چوراہے میں کوئی عوامی شاعر پنجابی کی ایک نظم سنا رہا تھا۔ تین مصرعے تو ذہن میں نقش ہو کر رہ گئے۔
سِر دِتا سی
سِر لینے نے
ہُن انج نیوندرے پینے نے
شاکر دیکھ اس مصرعے میں ”نیوندرے“ کتنا خوبصورت استعمال ہوا ہے۔ اور ہاں ایک اور بات سنو ان دو دنوں کے دوران لاہور میں جتنا ڈھول بجایا گیا شاید ہی کبھی بجایا گیا ہو گا۔ ان دو دنوں کے دوران لاہور کی سڑکوں پر خلقت نے جتنا رقص کیا شاید ہی کبھی کیا ہو۔ پورا لاہور ناچتا گاتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس لاہور نے بہت برے دن بھی دیکھے۔ آہیں اور سسکیاں بھی دیکھیں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں کو کوڑے بھی لگائے گئے، انہیں چوراہوں میں سرعام پھانسیاں بھی دی گئیں تاکہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر خون کی ہولی بھی کھیلی گئی، فائرنگ ہوئی، لاٹھیاں چلیں، آنسو گیس پھینکی گئی اگرچہ اس عہد سیاہ میں لوگوں کو رُلانے کے لیے آنسو گیس کے تردد کی ضرورت بھی نہیں کہ آنسو تو اظہار کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکے تھے مگر اس کے باوجود بے تحاشہ آنسو گیس استعمال ہوئی۔ اسی لاہور کی سڑکوں پر لوگوں نے تیرگی کے خاتمے کے لیے اپنے جسموں کو چوراہوں میں آگ لگائی اور شمع ہر رنگ میں جلتی رہی سحر ہونے تک کی عملی تصویر بن گئے۔ تو شاکر اس لاہور نے جتنے دکھ دیکھے اور جتنے آنسو دیکھے یہ ان کے کفارے کا دن تھا۔ یہ خوشیوں کا دن تھا ناچنے گانے اور جشن منانے کا دن تھا۔ لوگوں کا ایک سیلاب تھا جس کے ساتھ مَیں بھی بہہ رہا تھا۔ یہ تو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پورا پاکستان لاہور میں اُمڈ آئے گا۔ لاہور کی سڑکیں تنگ پڑ جائیں گی۔ ایک محتاط اندازہ ہے کہ جلسے میں 10 سے 15 لاکھ افراد تھے مگر بی بی سی کا تبصرہ اتنا اچھا ہے کہ وہاں اتنی خلقت تھی جسے گنا نہیں جا سکتا۔“
رضی الدین رضی کے اس منظرنامے کے بعد ہمارے سامنے محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی شہادت تک پورے پاکستان میں بہت بڑے جلسے کیے لیکن وہ 10 اپریل 1986ءکا ریکارڈ نہ توڑ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1988ءمیں اُسے ہاتھ باندھ کر جو اقتدار دیا گیا تب سے ہی پیپلز پارٹی نے سکڑنا شروع کیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر عوام ن لیگ کی بجائے عمران خان کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اگرچہ عمران خان کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں 26 برس لگ گئے لیکن وہ ابھی بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرح ہردلعزیز نہیں ہو پایا کہ لوگ اس کے لیے خودسوزیاں کریں، کوڑے کھائیں، شاہی قلعہ لاہور میں جا کر استقامت کا پیکر بنیں۔ پھانسی گھاٹ پر جا کر پھانسی کا پھندہ چومیں اور اور اور ……..
عمران خان کے جو حامی ہمیں دکھائی دے رہے ہیں ان کا بس ایک ہی نعرہ ہے کہ ہم نے نیا پاکستان بنانا ہے۔ البتہ عمران خان کا یہ نعرہ کے پی کے میں پرانا ہو چکا ہے۔ جبکہ باقی صوبوں کے لوگ اس نعرے کو عملی شکل پہنانے کے منتظر ہیں۔ سندھ بلوچستان کو چھوڑیں اب یہ نعرہ پنجاب میں زیادہ زور و شور سے لگایا جا رہا ہے۔ یہ نعرہ اس لیے بھی یہاں پر لگایا جا رہا ہے کہ پنجاب ہی تو اقتدار دینے کا فیصلہ کرتا ہے اور پنجاب کے لوگ ہی اقتدار سے محروم کر دیتے ہیں۔ اس وقت تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کے لیے طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ لوگ اپنی کئی برسوں کی وفاداریوں کو سرِعام فروخت کرنے کے لیے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں کہ اُن کو کوئی بے مول ہی لے جائے۔ جب خریدنے والا عمران خان ہو گا تو وہ بھی اب سوچ سمجھ کے خریداری کرے گا۔ اس سارے سیاسی منظرنامے کے بعد جب عمران خان 29 اپریل 2018ءکو لاہور کے مینارِ پاکستان میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے لاہور سے ٹینٹ ہاؤس والوں سے ہزاروں کرسیاں لگانے کے لےے رابطہ کیا گیا۔ 10 اپریل 1986ءسے 29 اپریل 2018ءکے سفر کی پہلی تبدیلی یہ ٹھہری کہ اس زمانے میں جلسہ گاہوں میں کرسیاں نہیں لگائی جاتی تھیں۔ عوام کھڑے ہو کر جلسہ سنا کرتے تھے۔ اب نیا دور، نئے تقاضے، آرام دہ کرسیاں، جی بہلانے کے لیے ڈی۔جے کا استعمال، عوام کی خدمت کے لیے پینے کا پانی اور کھانے پینے کی مفت فراہمی کو بھی جلسے کے بجٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں عمران خان نے ایک بڑا جلسہ کیا۔ لیکن اس میں ویسا جوش و خروش نہیں تھا جو ہوا کرتا ہے۔ یہ نئی نسل ہے اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ اگر جلسہ گاہ میں بجلی بند کر کے عمران خان ان کو اپنے موبائل لائٹ آن کرنے کا کہے تو وہ منظر تو خوبصورت بن جاتا ہے۔ کاش وہ یہ بھی کہتا کہ جلسہ گاہ میں جنہوں نے جوس، بوتلیں اور کھانے پینے کی فالتو اشیاءپھینکی ہیں اس کو اپنے ساتھ لے کر جائیں تو وہ مینارِ پاکستان سے ہی نیا پاکستان بنانے کی بنیاد رکھ سکتا تھا۔
اس مرتبہ عمران خان کی تقریر بہت طویل تھی۔ لیکن اس میں پہلے سے کی گئی باتوں کو بار بار دہرایا لیکن اس نے قوم کے سامنے اپنے 11 نکات رکھے۔ ان نکات کے بارے میں اس وقت ہر جگہ پر بحث جاری ہے۔ لیکن اس میں اور بھی بہت کچھ شامل کیا جا سکتا تھا مثال کے طور پر نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کی فراہمی ان کی تقریر کا حصہ نہ بن سکی۔ حالانکہ 1988ءمیں جب بینظیر بھٹو پہلی مرتبہ اقتدار میں آئیں تو انہوں نے نوجوانوں اور خواتین کے لیے پہلی مرتبہ الگ الگ وزارت قائم کی۔ نوجوانوں کے لیے انہوں نے سیّد پرویز علی شاہ کو وزیر بنایا جو پیرپگاڑا کو شکست دے کر آیا تھا جبکہ خواتین کے لیے ریحانہ سرور کو وزیر بنایا گیا۔ عمران خان کے اس وقت 70فیصد حامی یہی نوجوان ہیں اور وہ خالی ہاتھ جلسہ گاہ میں آئے اور خالی ہاتھ ہی اپنے گھروں کو واپس آ گئے۔ ایک بڑے لیڈر کو جب عوام کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوتا ہے تو اسے سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ عمران خان کی تقریر میں سی پیک غائب ہے۔ حالانکہ اب مستقبل میں پاکستان کی معیشت کا انحصار اسی پر ہو گا۔ عمران خان کے مخالفین اب یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ اس کے گیارہ نکات میں سے کے پی کے میں کتنے نکات پر کام ہوا۔ اگر اس پر کوئی کام ہوا ہے تو اس کا انہوں نے ذکر کیوں نہیں کیا۔ ویسے بھی عمران خان نے اپنے اردگرد جس طرح کا ہجوم اکٹھا کر لیا ہے اس کے بعد تو یہ اُمید نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کی آبیاری کر سکے۔ کہ اس کی جماعت میں گزشتہ دو تین برسوں میں جس طرح کے لوگ شامل ہوئے ہیں وہی لوگ پیپلز پارٹی، ن لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ ایسے لوٹوں کی بجائے اپنی جماعت کے اُن عہدےداروں کو اہمیت دےتے جو پہلے دن سے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو لوگ پہلے دن سے ان کے سٹیج، جلسے، جلوس اور باقی چیزوں کا اہتمام کرتے تھے ان کے ذمے تو اب یہ کام بھی نہیں رہا۔ پارٹی میں اب ان لوگوں کا قبضہ ہے جن کا تعلق خود قبضہ گروپوں سے رہا ہے۔ عمران خان نے ایک بڑا جلسہ کیا لیکن میرے خیال میں انہوں نے وقت سے پہلے یہ جلسہ کر لیا۔ لوگوں کے ذہنوں سے گیارہ نکات اگر محو ہو گئے اور نیا سیاسی بیانیہ اس کی جگہ لے گیا تو مخالفین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس وقت عمران خان کے حق میں بظاہر سب اچھا دکھائی دے رہا ہے لیکن سب اچھا تب دکھائی دے گا جب ایک حلقے سے پانچ اُمیدواروں میں سے جب ایک کو ٹکٹ ملے گا تو باقی چار بھی دل کے ساتھ اس کی حمایت کریں۔ لیکن ایسا ناممکن ہے۔ یوں دکھائی دے رہا ہے کہ تحریکِ انصاف کو اس وقت پنجاب میں جو عوامی تائید حاصل ہے اس کو نہ تو ن لیگ شکست دے سکتی ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی۔ البتہ تحریکِ انصاف کو اب تحریکِ انصاف سے ہی خطرہ ہے۔ اس سب کے باوجود سیاسی مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اس لڑائی میں کہیں تیسری قوت کامیاب نہ ہو جائے۔ جنوبی پنجاب والوں نے تو اپنی تیسری قوت جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے نام سے بنا لی ہے۔ باقی صوبوں کے لوگ اپنے مقامی حالات کے مطابق تیسری قوت تلاش کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