13 نومبر 2005 ء کی شام جب نشتر ہسپتال سے ملحقہ قبرستان میں ارشد ملتانی کو سپرد خاک کیا گیا تو ہم محض ایک شاعر سے ہی جدا نہ ہوئے بلکہ ان کے ساتھ اس شہر کی تہذیبی، ثقافتی اور مجلسی زندگی کا ایک زریں باب بھی ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ ہمارے درمیان سے ایک ایسا شخص اٹھ گیا جو محبتیں تقسیم کیا کرتا تھا ،ایک خاص رکھ رکھاﺅ کا قائل تھا اور جو محض اپنے فن کے حوالے سے ہی نہیں اپنے رویوں کے حوالے سے بھی معتبر تھا۔ ہم نے اس روز بیک وقت بہت کچھ کھو دیا۔ ایک ہی دن میں ہم بہت سی چیزوں سے محروم ہوگئے۔ ایک بہت اچھا شاعر ہم سے جدا ہوگیا، ایک بہت ملنسار، وضعدار اور شفیق انسان ہم سے بچھڑ گیا، ہم ایک ایسے شخص سے محروم ہوگئے جو اس شہر کی پہچان تھا اس شہر ہی نہیں اس پورے خطے کی پہچان بن چکا تھا، ہم نے ایک ایسے شخص کی جدائی کا صدمہ برداشت کیا جو شجر سایہ دار کی طرح تھا جس کے ساتھ مل کر عمروں کی تفاوت کا احساس نہ ہوتا تھا، ایک ایسا بزرگ جو پیرانہ سالی کے باوجود جواں سال و جواں ہمت دکھائی دیتا تھا۔ اتنی بہت سی خوبیاں تھیں ارشد ملتانی میں، بہت سی جہتیں تھیں ان کی شخصیت کی اور ہم ایک ہی دن میں ایک ہی لمحے میں اتنی بہت سی چیزیں کھو بیٹھے۔
یہ ایک سیلف میڈ اور محنتی انسان کی موت تھی۔ ارشد صاحب کو ہم نے ہمیشہ متحرک اور جواں ہمت دیکھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ جراح تھے۔ اندرون پاک گیٹ ان کا شفاخانہ تھا۔ اور وہ عمر کے آخری حصے میں بھی اس وقت تک جب تک ان میں چلنے پھرنے کی سکت تھی اپنے مطب پر جاتے رہے۔ ایک خاص شیڈول تھا ان کی زندگی کا، انتہائی نظم و ضبط تھا ان کے معمولات میں ۔صبح اور شام دو مرتبہ مطب جاتے اور پھر ہوٹل میں آکر شام دوستاں آباد کرلیتے۔ محفل آرائی کا سلسلہ انہوں نے مختلف اوقات میں مختلف چائے خانوں میں جاری رکھا۔ ایک مخصوص نشست تھی ان کی جس پر وہ ایک خاص وقت میں انتہائی باقاعدگی کے ساتھ آکر بیٹھتے تھے۔ آندھی ہو یا طوفان ارشد ملتانی اپنی نشست پر موجود ہوتے تھے۔ ایک شمع روشن تھی کہ جس کے گرد پروانے آکر جمع ہوجاتے تھے۔ حزیں صدیقی، حیدر گردیزی، ممتاز العیشی کے بعد وہ اس مجلسی زندگی کی آخری نشانی تھے۔ دو تین ماہ پہلے تک بھی جب تک کہ وہ سہارے کے ساتھ چل سکتے تھے وہ اس محفل میں آتے رہے۔ اس محفل میں ہی نہیں انہوں نے مشاعروں اور دیگر تقریبات میں بھی شرکت جاری رکھی۔ انہیں سہارا دے کر سٹیج پر لایا جاتا تھا۔ عموماً مبارک مجوکہ ان کا بازو تھام کر انہیں سٹیج تک لاتے تھے۔ گزشتہ دو تین سال سے ان کی یہی کیفیت تھی۔ بسا اوقات وہ لڑکھڑا جاتے اور کبھی کبھار گر بھی جاتے مگر اس کے باوجود انہوں نے محفلوں سے اپنا تعلق ختم نہیں کیا تھا اور تعلق ختم بھی کیسے کرتے اس شہر کی تقریبات اور محفلوں سے ان کا تعلق کوئی آج سے تو نہیں تھا۔ یہ عرصہ کم و بیش 65، 60 سال پر محیط تھا۔
