سجاد جہانیہکالملکھاری
امیدوں کے تاجر : دیکھی سنی / سجاد جہانیہ

انسانوں کی زندگی میں امید کا بڑا عمل دخل ہے صاحب! یہی بیڑا پار لگاتی ہے اور بیڑے غرقاب بھی یہی کرتی ہے۔ یہ ہر دو قسم کی ہوتی ہے‘ اپنے دامن میں خیر رکھنے والی اور شر جننے والی امید۔ لالچ بھی تو اسی امید کا ایک نام ہے۔ یہ آس رکھ کر سازشیں کرنا کہ اگر ایسا ہوجائے تو فلاں شئے مجھے مل جائے اور اگر فلاں مرجائے تو مجھے فلاں فائدہ ہوجائے۔ امیدیں استوار ہونے میں لالچ کے خمیر سے اٹھے اس قسم کے بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ سرگودھا کے چک نمبر پچانوے شمالی کی نوزائیدہ درگاہ میں جو بیس افراد مارے گئے اور جو تین زخمی حالت میں وہاں سے نکل بھاگے‘ وہ بھی تو پیر صاحب سے امیدیں وابستہ کئے وہاں پڑے تھے۔ امیدوں کے گھوڑے اندھے ہوتے ہیں اور ان کو ضروریات کی مہمیز لگی ہوتی ہے‘ ورنہ کون ڈنڈے سوٹے کھاتا ہے۔ امیدوں میں لتھڑی عقیدت کیسی فاترالعقل شئے ہے کہ ایک گجر کو روحانی پیش وا تسلیم کرکے سرِتسلیم ختم کردیتی ہے۔
یہ آستانے‘ یہ پیر خانے‘ یہ فال و جادو کے کارخانے خوابوں کی تجارت کرتے ہیں۔ ضرورت کے مارے ہوئے انسانوں کی امیدوں کو چکنی چپڑی باتوں کے پالنے میں ڈال کر سہانے خوابوں کی تھپکیاں دیتے ہیں۔ اس عالم مدہوشی میں یہ ضرورت مند آبرو سے لے کر مال و جان تک سبھی کچھ ہار جاتے ہیں۔پھر جب خوابوں کے آبگینے چکنا چُور ہوتے ہیں تو اس امر کو تقدیر کا ایک اور تھپیڑا جان کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ خواب فروشوں کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نہ اس ملک میں مسائل کی کمی ہے اور نہ ان مسائل کے پھندے میں الجھ کر پیروں اور عاملوں کی درگاہ کا سنگِ آستاں بن جانے والوں کی۔ سو دکانیں آباد ہیں اور گاہکوں کا تانتا۔ کوئی اپنی مالی پریشانی دور کرنا چاہتا ہے‘ کسی کی سرے سے اولاد نہیں اور وہ اولاد کے لئے آستاں بوسی کرتا ہے‘ کسی کی اولاد ہے تو نرینہ اولاد نہیں۔ کسی کو رشتہ نہیں مل رہا۔ کوئی محبوب کو پانا چاہتا ہے۔ وہ جو عورت بیٹھی ہے‘ اس کی ساس اور نندیں زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ وہ برقعے والی کا خاوند دوسری عورتوں کے پیچھے پھرتا ہے۔ اتنے مسائل ہیں کہ شمار سے باہر۔ ان کو پھر جہاں بھی امید کی موہوم کرن نظر آتی ہے‘ یہ وہاں جاپہنچتے ہیں۔
سرِنیاز کو تیرا ہی آستانہ ہوا
شراب خانہ ہوا یا قمار خانہ ہوا
لالچ میں گندھی عقیدت کو پھر شراب خانہ بھی ’’انواروتجلیات‘‘ کا مرکز نظر آتا ہے اور جواء خانہ کے درودیوار خانقاہ لگتے ہیں۔ صرف مالی پریشانیوں اور رشتوں کے ستائے ہوئے لوگ ہی ان خواب فروشوں کے آستاں بوس نہیں ہوتے‘ وہ جن کو یہ دونوں ہی فکریں نہیں ہوتیں‘ وہ اپنی آخرت ’’سنوارنے‘‘ کے چکر میں پیر صاحب کے دامن سے خود کو باندھ لیتے ہیں۔ یہ آسانیوں کے متلاشی اور کاہل الوجود لوگ ہوتے ہیں‘ جو شریعت کا سیدھا مگر اک ذرا کٹھن راستہ اپنانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کالا کاروبار بھی چلتا رہے‘ لوگوں کا حق بھی کھاتے رہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ پیر خانے کی مالی خدمت کرکے پیر صاحب کے دامن کا سایہ میسر آجائے جو میدانِ حشر سے چھپاکر جنت میں داخلے کا ٹکٹ بن جائے۔ وہی امیدوں کی ڈوری سے بندھے لالچی لوگ۔
