حسبِ سابق ملک کے نامور صحافی، دانشور، ادیب اور میرے بزرگ مسیح ﷲ جام پوری اپنی نئی کتاب ’’کچھ بھی تو نہیں بدلا‘‘ کا تحفہ دینے کے لیے نئے سال کے ابتدائی دنوں میں جب میرے ہاں تشریف لائے تو اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اسی شام ایک تقریب میں مَیں نے کتاب کی رسید بالمشافہ دی تو کہنے لگے آپ کی آوارہ گردی تو ہم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ میرا خیال تھا کتاب دینے جاؤں گا، گپ شپ ہو گی، اکٹھے بیٹھ کر چائے پئیں گے اور پھر یہ سب نہ ہو سکا۔ مَیں نے دست بستہ عرض کی خان صاحب ہم جلد ہی اس کتاب کے حوالے سے ادبی بیٹھک میں بیٹھیں گے، چائے بھی ہو گی اور آپ سے باتیں بھی ہوں گی۔ مسیح ﷲ جام پوری سے ہماری پہلی ملاقات مرحوم روزنامہ امروز کے دفتر کی بالائی منزل پر ہوئی جہاں وہ مظہر عارف، مرزا ابن حنیف کے جلو میں ریڈیو سے خبریں سن کر انہیں کاغذ پر منتقل کر رہے ہوتے تھے۔ امروز ملتان کے دفتر میں سٹاف رپورٹرز کے کمرے میں رشید ارشد سلیمی اور ولی محمد واجد سے ملاقات بھی 1981ء میں شروع ہوئی۔ پھر اقبال ساغر صدیقی جب ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے تو میرے اور رضی کے لیے یہ اخبار گھر کا اخبار بن گیا میگزین سیکشن کی انچارج محترمہ نوشابہ نرگس تھیں۔ اقبال ساغر صدیقی ہم دونوں کو امانت علی ، خیانت علی کہنے لگے۔ ولی محمد واجد کے مَیں قریب اس لیے ہو گیا کہ حسین سحر کی وجہ سے وہ مجھے بھی اپنا بھتیجا جاننے لگے۔ ذکر ہو رہا تھا مسیح ﷲ خان جام پوری اور ان کی نئی کتاب کا۔ اس سے پہلے ان کا ایک شعری مجموعہ اور نثری مجموعہ ’’نگارخانہ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ وہ سینئر صحافی ہونے کے علاوہ جہاندیدہ تجزیہ نگار بھی ہیں۔ وہ بڑے ہی خوبصورت انداز سے حالاتِ حاضرہ پر بات کرتے ہیں اور اُن کی ہر بات میں خوبصورتی کے ساتھ دلیل بھی خوبصورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے بیک ٹائیٹل پر رضی الدین رضی نے جب درج ذیل رائے لکھی تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ ہم سب کے دل کی آواز ہے۔
’’مسیح ﷲ جام پوری کی ہر کتاب میں نئے جہان آباد ہوتے ہیں۔ وہ عمر بھر صحافت کے ساتھ منسلک رہے لیکن انہوں نے خود کو صرف خبر تک محدود نہیں رکھا۔ قلم کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے گرد و پیش کے حالات و واقعات پر نظر رکھی اور جو دیکھا اسے قرطاس پر منتقل کر دیا۔ وہ ایک سرکاری اخبار کے ساتھ منسلک تھے لیکن بات کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ سو سرکار کی نوکری بھی ان کی فکر کی پرواز نہ روک سکی۔ مسیح ﷲ خان کی نئی کتاب اپنے دامن میں بہت سی دلچسپیاں رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے وہ بہت سے سیاسی، سماجی، معاشرتی، ادبی و صحافتی مضامین، کالم اور فیچر جمع کیے ہیں جو گزشتہ 40 برس کے منظرنامے کا احاطہ کرتے ہیں۔ مسیح ﷲ جام پوری صاحب نے یہ اہتمام بھی کیا کہ ان تحریروں کے ساتھ تاریخِ اشاعت بھی درج کر دی۔ موضوعات مختلف ہیں بعض تحریریں دیکھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ آج کئی برس کے بعد آخر ان کی ضرورت کیوں پیش آئی اور آج قاری کو ان تحریروں سے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ایٹمی پروگرام، سیاسی رسہ کشی، جوڑتوڑ، صوبوں کی سیاست، کالاباغ ڈیم اور ملتان کے مسائل یہ سب کچھ ان تحریروں میں موجود ہے اور بظاہر آج کے موضوعات سے یہ تحریریں مطابقت نہیں رکھتیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ کئی برس بیت جانے کے باوجود ہمارے موضوعات اور مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھے۔ سفر جاری تو ہے مگر دائرے کی صورت میں۔ سو جب ایک چکر مکمل ہوتا ہے تو ہم پھر اسی مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آغازِ سفر ہوا تھا۔ اگر کہیں ترقی ہوئی بھی تو وہ ترقی معکوس قرار دی جا سکتی ہے۔ ان تحریروں میں جہاں بہت سی شخصیت اس عہد کے واقعات، اعداد و شمار دلچسپی کا باعث بنتے ہیں وہیں تبدیل ہوتی ہوئی صحافتی زندگی بھی ان تحریروں سے جھلکتی ہے۔ یہ کتاب ایک دستاویز ہے اور گزشتہ 40 سال کے تجربات کا نچوڑ ہے جو خان صاحب نے آنے والی نسلوں کے لیے اور ہم سب کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔‘‘ مسیح ﷲ جام پوری کی یہ کتاب اگرچہ 1970ء سے لے کر 1980ء کی دہائی کے شائع ہونے والے مضامین کے علاوہ حالاتِ حاضرہ پر لکھے گئے تجزیوں پر مشتمل ہے لیکن اُن کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ مسائل آج بھی وہی ہیں۔ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے ہر موضوع کے ساتھ انصاف کیا۔ کتاب کو انہوں نے مکاں لامکاں، بازیچہ سیاست، کوچہ صحافت، نوشتہ وسیب، سرمایہ یاد، آئینہ ادب اور پاکستان زندہ باد جیسے موضوعات کو ابواب کے ذریعے تقسیم کیا۔ ہر باب میں دس سے زیادہ مضامین ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر کوچہ صحافت، نوشتہ وسیب، سرمایہ یاد اور آئینہ ادب والے ابواب پڑھنے کے لائق ہیں جس میں ان کی یاد نگاری کا ہنر پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسیح ﷲ جامپوری جب کسی شخصیت کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں تو اس اختلاف کو بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے مضمون کا حصہ بناتے ہیں۔ کہیں پر وہ جنوبی پنجاب کا مقدمہ پیش کرتے ہیں تو کسی جگہ پر آزادی صحافت کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ اخباری کارکنوں کی حالتِ زار اُن کا پسندیدہ موضوع ہے کیونکہ وہ خود بھی ماضی میں اخباری کارکن کے طور پر ملتان میں سرگرم رہے ہیں۔ امروز کی بندش کے بعد وہ اگرچہ ملتان پریس کلب کے انتظامی امور کی نگرانی بھی کرتے رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کلمہ حق کہنے سے بھی کبھی باز نہ آئے۔ ان کی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ بی بی سی جیسا ادارہ بھی ان کے مضامین کو اپنی ویب سائیٹ پر شائع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جناب جام پوری جہاں بھی بیٹھتے ہیں وہاں ایک نیا جہان آباد کر لیتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اُن کے یہ مضامین بہت ہی خوبصورت انداز میں برادرم ظہور دھریجہ نے شائع کیے جو پڑھنے والوں کے لیے 2017ء کا ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ میری دُعا ہے ﷲ تعالیٰ اُنہیں تادیر سلامت رکھے اور وہ یونہی ملتان کی علمی ادبی اور صحافتی دنیا میں خوبصورت تحریروں کا اضافہ کرتے رہیں۔ آخر میں مَیں اپنے قارئین کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ محترم مسیح ﷲ خان جام پوری میرے ہمسایہ میں رہائش پذیر ہیں اور رات گئے جب مَیں اپنے گھر جاتا ہوں تو وہ میری گلی میں واک کر رہے ہوتے ہیں اور واک کرنے میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اکثر وہ میرے سلام کا جواب اس لیے نہیں دیتے کہ وہ اس وقت واک کو بڑی تندہی سے سرانجام دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس دوران ان کی انگلیوں میں سگریٹ بھی روشن رہتا ہے اس سے خوبصورت واک مَیں نے آج تک کسی شخص کی نہیں دیکھی
اﷲ کرے زورِ قدم اور زیادہ
(بشکریہ:روزنامہ پاکستان)