1940ءمیں انہوں نے پہلی غزل کہی اور اس دور سے ہی مشاعروں اور تقریبات میں شرکت کا آغاز کیا۔ وہ اس شہر کے واحد قلمکار تھے جنہیں قیام پاکستان سے قبل کے ملتان کی ادبی سرگرمیوں کا احوال معلوم تھا، جو اُس دور کے لوگوں کو جانتے تھے اور اگر کسی نے بھی ملتان کے ماضی پر کام کرنا ہوتا تو ارشد ملتانی ہی اس کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔
ملتان سے روزنامہ جنگ کی اشاعت کا آغاز ہوا تو اس کے پہلے شمارے کے فیچر کے لئے ہم نے ملتان کے رسوم و رواج، میلوں ٹھیلوں، روایتی کھانوں اور پہناووں کے بارے میں بہت سی معلومات ارشد ملتانی سے ہی حاصل کی تھیں۔ 1960ءکے عشرے میں منعقد ہونے والے جشن ِفریدکو ملتان کی ثقافتی تاریخ کی سب سے بڑی تقریب قرار دیا جاتا ہے۔ اس جشن کے انعقاد میں ریاض انور کے ساتھ جن شخصیت نے انتہائی سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، ان میں ایک نام ارشد ملتانی کا بھی تھا۔ کم و بیش اسی دور میں ملتان میں رائٹرز گلڈ قائم ہوئی تو اس کو فعال بنانے میں بھی ارشد ملتانی نے عرش صدیقی کا بھرپور ساتھ دیا۔ رائٹرز گلڈ کے بعد اردو اکادمی قائم ہوئی تو ارشد ملتانی اس کے بھی بانی اراکین میں تھے۔ ان کی سرگرمیاں صرف تقریبات اور محفل آرائی تک محدود نہ تھیں انہوں نے ملتان سے ادبی رسائل و اخبارات بھی شائع کئے اور اس دور میں شائع کئے جب یہاں چھاپہ خانے بھی گنتی کے تھے اور اخبار یا رسالہ شائع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ان تمام تر خدمات کے باوجود انہوں نے کبھی کسی کام کا کوئی کریڈٹ نہ لیا۔ وہ بہت اچھے شاعر تھے مگر کبھی مشاعروں میں شرکت کے لئے ”ذرائع“ استعمال نہ کرتے تھے۔ ہم نے انہیں کبھی کسی مشاعرے میں تقدیم و تاخیر کے مسئلے پر یا زادِ راہ کے حصول کے لئے کسی سے الجھتے نہ دیکھا۔ چند ایک مخصوص رسائل میں غزلیں ارسال کرتے اور اعزازی رسالے کی خواہش بھی نہ کرتے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک ادبی رسالے نے انہیں بسا اوقات ان کے مقام پر شائع نہ کیا مگر ارشد صاحب کی وضع داری کا یہ عالم کہ نہ انہوں نے اس پر احتجاج کیا اور نہ ہی اس پرچے کو اپنا کلام ارسال کرنے کا سلسلہ منقطع کیا۔ بطور شاعر ان کا ایک خاص اسلوب تھا۔ انتہائی سادہ و دلکش اور روایت سے جڑا ہوا آہنگ۔
خیر مانگوں کیوں نہ اپنے شہر کی
شہر کی گلیوں میں میرا گھر بھی ہے
شہر کی خیر مانگنے والا وہ شاعر 13 نومبر 2005 کی صبح ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہوگیالیکن اس کی یاد آج بھی ہمارے دل کو آباد رکھتی ہے ۔