جس گھڑی سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ بہاولپور رانا اعجاز محمود نے ہم سب کو خیر باد کہا تو اسوقت کتاب نگر پر دوستوں کے ساتھ انہی کا ذکر کر رہا تھا فیس بک پر ایک دم رانا اعجاز محمود کے لیے نوحے لکھے جانے لگے ،کہ جب سے یہ کورونا شروع ھوا ہے ہم تو اب مرثیے اور تعزیت کے لیے وقف ہو کے رہ گئے ہیں۔
جس دن رانا اعجاز محمود کی موت کی خبر آئی تو اسی شام اپنا دکھ شیئر کرنے کے لئے محمد افضل شیخ کو فون کیا تو انھوں نے دکھی دل کے ساتھ یہ افسوسناک خبر بھی بتائ کہ ھم سب کے ہر دل عزیز اور درویش طبعیت کے مالک قیوم خوگانی بھی کورونا کی وجہ سے طیب اردگان ہسپتال مظفرگڑھ میں ونٹیلیٹر پر ہیں،
ونٹیلیٹر پر؟
میں نے دوبارہ تصدیق کرنا چاہی تو انھوں نے دلگیر لہجہ میں کہا جی قیوم خوگانی ونٹیلیٹر پر ہے،
جس گھڑی میری افضل شیخ سے بات ہوئی اس وقت میں گھر جا رہا تھا قیوم خوگانی کی بیماری کا سن کر تو ایک دم سے مجھے گھر کا راستہ بھول گیا یہ بات میرے قریبی دوست جانتے ہیں کہ میں اچھا ڈرائیور نہیں ہوں بس گزارے لائق ڈرائیو کر لیتا ہوں ،اللہ تعالی میرے بیٹے ثقلین رضا کو سلامت رکھے جو مجھے ہر جگہ آسانی سے لے جاتا ہے جس سے میری ڈرائیونگ سے جان چھوٹی رہتی ہے
رانا اعجاز محمود کی بے وقت موت
قیوم خوگانی کا ونٹیلیٹر پر جانا
میرے لئے ایک دن میں دو صدمے ،
کورونا ھم سے اور کیا لینا چاھتا ہے میں اپنے آپ سے خود کلامی کرتے ہوئے گھر کا راستہ بھول جاتا ہوں
رانا اعجاز محمود اور قیوم خوگانی میرے وہ پیارے تھے جن کے ساتھ مل کر زندگی کے بے شمار دکھوں کو کم کیا، سینکڑوں قہقہے لگائے، رانا اعجاز محمود کا معاملہ میری زندگی میں بالکل مختلف تھا وہ تو یوں لگتا تھا جیسے وہ میرا کوئی بچھڑا ہوا بھائی ہے
لیکن قیوم خوگانی کا میرے ساتھ تعلق بڑا عیجب تھا جن دنوں اس کی تعیناتی دوبئی تھی تو چھوٹے بھائی باقر کو سفارت خانہ میں کام پڑا
باقر بھائی نے صرف میرا بتایا تو کھڑے ھو کر کہنے لگا باقر بھائی آپ نہیں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میڈا شاکر بھرا آگیا اے
قیوم خوگانی کی زبان سے سرائیکی سننا مجھے بہت بھلا لگتا تھا بلکہ میں نے بھی اس سے کبھی اردو میں بات نہیں کی کہ مجھے بھی اس پیارے ملتانی سے ملتانی بولنا اچھا لگتا تھا
اس دن قیوم خوگانی نے باقر بھائی کا منٹوں میں کام کر کے اس سے میرا نمبر لیا لیکن اس نے کبھی رابطہ نہ کیا کہ مجھ پر وہ احسان جتا سکے کہ میں نے آپ کے بھائی کا کام کر دیا ہے،
اس کے کچھ عرصے بعد علم ہوا کہ وہ وطن واپس آ چکا ہے تمام زندگی سرکاری نوکری کے قواعد وضوابط کے تحت اس گانے کی مثال بنا رھا
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
