بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ ملتان میں 10 مارچ 2017ء کو اُسی جگہ پر جلسۂ عام کرنا ہے جہاں پر اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کی انتخابی مہم کے دوران کیا۔ یہ جگہ قلعہ کہنہ قاسم باغ میں موجود سٹیڈیم ہے۔ اسی جگہ پر اکتوبر 1993ء میں انتخابی مہم کے دوران ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی جلسہ سے خطاب کیا تھا۔ مَیں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی اور آخری مرتبہ ماؤ کیپ پہنے اسی سٹیڈیم میں خطاب کرتے سنا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملتان میں قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار کی آخری جنگ لڑ رہے تھے۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا ذکر پھر کبھی۔ فی الحال تو ہمارا موضوع ملتان میں بلاول بھٹو زرداری کا ہونے والا جلسہ ہے۔ پی پی کے جن رہنماؤں نے قاسم باغ سٹیڈیم کا انتخاب کیا اصل میں انہوں نے اپنے آپ کو کڑے امتحان میں ڈالا ہے کیونکہ ماضی قریب میں اسی جگہ پر عمران خان اتنا بڑا جلسہ کر چکے ہیں کہ اب بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جہاندیدہ ٹیم کے لیے یہ کڑا امتحان ہے کہ وہ اتنا بڑا سٹیڈیم پی پی کے زوال کے دنوں میں کس طرح بھرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے جلسہ کو کامیاب کرنے کے لیے یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود نے چوتے کس لیے ہیں۔ پہلوان اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان دونوں رہنماؤں نے ملتان میں ایک دھواں دھار اجلاس کیا جس میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی کے قریبی ساتھیوں محمد حسن راں، محمد عباس راں اور محمد ارشد راں نے پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملتان میں راں فیملی سیاسی طور پر بہت ہی مضبوط جانی جاتی ہے۔ اس وقت بھی مظہر عباس راں نواز لیگ سے کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ جبکہ محمد حسن راں بھی اپنے حلقے میں خوب اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور راں فیملی میں اختلاف کی وجہ یہ ٹھہری کہ آنے والے انتخابات میں شاہ محمود قریشی اسی حلقے میں اپنے بیٹے زین قریشی کو میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں محمد حسن راں کے لیے پی پی کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں تھی کیونکہ ن لیگ میں پہلے ہی مظہر عباس راں موجود ہیں۔ جبکہ پی پی نے گزشتہ انتخابات میں شاہ محمود قریشی کے چھوٹے بھائی مرید حسین قریشی کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ البتہ انہوں نے اس انتخاب میں اتنے ووٹ حاصل کر لیے تھے کہ اگر وہ آنے والے انتخابات میں کچھ زیادہ محنت کر لیں تو وہ جیت بھی سکتے ہیں۔
محمد حسن راں اور ان کے دونوں بیٹوں کی پی پی میں شمولیت کی خبریں تو گزشتہ کئی ماہ سے اخبارات میں شائع ہو رہی تھیں۔ خیال یہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی ملتان آمد پر یہ سب لوگ پی پی میں شامل ہوں گے لیکن بلاول بھٹو کے جلسہ کے پیش نظر یوسف رضا گیلانی نے سوچا کہ اگر راں خاندان 10 مارچ کو پی پی میں شامل ہوتا ہے تو جلسہ میں ان کے حلقے کی نمائندگی نہیں ہو سکے گی۔ اب پی پی جنوبی پنجاب نے ملتان میں ایک تقریب کا انعقاد کیا تو اس میں عبدالقیوم جتوئی اور مظہر جتوئی کے بیٹوں کے بھی شرکت کی۔ یاد رہے یہ وہی قیوم جتوئی ہیں جو گیلانی کابینہ میں وزیرِ مملکت تھے جنہوں نے کہا تھا کہ رشوت کو بھی قانونی شکل دی جائے کہ اس ملک میں کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ سردار عبدالقیوم جتوئی چونکہ دفاعی پیداوار کے وزیر تھے اس لیے ان کے بیان کو فوج کے خلاف تصور کیا گیا۔ جس کے بعد ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ سردار عبدالقیوم جتوئی ایک عرصے سے پی پی سے لاتعلق تھے لیکن انہوں نے اپنے بیٹے کو پی پی پی کے اجلاس میں بھجوا کر قیادت کو پیغام دیا کہ وہ ابھی تک پی پی کا دَم بھرتے ہیں۔ اسی طرح پی پی کے ایک اور گم شدہ رہنما نواب لیاقت علی خان بھی کسی بھی وقت پی پی میں انٹری کر سکتے ہیں کہ موصوف کے پاس نہ جانے کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ جب وہ اسمبلی میں ہوتے ہیں تو لوگوں کے کام بھی نہیں کرتے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جب وہ الیکشن ہار جاتے ہیں تو فوراً بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔ انتخابات کے قریب آ کر کسی بھی جماعت کا ٹکٹ حاصل کر کے وہ سیاسی گیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بات ہو رہی ہے محمد حسن راں اور ان کے دونوں بیٹوں کی پی پی میں شمولیت کی۔ شنید یہ ہے کہ جب محمد حسن راں نے پی پی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو اسی حلقے میں صوبائی اسمبلی اُمیدوار اور شاہ محمود قریشی کے چھوٹے بھائی مرید حسین قریشی نے ہتھیار ڈال دیئے جس کا ثبوت یہ ہے کہ چند دن قبل حضرت شاہ رکن عالم کے سالانہ عرس کے موقع پر مرید حسین قریشی نے کئی برسوں بعد الگ سے عرس کی تقریب کا انعقاد نہیں کیا۔ ایک عرصے بعد دونوں بھائیوں نے اکٹھے ہو کر مزار کو غسل دے کر عرس کی تقریب کا آغاز کیا۔ شاہ محمود قریشی کے بھتیجوں نے بھی سب کے سامنے اپنے تایا کے قدموں کو چھونے کے بعد عرس کی مرکزی تقریب میں شرکت کی۔ اگر محمد حسن راں شاہ محمود قریشی کو چھوڑ کر گئے تو یہ سودا شاہ محمود قریشی کے لیے برا نہ ہے کہ ان کا روٹھا ہوا بھائی گھر آ گیا ہے یعنی
صبح کا بھولا ہوا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے کی مثال مرید حسین قریشی بن گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہم اس لیے لکھ رہے ہیں کہ جس اجلاس میں یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں محمد حسن راں کے دونوں بیٹوں نے شاہ محمود قریشی کو خیرباد کہا اس اجلاس میں مرید حسین قریشی شریک نہیں ہوئے۔ پی پی جنوبی پنجاب کے حلقوں میں ایک عرصے بعد بڑی سیاسی طاقت پی پی میں شامل ہوئی ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود چاہیں اور جنوبی پنجاب کے ہر حلقے میں ورکنگ کریں تو آج بھی بے شمار سیاسی خاندان ایک مرتبہ پھر پی پی میں آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ اپنے منتخب اراکین کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دے گی۔ تحریکِ انصاف نے جنوبی پنجاب میں لیڈروں کا اتنا گھڑمس اکٹھا کر لیا ہے کہ پی ٹی آئی سے بھی فصلی بٹیرے اڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایسے بٹیروں کے لیے پی پی کی چھتری خالی ہے جہاں پر فی الحال اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔
ملتان شہر میں اب مختلف جگہوں پر بلاول بھٹو زرداری کے جلسہ کے لیے پینافلیکس لگ گئے ہیں۔ کہیں کہیں پر جھنڈے بھی دکھائی دینے لگے ہیں البتہ اخبارات میں اس جلسہ کے حوالے سے خبروں اور تصاویر کا خوب زور ہے۔ پی پی نے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے ایک دن دیسی گھی کے چراغ بھی جلائے ہیں۔ کاش یہ چراغ جلانے کی بجائے کسی غریب کے گھر کا چولہا جلایا ہوتا کہ بھٹو اور بینظیر بھٹو کا یہی پیغام عام ہو جاتا۔ فی الحال میرے قارئین اُس کالم کا انتظار کریں جو ہم پی پی کے جلسے کے بعد تحریر کریں گے۔ سرِدست ہم بلاول بھٹو زرداری کو سرائیکی وسیب میں جلسہ کرنے پر کہتے ہیں:
سجن آون اکھیں ٹھرن
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)