ڈاکٹر غضنفر مہدی کی کتاب ”سرائیکی مرثیہ“ کی تعارفی جاری تھی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر جاوید اور روزنامہ جھوک کے چیف ایڈیٹر ظہور دھریجہ نے حسب معمول شاہ محمود قریشی کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے ”سرائیکی صوبے“ کی تشکیل کا سوال اٹھا دیا۔ دھریجہ صاحب تو سو دنوں کی گنتی کر کے بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی نے جو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اس میں اب چودہ دن باقی رہ گئے ہیں۔ وزیر خارجہ آنکھیں بند کر کے سب کی سن رہے تھے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ڈاکٹر محمد صدیق خان قادری کہہ رہے تھے کہ مخدوم صاحب جب کسی تقریب میں آنکھیں بند کر کے موجود ہوتے ہیں تو تب وہ سکون کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جیسے ہی شاہ محمود قریشی صدارتی خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو انہوں نے مظہر جاوید اور ظہور دھریجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”آپ نے میری موجودگی میں ہماری حکومت کے چھیاسی دن گزرنے کی بات کی ہے اور یہ بھی باور کرایا ہے کہ باقی چودہ دن رہ گئے ہیں صوبہ بنانے میں۔ تو اس سلسلہ میں عرضِ مدعا یہ ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ کہ سینیٹ میں ہمارے ارکان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر جبکہ پنجاب اسمبلی میں ہماری اکثریت بھی آٹھ دس ارکان کی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت کا سامنا ہمیں قومی اسمبلی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے میں ہم سے صوبے کا مطالبہ قبل از وقت ہے۔ ہم سے سو دنوں کا حساب مانگنے والوں نے کبھی ن لیگ سے پنجاب میں ان کے دس سال کا حساب مانگا ہے۔ پی پی سے ان کے پانچ برسوں کی بازپرس کی ہے (مخدوم صاحب یہ بھول گئے کہ پی پی کے پانچ برسوں میں کچھ عرصہ وہ بھی اُسی حکومت کا حصہ تھے) مخدوم شاہ محمود قریشی اس دن کافی جذباتی ہو رہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے ہم سے سرائیکی صوبے کا حساب مانگنے سے پہلے ن لیگ اور پی پی سے پوچھا جائے کہ ان کے منشور میں اس صوبے کا ذکر کیوں نہیں ہے جبکہ ہم نے اپنے منشور میں واضح طور پر صوبہ بنانے کی بات کی ہے۔ جب ہم سرائیکی صوبہ کی بات کرتے ہیں تو پھر عوام کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ صوبہ تحریکِ انصاف ہی بنائے گی۔ اگر اس صوبہ کی تشکیل کے لیے مجھے بلاول زرداری (انہوں نے بلاول کا پورا نام بھی نہیں لیا) نواز، شہباز کے پاس بھی جانا پڑا تو جاؤں گا۔ یہ سب باتیں انہوں نے پورے جوش و خروش سے اس لیے کیں کہ اُن کے پہلو میں ڈاکٹر غضنفر مہدی بیٹھے ہوئے تھے۔ جنہوں نے ہمیشہ ہی سرائیکی زبان کا مقدمہ لڑا ہے لیکن وہ الگ بات کہ اب سرائیکی صوبے کے بے شمار دعوےدار آ گئے ہیں۔ لیکن میر حسان الحیدری سے لے کر ڈاکٹر غضنفر مہدی تک سب نے ہمیشہ اسی زبان کی تعمیر و ترقی کے لیے خود کو وقف کیا۔ غضنفر مہدی کو ہم 1980ءسے دیکھ رہے ہیں ان کو تین چیزوں سے بہت پیار ہے ملتان، سرائیکی زبان اور خانوادہ مخدوم سجاد حسین قریشی۔ اسی لیے مخدوم شاہ محمود قریشی ڈاکٹر غضنفر مہدی کی تقریب میں بطور مہمان نہیں بلکہ میزبان موجود تھے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کی اس تقریب میں گفتگو بڑی اہم ہے اس کی ریکارڈنگ پی ٹی وی اور ریڈیو ملتان کے پاس موجود ہے۔ ان کی اس تقریر کے بعد ایک بات تو طے ہو گئی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ سو دن میں تو بالکل بننے والا نہیں ہے۔ البتہ ملتان یا بہاولپور میں جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ بننے کے لیے کام جاری و ساری ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جنہوں نے لائنوں میں لگ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے تھے وہ ابھی انتظار کریں کہ حکومت کے پاس صوبہ بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں۔ اس لیے جنوبی پنجاب صوبہ کے حامی اگلے انتخابات کے نتائج کو دیکھیں پھر سوچیں کہ یہ بھاری پتھر کون سی سیاسی پارٹی اٹھا سکتی ہے۔ جس دن مخدوم شاہ محمود قریشی ”سرائیکی مرثیے“ کی رونمائی میں بطور صدر آئے اُسی دن صبح زکریا یونیورسٹی میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ”صوفی کانفرنس“ میں شرکت کی۔ صدر مملکت نے اگرچہ ملتان ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کا سفر ہیلی کاپٹر سے کیا لیکن اس کے باوجود ہزاروں پولیس اہلکار پورے ملتان میں ان کی حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ میٹرو بس بند، زکریا یونیورسٹی کے طلبا ہوسٹل میں بند، جگہ جگہ سڑکیں بند اور ان کو ایس او پی کے تحت بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ یعنی جن سڑکوں پر صدر مملکت کا سایہ تک نہیں جانا تھا وہاں بھی ان کی حفاظت کے لیے پولیس اہلکار سارا دن کھڑے رہے۔ موجودہ حکوت نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی طرح لاؤ لشکر کے ساتھ کہیں نہیں جائیں گے۔ اب تک تو موجودہ حکومت کے دعوے ٹھپ ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال ویسے ہی ہے جیسی گزشتہ ادوار میں ہوتی تھی۔ ہسپتالوں کا نظام مزید خراب اس لیے ہو گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ان کے فنڈز روک رکھے ہیں۔ مختلف محکموں سے فارغ ہونے والے ملازمیں سڑکوں پر آئے ہوئے ہیں۔ اصل چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کیے جا رہے ہیں البتہ آسیہ مسیح کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد ملتان میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج اس لیے نہیں ہوا کہ عوام کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ سڑکوں پر آنے کی بجائے غمِ روزگار سے جی لبھاتے رہے۔
ایسے میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں جب یہ کہہ رہے تھے کہ تعصبات سے بالا نیا پاکستان بلندیوں پر لے جائے گا اور انصاف، روزگار گھر کی دہلیز پر ملے گا تو عین اس وقت شہباز شریف ہسپتال سے بے روزگار ہونے والے ملازمین مظاہرے کر رہے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دفعہ 144 کے باوجود ان مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کہ کارروائی کرنے والے پولیس ملازمین تو صدر مملکت کی زمینی حفاظت پر مامور تھے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنا منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ملتان آئے تھے اس سے پہلے بھی وہ بارہا مرتبہ ملتان آئے۔ نشتر ہسپتال کے ڈینٹل کالج و ہسپتال کی تعمیر میں ان کی مشاورت اور رہنمائی شامل حال رہی ہے لیکن انہوں اس مرتبہ وہاں جانے کا پروگرام نہیں بنایا۔ البتہ ان کے اس دورے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ فیس بک پر بے شمار دوستوں نے نئے نویلے صدر کے ساتھ اپنی تصاویر بنوا کر پوسٹ کیں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر یہ بھی بتایا کہ ابھی سرائیکی صوبہ یہ جنوبی پنجاب صوبہ والا معاملہ گول ہی سمجھیں تو اس پر عوام نے سُکھ کا سانس لیا کہ چلو موجودہ حکومت میں کسی اور مسئلہ پر ان کو سکھ لینا نہیں پر رہا تھا۔ یہ مسئلہ ان کے لیے سکون کا باعث بن گیا کہ عوام کو موجودہ حکومت کے 100 دن کے اندر کہیں تو سکھ کا لمحہ آیا ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یہ سکھ کا لمحہ اگلے کئی سال تک نہ آ سکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
