نواں شہر چوک میں جہاں اب بابا آئس کریم ہے یہ دکان کبھی بابا ہوٹل تھی ۔ ملتان کے ادیبوں کا پاک ٹی ہاؤس ۔۔ میں 1983 ء میں جب پہلی بار بابا ہوٹل گیا تو پہلی میز پر حیدرگردیزی اوران کے ساتھ سلمان غنی بیٹھے تھے۔ارشد ملتانی بھی اسی میز پر جلوہ افروز تھے۔پھر یہ ہوٹل میرے معمولات کا حصہ بن گیا ۔۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی سگریٹ کا دھواں ،چائے کی مہک اور مختلف میزوں سے ابھرنے والی آوازیں آپ کواپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔عموماً ڈاکٹر محمد امین بھی اپنی سرخ رنگ کی ہنڈا 50 پر یہاں تشریف لاتے تھے۔ دوپہر کے 12بجے کے بعد بابا ہوٹل میں ان کی مخصوص آواز سنائی دیتی تھی۔”محمد امین سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ نوجوانو میں نے لال کتاب میں تمہارا نام لکھ لیا ہے۔میں تمہاری شکایت کروں گا۔“ایسا ہی ایک خوبصورت انداز پروفیسر انور جمال کاہوتاتھا۔حیدرگردیزی کا بلند آہنگ قہقہہ سنائی دیتا تھا۔اور وہ محبت بھرے لہجے میں ڈاکٹر امین کو ڈاک دار امین کہتے تھے کہ امین صاحب شہر بھر کی خبریں اپنے ساتھ لاتے تھے اور پھر سرگوشی کے انداز میں بلند آواز کے ساتھ سب کچھ شاہ صاحب کے گوش گزار کر دیتے تھے ۔ارشدملتانی صرف مسکراتے تھے اور اس سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے اس ماحول سے لطف اندوزہوتے تھے۔صحافیوں میں سعید صدیقی اس ہوٹل کے مستقل رکن تھے۔سیاسی کارکن، ریڈیو کے صداکار،سٹیج کے اداکار ،وکلاءسمیت ہرشعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی آمدورفت یہاں دن بھر جاری رہتی تھی۔یہیں ہم قمرالزماں بٹ کوبھی دیکھتے تھے جو اب نامورماہرقانون ہیں۔ خورشید خان، ملک بشیر اعوان، صادق خان ، طفیل ابن گل، قمررضا شہزاد، غضنفر علی شاہی، نذرعباس بلوچ، اقبال ناظر بلوچ، ہاشم خان، کرامت گردیزی، منیر فاطمی، محسن گردیزی ، اختر شما ، اطہر ناسک ۔غرض کس کس کا نام لوں سب اپنے اپنے شعبے کی پہچان لیکن ان سب کامرکز بابا ہوٹل تھا۔ شام ڈھلتی تو کچھ لوگ گھروں کوچلے جاتے اورپھر قاتلانِ شب کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا۔ ایک چہکتی ہوئی آواز اقبال ارشد کی سنائی دیتی ۔وہ ہوٹل میں داخل ہوتے تو دور سے ہی ایک ایک کا نام لے کر مخصوص انداز میں گفتگو شروع کر دیتے۔”رضی، بھئی تم نے بہت خوبصورت مضمون لکھا۔۔او یارطفیل تیرے کالم کا تولطف آگیا۔۔ خورشید خان تمہاری طبعیت اب کیسی ہے۔ شاہ جی آپ سلمان غنی کی حمایت نہ کیاکریں،یہ بڑا غلط آدمی ہے۔”پھر ایسی رونق لگتی کہ بس لطف آجاتا۔کوئی سہرا لکھوانے آیا تو حیدرگردیزی نے بلند آواز میں ایک مصرع کہا اورسب نے مل کر سہرا کہنا شروع کردیا۔”معطر سہرا“کی زمین میں ایک بار کسی کا سہرا لکھتے ہوئے یہ شعر بھی بابا ہوٹل میں ہی کہا گیا تھا۔
وصل کی رات یہ دلہن نے کہا دولہے سے
تُوتو زنخا ہے، نکل بھاگ….اِدھر کرسہرا
غزل کی محفل بھی یہاں خوب جمتی تھی اور ہزل بھی کہی جاتی تھی۔ایک باراقبال ارشد نے ارشد حسین ارشد کی موجودگی میں ارشدملتانی سے مخاطب ہوکر کہا
ہم تو ارشد ہی رہ گئے ارشد
لوگ ارشد حسین ارشد ہیں
