہنے لگے مَیں نے گھنٹہ گھر، گلگشت کالونی، چوک کچہری، نیو ملتان، ممتاز آباد کے علاقوں میں کتابوں کی جتنی دکانیں موجود ہیں وہاں سے معلوم کروایا ہے کسی بھی دکان پر بانی پاکستان کا پورٹریٹ موجود نہ ہے۔ مَیں نے عرض کی، کیا آپ نے بوہڑ گیٹ کی مارکیٹ کو چیک کیا ہے؟ کہنے لگے بوہڑ گیٹ کی ہر دکان چھان ماری لیکن قائد اعظم کی تصویر عنقا ہو چکی ہے۔ وہ جیسے جیسے بات کر رہے تھے ویسے ویسے میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسے میں مَیں نے اُن سے پوچھ لیا آصف بھائی بانی پاکستان کی تصویر تو 25 دسمبر یا 11 ستمبر کے موقع پر غائب ہونی چاہیے تھی لیکن اب تو مارچ چل رہا ہے یہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگے اب مَیں آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ہمیں موسمِ بہار میں اس تصویر کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ جس سکول میں میرے بچے زیرِ تعلیم ہیں سکول والے قائد اعظم کی یاد میں تقریب کرنا چاہ رہے ہیں۔ میرے بیٹے کو اس تقریب میں تصویر کے ساتھ شرکت کرنا ہے اس لیے مجھے ہر حالت میں آج ہی بانی پاکستان کا پورٹریٹ درکار ہے۔ مَیں نے آصف بھائی کو تسلی دی اور کہا آپ فون بند کریں مَیں ملتان کی مارکیٹ سے پتہ کرواتا ہوں اُمید ہے تصویر مل جائے گی۔ مَیں نے اپنے ملازم کو فوٹو فریم بنانے والے دکانوں پر بھیجا اور کہا کہ آج ہر حالت میں بانی پاکستان کی تصویر ڈھونڈ کر لاؤ۔ میرا ملازم ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد جب خالی ہاتھ آیا تو مجھے اس کی شکل دیکھ کر معلوم ہو گیا کہ آصف علی فرخ نے حقیقی معنوں میں آج ایک مشکل کام کو حل کرنے کا بولا ہے۔ اب مَیں نے ملتان کی مختلف کتابوں کی دکانوں پر فون کرنا شروع کیا تو چوتھے دکاندار نے کہا ہولڈ کریں مَیں دیکھ کر بتاتا ہوں کہ قائد اعظم کی تصویر ہے یا نہیں۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا ہمارے پاس A-4 سائز کے سٹیکر پر ان کی تصویر موجود ہے۔ یہ سنتے ہی مَیں خوش ہو گیا چلو تصویر مل گئی ہے فریم بھی ہو ہی جائے گا۔ یہ خوشخبری سنانے کے لیے مَیں نے ایکسپریس ملتان کے دفتر فون کیا آپریٹر کو کہا کہ ریذیڈنٹ ایڈیٹر سے بات کروائیں۔ چند لمحوں بعد آصف بھائی لائن پر تھے، مَیں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ قائداعظم کا پورٹریٹ تو نہیں ملا البتہ سٹیکر پر چھپی ہوئی ان کی A-4 سائز کی تصویر مل گئی ہے کیا اُس سے گزارا ہو جائے گا۔ کہنے لگے سو فیصد۔ یہ بتائیں یہ تصویر کس دکان پر موجود ہے مَیں ابھی اپنے ملازم کو بھجوائے دیتا ہوں۔ مَیں نے بتایا ملتان کینٹ میں کتابوں کی ایک دکان پر یہ سٹیکر موجود ہے۔ کسی کو بھیج کر منگوا لیں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور اپنے ملازم کو ملتان کینٹ کی اس دکان کی طرف روانہ کیا جہاں پر یہ ”تحفہ نایاب“ صرف پچیس روپے میں دستیاب تھا۔ ایک گھنٹے بعد مَیں نے آصف علی فرخ کو فون کر کے دریافت کیا کہ کیا بانی پاکستان کی تصویر مل گئی؟ مطمئن آواز کے ساتھ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگے آپ کی وجہ سے آج میرے بیٹے کا کام ہو گیا ورنہ صبح اُس کو بانی پاکستان کے بارے میں تقریب میں شامل نہ ہونے دیا جاتا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مَیں نے آج پورے ملتان کی کتابوں اور فوٹو فریمز کی دکانوں پر اس کام کے لیے اپنے ملازم کو بھجوایا جہاں سے مجھے انکار کی شکل میں جواب ملا۔ شام سے لے کر اب تک مَیں سوچ رہا ہوں مسلم لیگ کی حکومت میں بانی پاکستان کی تصویر بازار سے یوں غائب ہوئی جیسے ہم سب کا قائداعظم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُن کی تصویر اب صرف کرنسی نوٹوں پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ بازاروں میں اس تصویر کی یہ حالت ہے کہ پورے ملتان میں کوئی تصویر دستیاب نہیں ہے۔ پھر آصف بھائی کہنے لگے کسی زمانے میں ہر بک سٹال پر قائد اعظم، علامہ اقبال، مادرِ ملت اور دیگر تحریکِ پاکستان کے مرکزی قائدین کی تصویریں بڑی آسانی سے مل جایا کرتی تھیں۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مارکیٹ میں صرف عمران خان کی تصویر موجود ہے نواز شریف اور بینظیر کی تصویر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ کہنے لگے کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں اب بانی پاکستان کی تصویر صرف سرکاری دفاتر میں لگائی جاتی ہے اس کے علاوہ یہ تصویر کہیں اور نہیں ملتی۔ مَیں آصف علی فرخ کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مارکیٹ سے تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں کی تصاویر کیوں غائب ہوئیں؟ اس کی وجہ سیدھی سادی یہ ہے جب نصابی کتب میں ہم اپنے اسلاف کے حالاتِ زندگی کی بجائے موجودہ سیاست دانوں کے بارے میں مواد شامل کریں گے تو نئی نسل کو کیا معلوم بانی پاکستان محمد علی جناح، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اور دیگر تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں نے اس ملک کی خاطر کتنی قربانیاں دیں تھیں۔ بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ پر ہیں مجھے اس بات پر بہت زیادہ دکھ ہے کہ اگر ملتان کے کسی سکول میں بانی پاکستان کے بارے میں کوئی تقریب رکھی ہے تو اس تقریب کو سجانے کے لیے پورے شہر میں اُن کے بارے میں کوئی تصویر بھی دیکھنے کو نہ ملی۔ آصف بھائی نے یہ بھی بتایا کہ اُس دکان پر وہ آخری تصویر تھی جو اُن کا ملازم خرید کر لے آیا کیونکہ اس دن پوری کلاس کے بچوں کو کہا گیا تھا کہ کل صبح بانی پاکستان کے بارے میں جو تقریب ہو گی اس میں شرکت کے لیے ضروری ہے کہ ہر بچہ اپنے ساتھ قائداعظم کی تصویر والا فریم لے کر آئے۔ شکر اس بات کا ہے کہ آصف علی فرخ اپنے بیٹے کے لیے بانی پاکستان کی تصویر کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر رات گئے وہ خالی ہاتھ گھر جاتے تو اپنے بچے کو کیا جواب دیتے کہ ملتان جیسے شہر میں قائداعظم کی تصویر نہیں ملی۔ مَیں نے ابھی اپنا کالم یہاں تک لکھا تھا تو میرے دوست قمرالزمان خان کا فون آ گیا، کہنے لگے کیا ہو رہا ہے۔ مَیں نے انہیں مختصراً قائداعظم کی تصویر والا واقعہ بتایا۔ مسکرا کر وہ کہنے لگے آپ پرانے دور کے آدمی ہیں کمپیوٹر کی مارکیٹ میں کسی بھی کمپیوٹر والے کو سو دو سو روپیہ دیتے وہ نیٹ سے تصویر ڈاؤن لوڈ کر کے آپ کو اپنی مرضی کی قائداعظم کی تصویر کا پرنٹ نکال کر پیش کرتا اور وہی پرنٹ آپ فریم کروا لیتے۔ قمرالزمان خان کی یہ بات تو بہت خوبصورت تھی لیکن اسے کیا معلوم کہ ہم پرانے وقتوں کے لوگ جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں۔ ویسے بھی اگر ہم جدید دور سے ہم آہنگ ہوتے تو اس کا فائدہ کچھ نہیں ہونا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ جب ہم نے کسی کمپیوٹر والے کے پاس جا کر قائد اعظم کی تصویر کا پرنٹ لینے کی خواہش کرتے تو اس وقت یقیناً لوڈ شیڈنگ ہوتی اور ہمیں آخرکار پھر قائداعظم کی تصویر تلاش کرنا پڑتی۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