دوہزار سترہ کے پہلے ماہ کی ایک سرد اور گہری رات کو میرے چچا کو دل کی تکلیف ہوئی تو میں چوہدری پرویز الہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان میں ان کے ساتھ گیا کچھ ہی دیر میں ان کی طبیعت سنبھل گئی تو میں ہسپتال کے برآمدے میں کھڑا تھا تو دور سے برادرم قیوم خوگانی کو تیزی سے آتے ہوئے دیکھا تو میں نے قیوم خوگانی کا بازو پکڑ کر پوچھا خیریت تو ہے؟
پریشان حال میرا بھائی کہنے لگا
شاکر بھرا ابا جی دی طبعیت خراب تیھی گئی اے
میں نے دریافت کیا ابا جی کہاں ہیں؟
کہنے لگا گاڑی میں بیٹھے ہیں
میں نے فوری طور پر ویل چئیر ارنیج کی قیوم بھائی کے والد صاحب کی ای سی جی کرائی اتفاق سے اسی وقت کارڈیالوجی یسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر رانا الطاف احمد ایمرجنسی وارڈ کا دورہ کر ریے تھے کہ مجھے دیکھ کر رک گئے میں نے ان سے قیوم بھائی کا تعارف کرایا تو قیوم بھائی نے رانا الطاف کو بتایا کہ یہ برزگ ڈاکٹر اسامہ کے دادا بھی ہیں، کچھ دیر میں ڈاکٹر اسامہ بھی آ گیا تو ڈاکٹر رانا الطاف احمد نے ڈاکٹر اسامہ کو کہا تمھارے ہوتے ہوئے دادا جان کی طبیعت اتنی خراب کیوں ہے؟
اس سے پہلے اسامہ جواب دیتا تو قیوم بھائی نے کہا ڈاکٹر صاحب ابا دوا نہیں کھاتے
اس رات قیوم بھائی کے والد صاحب کی طبیعت خاصی خراب تھی اور علاج شروع کر دیا گیا
میں بھی کچھ دیر بعد گھر واپس آ گیا ان دنوں قیوم بھائی کی پوسٹنگ بہاولپور تھی اور ویک اینڈ پر ملتان آ جاتے تھے میں اگلے دن کسی کام سے لاھور گیا تو معلوم ہوا قیوم بھائی کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے
لاھور سے واپسی پر میں ان کے گھر واقع نقشبند کالونی ملتان گیا تو مجھے دیکھ کر آبدیدہ ھو گئے اور کہنے لگے
شاکر بھرا ابا جی چلے گئے
میں نے حوصلہ دیا تو صف ماتم پر بیٹھے تمام افراد کو بتاتے رھے کارڈیالوجی ہسپتال میں اس دن میں نے ان کے والد صاحب کے لیے کتنی محنت کی میں دل ھی دل میں شرمندہ ہوتا رہا کہ میرا شکریہ تو تب بنتا تھا اگر قیوم بھائی کے والد صاحب کی جان بچ جاتی وہ تو دنیا سے چلے گئے
اس کے کچھ عرصے بعد قیوم بھائی کا فون آتا ھے کہ شاکر بھرا میڈا ملتان تبادلۂ ٹھئی گئے ۔
میں نے مبارکباد دی تو کہنے لگے کہ اب کتاب نگر پر پہلے میں آؤں گا
پھر آپ نے آنا ہے
اگلے دن دیکھا تو قیوم بھائی کیک کے ہمراہ کتاب نگر پر موجود تھے میں نے ان کو ملتان تعیناتی پر مبارک باد دی اور وعدہ کیا کہ جلد ہی ان کے دفتر آ کر گپ شپ لگاتا ہوں۔
دن گزرتے گئے تو ایک دن کینٹ گارڈن میں واک کرتے ہوئے انھوں نے مجھے کراس کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ پورا شہر مجھے دفتر ملنے آیا ہے
اگر کوئی نہیں آیا تو شاکر بھرا نہیں آیا
میں اس وقت برادرم اسرار احمد چودھری کے ساتھ واک کر رہا تھا ھم دونوں نے اسی دن طے کیا کل ہر حالت میں قیوم بھائی کے دفتر جانا ہے
دفتر پہنچ کر ھم نے اکٹھے کافی پی زمانے کی گفتگو اور پھر اجازت چاھی