مصرعوں میں توڑ پھوڑہوتی تھی ،تخلص اور نام تبدیل کردیئے جاتے تھے۔اقبال ارشد کے سسر قتیل صاحب کوحیدر گردیزی پیار سے ”کُت۔۔یل “صاحب کہتے تھے اور ان کی شان میں ایک خوبصورت نظم بھی اس زمانے میں زبان زدعام تھی۔طاہر تونسوی کو دھاڑ دھاڑ تونسوی کہا جاتاتھا۔مشاعروں کے پروگرام یہیں بنتے تھے۔لوگوں کی غزلیں بھی مرمت کی جاتی تھیں اور مرمت کے دوران ان غزلوں میں مہمل مصرعے یا بے معنی اشعار بھی ڈال دیتے جاتے تھے اورمتشاعر بہت دھڑلے کے ساتھ انہیں مشاعروں میں پڑھ آتے تھے ۔ایسے ہی ایک شاعر کا احوال اقبال ارشد نے ہمیں سنایا جس کی غزل کا مطلع اقبال ارشد نے کچھ اس طرح کہا
تمہارے آنے کا جب مجھ کو انتظارنہ تھا
بروزجمعہ کا دن تھا وہ ایتوارنہ تھا
متشاعر نے کسی محفل میں یہ مطلع سنایا تو لوگ ہنس دیئے وہ شکایت لے کر عزیز حاصل پوری کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اقبال ارشد نے مطلع میں کیسا عجیب مصرع ڈال دیا ہے ۔عزیز حاصل پوری نے تحمل کے ساتھ مسکراتے ہوئے اس متشاعر کی شکایت سنی اور شعرکچھ یوں درست کردیا
تمہارے آنے کا جب مجھ کو انتظارنہ تھا
جمعے کے روز کا دن تھا وہ ایتوارنہ تھا
متشاعر نے مطمئن ہو کر غزل جیب میں ڈالی ،عزیز حاصل پوری کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اورشکریہ ادا کرکے اگلے مشاعرے میں چلا گیا۔
یہ ایک ماحول تھا جس میں ہم شرارتیں بھی کرتے تھے، ہنسی مذاق میں ہماری تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی تھی۔علمی بحثیں بھی جاری رہتی تھیں اور ادبی سیاست کا مرکز بھی یہی ہوٹل تھا۔ اسی ہوٹل میں ہم نے دہلی مسلم ہوٹل کی ادبی بیٹھکوں کااحوال سنا تھا۔ یہیں ہمیں معلوم ہوا تھا کہ گلڈ ہوٹل کے نام سے ہمارے گھر کے قریب جو ہوٹل واقع ہے وہ دراصل رائٹرز گلڈ کی تقریبات کا مرکز ہوتا تھا اوراسی ناطے سے اسے آج گلڈ ہوٹل کہاجاتا ہے اوربابا ہوٹل سے متصل خان کیفے ٹیریا تھا جہاں ایک بار اظہر سلیم مجوکہ نے ہماری ضد میں ایک مشاعرے کا اعلان کردیا ۔ ہوٹل کا نظام جن دو بھائیوں کے پاس تھا وہ جناح کیپ اور اچکنیں زیب تن کرتے تھے اور ان کے مخصوص حلیے کی وجہ سے ہم ان دونوں بھائیوں کو ککڑ کہتے تھے۔مجوکہ نے وہاں مشاعرہ کرایا توہمارے سوا پورے شہر کومدعو کرلیا ہم سے بھلا وہ مشاعرہ کہاں ہضم ہوتا تھا۔ ہم نے ایک پی سی او سے ہوٹل فون کیا ۔ایک ککڑ نے فون اٹھایا تو ہم نے فوجی لب ولہجے میں صرف اتنا دریافت کیا ’اوے باسٹرڈ، کیا تمہارے ہوٹل میں ملک دشمنوں کا اجلاس ہورہا ہے؟‘
’نہیں سر ،نہیں سر۔ یہ توشاعرواعر جمع ہیں ‘
”شٹ اپ۔ ہم تمہارا ہوٹل بند کرنے آرہے ہیں“
ٹیلی فون بند ہوتے ہی ککڑ صاحب کی تو سٹی گم ہو گئی ۔ انہوں نے شاعروں کے آگے رکھی پلیٹیں اٹھانا شروع کر دیں اور انہیں ہوٹل سے باہر نکال دیا۔ اظہر سلیم مجوکہ اور تمام شاعر اصرارکرتے رہے کہ ہم ملک دشمن نہیں ہم تو صرف شعر سنانے آئے ہیں لیکن فوجی بوٹوں کی دھمک سننے کے بعد ککڑ نے شاعروں کی بانگیں سننے سے انکار دیا ۔ مشاعرہ منسوخ ہوا ۔شاعر اپنے گھروں کوگئے۔ ککڑ بھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنی جناح کیپ سنبھالتا ہوا فرار ہو گیا۔ بابا ہوٹل کے باہر زینتھ سنیما کے سامنے ہم حیدرگردیزی کے ساتھ بیٹھے اس منظر سے لطف اندوزہوتے رہے۔
۔ پھریوں ہوا کہ ایک ایک کر کے سب ہوٹل بند ہوتے چلے گئے۔ بابا ہوٹل کی جگہ بابا آئس کریم نے لے لی۔ چوک کے دوسری جانب تاج ہوٹل والوں نے شاعرو ں کی سگریٹ نوشی پر پابندی لگادی۔ قاتلانِ شب کے سب ٹھکانے ختم ہو گئے۔
( بشکریہ : روزنامہ ۔۔ سب نیوز اسلام آباد )