مخدوم شاہ محمود قریشی کی اس تقریب میں گفتگو بڑی اہم ہے اس کی ریکارڈنگ پی ٹی وی اور ریڈیو ملتان کے پاس موجود ہے۔ ان کی اس تقریر کے بعد ایک بات تو طے ہو گئی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ سو دن میں تو بالکل بننے والا نہیں ہے۔ البتہ ملتان یا بہاولپور میں جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ بننے کے لیے کام جاری و ساری ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جنہوں نے لائنوں میں لگ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے تھے وہ ابھی انتظار کریں کہ حکومت کے پاس صوبہ بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں۔ اس لیے جنوبی پنجاب صوبہ کے حامی اگلے انتخابات کے نتائج کو دیکھیں پھر سوچیں کہ یہ بھاری پتھر کون سی سیاسی پارٹی اٹھا سکتی ہے۔ جس دن مخدوم شاہ محمود قریشی ”سرائیکی مرثیے“ کی رونمائی میں بطور صدر آئے اُسی دن صبح زکریا یونیورسٹی میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ”صوفی کانفرنس“ میں شرکت کی۔ صدر مملکت نے اگرچہ ملتان ایئرپورٹ سے یونیورسٹی کا سفر ہیلی کاپٹر سے کیا لیکن اس کے باوجود ہزاروں پولیس اہلکار پورے ملتان میں ان کی حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ میٹرو بس بند، زکریا یونیورسٹی کے طلبا ہوسٹل میں بند، جگہ جگہ سڑکیں بند اور ان کو ایس او پی کے تحت بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ یعنی جن سڑکوں پر صدر مملکت کا سایہ تک نہیں جانا تھا وہاں بھی ان کی حفاظت کے لیے پولیس اہلکار سارا دن کھڑے رہے۔ موجودہ حکوت نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی طرح لاؤ لشکر کے ساتھ کہیں نہیں جائیں گے۔ اب تک تو موجودہ حکومت کے دعوے ٹھپ ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال ویسے ہی ہے جیسی گزشتہ ادوار میں ہوتی تھی۔ ہسپتالوں کا نظام مزید خراب اس لیے ہو گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ان کے فنڈز روک رکھے ہیں۔ مختلف محکموں سے فارغ ہونے والے ملازمیں سڑکوں پر آئے ہوئے ہیں۔ اصل چوروں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کیے جا رہے ہیں البتہ آسیہ مسیح کے مقدمہ کے فیصلہ کے بعد ملتان میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج اس لیے نہیں ہوا کہ عوام کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ سڑکوں پر آنے کی بجائے غمِ روزگار سے جی لبھاتے رہے۔
ایسے میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں جب یہ کہہ رہے تھے کہ تعصبات سے بالا نیا پاکستان بلندیوں پر لے جائے گا اور انصاف، روزگار گھر کی دہلیز پر ملے گا تو عین اس وقت شہباز شریف ہسپتال سے بے روزگار ہونے والے ملازمین مظاہرے کر رہے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دفعہ 144 کے باوجود ان مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کہ کارروائی کرنے والے پولیس ملازمین تو صدر مملکت کی زمینی حفاظت پر مامور تھے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنا منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ملتان آئے تھے اس سے پہلے بھی وہ بارہا مرتبہ ملتان آئے۔ نشتر ہسپتال کے ڈینٹل کالج و ہسپتال کی تعمیر میں ان کی مشاورت اور رہنمائی شامل حال رہی ہے لیکن انہوں اس مرتبہ وہاں جانے کا پروگرام نہیں بنایا۔ البتہ ان کے اس دورے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ فیس بک پر بے شمار دوستوں نے نئے نویلے صدر کے ساتھ اپنی تصاویر بنوا کر پوسٹ کیں اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر یہ بھی بتایا کہ ابھی سرائیکی صوبہ یہ جنوبی پنجاب صوبہ والا معاملہ گول ہی سمجھیں تو اس پر عوام نے سُکھ کا سانس لیا کہ چلو موجودہ حکومت میں کسی اور مسئلہ پر ان کو سکھ لینا نہیں پر رہا تھا۔ یہ مسئلہ ان کے لیے سکون کا باعث بن گیا کہ عوام کو موجودہ حکومت کے 100 دن کے اندر کہیں تو سکھ کا لمحہ آیا ورنہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ یہ سکھ کا لمحہ اگلے کئی سال تک نہ آ سکتا۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