چک پچانوے شمالی کا دکان دار عبدالوحید گجر مہینے میں دو ایک بار اپنی دکان (آستانہ) پر آتا تھا۔ تب پیر صاحب آستانے میں شراب ’’طہورا‘‘ سے شغل فرماتے اور مریدوں کو بلواکر ان پر لات‘ مکا‘ چھڑی‘ لاٹھی بھی آزماتے۔ اذیت پسند پیر صاحب کی طرف سے کیا گیا یہ تشدد مریدین سعادت سمجھ کر بسروچشم قبول کرتے کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اس جوتا جاتی سے ان کے گناہ جھڑ جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ مریدین کو برہنہ کرکے ان پر تشدد کیا جاتا۔ برہنہ اس لئے کیا جاتا ہوگا کہ لباس میں اگر جوتی لاٹھی کی گئی تو ممکن ہے کوئی گناہ جسم کے کسی نہاں حصے سے چپکا رہ جائے‘ سو براہِ راست کھال سے گناہ جھاڑے جاتے کہ مرید گنگا دھلا ہوجائے۔ یہ جو بیس افرادجان سے گئے وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے گناہ جھاڑ کر انہیں پوتر کیا جارہا ہے۔ انہیں کیا علم تھا کہ آج پیر صاحب ’’مائل بہ کرم‘‘ ہیں۔ آج وہ ان کے گناہ صاف کرنے کے بعدجنت کا ویزہ تھماکے عالمِ بالا کی پرواز پر چڑھادینے کا ٹھانے ہوئے ہیں۔
جب تک اس ملک سے غربت‘ بھوک‘ لاچاری‘ حسد‘ جلن‘ بے انصافی ختم یا کم نہیں ہوتی تب تک امید بھرے خواب فروخت کرنے والی ان دکانوں کے کاروبار کو کوئی خطرہ نہیں۔ جاہلوں کی اور شارٹ کٹ کے متلاشیوں کی آبادی روز بہ روز بڑھ رہی ہے سو ان دکانوں کی ضرورت بھی۔ روزانہ نت نئی دکانیں کھلتی چلی جارہی ہیں۔ اندھی عقیدت سے مایا نچوڑنے کی دکانیں۔ چک پچانوے شمالی میں گجر برادران نے بھانہ بند کرکے جو یہ آستانہ کھولا‘ اخباری اطلاعات کے مطابق‘ اس کو بھی فقط دو ہی برس ہوئے ہیں۔ جہاں‘ جس کا دل چاہے زمین پر مٹی کی کوہان بناکر چار جھنڈے گاڑ دیتا ہے۔ دو خلیفے علاقے میں چھوڑ دیتا ہے اور کاروبار شروع۔ میرے علم میں نہیں کہ شہریوں کا دین و ایماں خراب کرنے والی ان دکانوں بارے کوئی قانون موجود ہو۔ کوئی محکمہ جاکے پوچھتا ہوکہ میاں! یہ جو جھنڈے گاڑ کے اب مقبرہ بنانے کو نذر نیاز جمع کرتے ہو‘ یہ تربت کن ذاتِ شریف کی ہے اور کب دریافت ہوئی؟ ان صاحبِ مزار کی کرامات و روحانی مقاماتِ عالی اب تک پردۂ اخفا میں کیوں تھے اور آپ پر کیسے منکشف ہوئے۔ کوئی نہیں پوچھتا۔ یہی چک پچانوے والا دربار محکمہ اوقاف کے ریکارڈ میں وجود ہی نہیں رکھتا۔
یوں اخبارات کے صفحے کالے کرنے اور ٹیلی وژن سکرینوں پر بھاشن دینے سے تو حالات میں کوئی سدھار آنے والا نہیں کیوں کہ جہالت اور لالچ کا کوئی علاج نہیں۔ ہر ایک کو اپنا پیر‘ کامل نظر آتا ہے۔ آپ لاکھ تاویل و دلائل سے سمجھالیں‘ وہ کہے گا ’’نہ جی ہمارے حضرت صاحب ایسے نہیں‘‘۔ سو جب تک آستانوں تک کشاں کشاں لے جانے والی سماجی بیماریوں کا علاج نہیں ہوتا‘ ان بارے کچھ قانون سازی ضروری ہے۔ نئی دکانوں کے قیام پر پابندی لازم ہے۔ چک پچانوے میں بیس لوگوں کی جان لینے والے گجر صاحب کو بھی پھانسی کے احکامات ہونے پر صبح پانچ بجے چپ کرکے تختۂ دار پر نہیں چڑھانا چاہیے بلکہ چک پچانوے شمالی کے کسی رونق والے چوک میں قتل ہونے والوں کے لواحقین کو دائرے میں کھڑا کرکے ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھمادی جائیں۔ پھر عبدالوحید گجر صاحب کو اس دائرے کے درمیان چھوڑ دیا جائے۔ لواحقین کو ہدایت کی جائے کہ پیر صاحب کا لباس تن سے جدا کرکے اور اپنی لاٹھیاں ا ستعمال میں لاکر پیر صاحب کے گناہ جھاڑیں۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک پیر صاحب پوتر ہوکر موت کے سفر پر روانہ نہ ہوجائیں۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)