قیوم بھائی بھی ھمارے ساتھ دفتر سے گھر کے لیے روانہ ہوئے تو دیکھا کہ جناب ھیوی بائیک پر سوار ہو رہے ہیں میں نے حیرت سے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟
کہنے لگے ملتان کی سڑکوں پر تمام زندگی موٹر سائیکل پر آوارہ گردی کی ہے کیا ہوا جو میں افسر ہوگیا ہوں انسان کو اپنی اصلیت یاد رکھنی چاہیے
پھر ہم سب نے قیوم بھائی کو اکثر ھیوی بائیک پر سوار دیکھا کہ اسے ملتان میں بائیک پر پھرنا اچھا لگتا تھا
اب میری اور اسرار احمد چودھری کی ان سے کینٹ گارڈن میں واک کرتے ہوئے روز ملاقات ہونے لگی ۔واک کے بعد خورشید احمد خان اور علی رضا گردیزی کی میزبانی میں قہوہ پیتے یا پھر واک کے بعد ایم جی ایم میں چائے کی میز پر وہ دوستوں کے ساتھ اکٹھے ھوتے اس میز پر دوستوں کی تعداد بیس سے زیادہ ہوتی ۔کبھی کبھار وہ شام کے بعد بھی بیٹھے دکھائی دیتے لیکن اکثر وہ مغرب کے بعد وہ منڈلی کو خیر باد کہہ کر گھر چلے جاتے
واک کے دوران ہم ہر موضوع پر بات کرتے خاص طور پر بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا ذکر بہت احترام سے کرتے ۔
محرم الحرام کے ایام میں مجھے یوں لگتا کہ جیسے ان کی آئیڈیل شخصیت امام حسین علیہ السلام ہیں اکثر واقعہ کربلا کا ذکر کرتے ہوئے نمناک ہو جاتے
جو لوگ قیوم خوگانی کو جانتے ھیں ان کے علم میں ہے کہ وہ جیسے دکھائی دیتے تھے ویسے ہی نظر آتے تھے ان کا ایک ہی چہرہ تھا نہ منافقت نہ زندگی میں کوئی دھوکہ ۔
ملتان تعیناتی پر بہت خوش ھو ئے اکثر کہتے کہ مجھے ملتان، ملتان کے لوگوں اور ملتان کی مٹی سے عشق ہے۔اس کے علاوہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرتے جب ان کے بچوں میں ایک لاھور پڑھنے گیا تو اداس رہنے لگے اپنی شریک حیات کی بہت قدر کرتے یہ سب دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگتا کہ وہ اپنے اپنے بچوں اور اہلیہ کی قدر کر رہے ہیں ۔
ملتان میں تعیناتی کے دوران ان ہر دوسرے دن واک پر، کسی خوشی، غمی پر ملاقات رہنے لگی کہ ایک دن اداس ہو کر کہنے لگے کہ میرا لاہور تبادلۂ ہو گیا ھے میں نے تو سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ تک اس شہر میں رہوں گا لیکن لگتا ہے کہ قدرت مجھے اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع دے رہی ہے۔
سولہ مارچ 2020 کی شام قیوم بھائی کا فون آتا ھے کہ میں اپنے بھائی کے گھر چائے پی سکتا ہوں
میں نے جواب میں کہا
سجن آون اکھیں ٹھرن
تو ہنسنے لگے میں نے گھر کا پتہ بتانا چاھا تو کہنے لگے ہمیں دوستوں کے ہر ٹھکانے کی خبر ہے ۔
کچھ دیر میں وہ میرے گھر موجود تھے میں نے اسرار احمد چودھری کو کہا کہ گھر آجائیں قیوم خوگانی آئے ہیں ۔دوگھنٹے وہ موجود رہے۔
رخصت ہونے سے قبل مجھ سے وعدہ لیا کہ لاہور میں میرے گھر لازمی آئیں گے لاہور جا کرقیوم خوگانئ نے جناب افتخار عارف کی درج ذیل غزل واٹس ایپ کی
ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا
تھکے ہارے ہوئے سورج کی بھیگی روشنی میں
ہواؤں سے اُلجھتا بادباں کیسا لگے گا
جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت
بکھر جائے گی جب عمرِ رواں کیسا لگے گا
اِسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی
گرے گی جس گھڑی دیوارِ جاں کیسا لگے گا
بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر
زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا
وہ جس کے بعد ہوگی اک مسلسل بے نیازی
گھڑی بھر کا وہ سب شور و فغاں کیسا لگے گا
ابھی سے کیا بتائیں مرگِ مجنوں کی خبر پر
سلوکِ کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا
بتاؤ تو سہی اے جانِ جاں کیسا لگے گا
ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
تو مجھے غزل پڑھ کر عیجب لگا لیکن اس کو کچھ نہ کہا مارچ میں کورونا ، ہر طرف موت کا راج آہستہ آہستہ موت نے ہمارے پیاروں کو شکار کرنا شروع کردیا اور پھر ایک دن افضل شیخ کا دکھ بھرا فون، قیوم خوگانی ونٹیلیٹر پر، میں نے ان کے بھانجے ڈاکٹر مومن سے رابطہ رکھا
ایک دن خوش خبری کہ قیوم بھائی ونٹیلیٹر سے آف،میں ڈاکٹر مومن کو کہتا ہوں بیٹا ابھی کسی کو نہ بتانا کہ ماموں ونٹیلیٹر سے باھر آ گئےہیں
ڈاکٹر مومن کہتا ہے
جی انکل ہم کسی کو نہیں بتائیں گے
دو دن بعد پھر خبر آتی ہے
قیوم خوگانی کے لیے دعا کی درخواست
وہ پھر ونٹیلیٹر پر چلےگئے
میں اس بعد فیس بک پر نہیں جاتا کہ کہیں میرا گمان حقیقت نہ بن جائے
میں بلی کی طرح آنکھیں بند کر کے کتاب نگر پر موجود تھا
فون کی سکرین پر برادرم ظفر آہیر کا نام ابھرتا ھے
میں کہتا ہوں سر حکم
ظفر آہیر روتے ہوئے کہتے ہیں کہ قیوم خوگانی کا انتقال ہو گیا ہے
اس کے بعد افضل شیخ، اعجاز کریم، رضی الدین رضی، قمر رضا شہزاد، سجاد بخاری، اسرار احمد چودھری، قسور سعید مرزا، آصف کھتیران، ناصر محمود شیخ،ڈاکٹر عمر فاروق کے فونز
اور اور پھر رونے کی آوازیں
مرکزی شاھی مسجد میں ایک آواز
اگر قیوم خوگانی کا کسی کے ساتھ کوئی لین دین ھے تو ان کا بھائی موجود ہے
جنازے میں موجود سب نے دلوں میں کہا کہ ہاں ہاں
قیوم خوگانی ہمارا مقروض ہے
ان محبتوں کا
جو اس نے اپنی زندگی میں ہمیں دی
ہم وہ سب قرض واپس کرنا چاہتے ہیں
لیکن ایک شرط پر کہ
یہ قرضہ قیوم بھائی ھم سب سے خود وصول کرے قیوم بھائی کے جنازے پر اس کے قرض خواہ موجود تھے آنکھوں میں آنسوؤں کا نذرانہ لئے، لیکن تمام دوست رات گئے وہ تمام آنسو اس کی قبر کی خشک مٹی کو گیلا کر کے خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ گئے اور قرض وصول کرنے والا خود مٹی کا حصہ بن گیا
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