اخبار میں تصویر آئی کہ تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے حلقے میں سپورٹر کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کے مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ شاہ محمود کی موٹرسائیکل پر یہ دوسری مرتبہ تصویر آئی ہے۔ چند ماہ قبل بھی ہم نے انہیں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اسی طرح گھومتے ہوئے دیکھا تھا۔ معلوم ہوتا ہے ان کو موٹر سائیکل کی سواری نے خوب لطف دیا ہے اسی لیے تو وہ اپنی قیمتی پراڈو کو سڑک پر پارک کرتے ہیں اور خود چائنہ کی بنی ہوئی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سیر سپاٹا شروع کر دیتے ہیں۔ جب پہلی مرتبہ ان کی موٹر سائیکل پر سواری کی تصویر شائع ہوئی تو ہمارا خیال تھا کہ وہ تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور معروف گلوکار ابرار الحق کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔ جنہوں نے کئی سال پہلے سائیکل پر ایک گانا گایا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے
آ جا تو بہہ جا سائیکل تے
ان دنوں ق لیگ کا دور دورہ تھا اور ان کی جماعت کا انتخابی نشان بھی سائیکل تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابرار الحق ق لیگ کی بجائے پی ٹی آئی میں چلے گئے اور پی ٹی آئی نے ہی ق لیگ کا سائیکل پنکچر کر دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے ابرارالحق اسی سائیکل پر بیٹھ کر یہ کہہ چکے تھے ’کنے کنے جانا اے بلو دے گھر‘۔ ابرارالحق یہ گانا گاتے اپنی بلو کو بھی لے آئے لیکن درمیان میں وہ سائیکل اس انداز سے پنکچر ہوا کہ نہ اُس کی خبر ق لیگ کو ہوئی اور نہ ہی ابرارالحق کو۔ البتہ ابرارالحق کی پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی کو موٹر سائیکل مل گئی اور موٹر سائیکل بھی ایسی ملی کہ اب وہ ملتان شہر میں گاہے گاہے اسی پر دکھائی دیتے ہیں۔
فی الحال تو شاہ محمود قریشی نے موٹر سائیکل چلانے کے لیے ایک ڈرائیور رکھا ہوا ہے اور جیسے ہی وہ خود موٹر سائیکل چلانے کے قابل ہو جائیں گے اپنے اُس ڈرائیور کو واپس پراڈو کی طرف بھیج دیں گے جو حلقے میں اُس وقت لاوارث کھڑی ہوتی ہے جب شاہ محمود قریشی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر حلقے کے مسائل سن رہے ہوتے ہیں۔ اُن کو موٹر سائیکل پر بیٹھا دیکھ کر ہمارے ذہن میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اگر چونگی نمبر 14 ملتان کے قریب اُن کا ٹریفک وارڈن نے چالان کر دیا تو کیا وہ چالان سے بچنے کے لیے وارڈن کی جیب بھی گرم کریں گے۔ ویسے تو مخدوم شاہ محمود قریشی خاصے قانون پسند شہری واقع ہوئے ہیں کہ انہوں نے آج تک نہ تو سیاست میں کرپشن کی ہے اور نہ ہی کسی اور طرف اپنے معاملات خراب کیے ہیں۔ لیکن اگر ان کے برادرِ خورد مرید حسین قریشی نے اُن کی موٹر سائیکل کا پچھلا ٹائر پنکچر کر دیا تو شدید گرمی میں کیا مخدوم صاحب لبِ سڑک کھڑے ہو کر موٹر سائیکل کا پنکچر لگوانا پسند کریں گے۔ مخدوم صاحب کو اگر اپنی موٹر سائیکل کی ٹیوننگ کروانی پڑ گئی تو وہ موبل آئل کونسا استعمال کریں گے؟ رات کو موٹر سائیکل چلاتے وقت اگر بائیک کی ہیڈ لائٹ فیوز ہو گئی تو کیا وہ اسی موٹر سائیکل پر جانا پسند کریں گے؟ اس کے علاوہ جب پیٹرول پمپ پر جا کر موٹر سائیکل کی ٹینکی فل کرائیں گے تو وہ اپنی نظروں کو پیٹرول پمپ کے کاؤنٹر کی طرف مسلسل گاڑے رکھیں گے جہاں پر قیمت والا ہندسہ بڑی تیزی سے چلتا ہے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جو ہر موٹر سائیکل چلانے والے کو ہمارے ہاں درپیش ہیں لیکن مخدوم صاحب اگر آپ یہی موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ملتان کینٹ کی طرف آئیں گے تو آپ کو نہ صرف ہیلمٹ پہننا ہو گا بلکہ موٹر سائیکل پر سائیڈ مرر بھی لگوانا ہوں گے۔ جیب میں موٹر سائیکل کا ڈرائیونگ لائسنس ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ سارے لوازمات اپنی جگہ پر اصل بات یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی پراڈو سے موٹر سائیکل کا سفر کر کے اپنے مخالفین کی نیند کو حرام کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ اُن کے قریبی حریف رانا محمود الحسن (جو اس وقت ن کے لیگ کے ایم پی اے ہیں) بھاری بھرکم وجود کے مالک ہیں اس وجہ سے وہ موٹر سائیکل تو بہت دور کی بات مہران گاڑی پر اگر سفر کریں تو کم از کم اس کے دو پہیے تو پہلے ہی منٹ میں پنکچر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے شاہ محمود نے اپنے مخالفین کے دانت کھٹے کرنے کے لیے موٹر سائیکل سواری کا خوب انتخاب کیا ہے۔
مَیں چشمِ تصور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ اگر شاہ محمود قریشی کو یہ سواری پسند آ گئی تو شہر میں ہر دوسرا سیاستدان اپنے ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے موٹر سائیکل تو کیا سائیکل پر بھی بیٹھ سکتا ہے۔ شاہ محمود نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز موٹر سائیکل پر بیٹھ کے کر لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے زین قریشی کو بھی موٹر سائیکل کی سواری کرواتے ہیں یا نہیں کیونکہ آنے والے انتخابات میں زین نے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ہے۔ اور اس کے لیے اگر زین نے اپنے ووٹروں کو متاثر کرنا ہے تو موٹر سائیکل پر انتخابی مہم چلانا ہو گی۔ اگر زین قریشی اچھی موٹر سائیکل کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے وہ برادرم سیّد عمران گردیزی کی موٹر سائیکل کا انتخاب کر سکتے ہیں جو ہر وقت رواں دواں رہتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کے موٹر سائیکل پر بیٹھنے سے سب سے زیادہ پریشانی ہمارے مخدوم جاوید ہاشمی کو ہوئی ہو گی کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے موٹر سائیکل تو ڈرائیو نہیں کر سکتے البتہ وہ پیچھے بیٹھ کر ملتان شہر کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر جاوید صدیقی اپنی موٹر سائیکل کے پیچھے یوسف رضا گیلانی کو بٹھا کر اندرون شہر کی گلیوں کی سیر کروا سکتے ہیں۔ جبکہ رکن صوبائی اسمبلی حاجی احسان الدین قریشی تو اب بھی موٹر سائیکل کی سواری کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ مسئلہ رکن صوبائی اسمبلی ظہیر الدین علیزئی کو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے شاید کبھی موٹر سائیکل کی سواری نہ کی ہو۔ اور یہ نہ ہو کہ وہ پہلے دن ہی موٹر سائیکل پر بیٹھیں اور چالان کروا بیٹھیں۔ باقی رہ گئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی جاوید انصاری تو مجھے لگتا ہے کہ شاہ محمود قریشی جاوید انصاری کے کسی عزیز کے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سواری کر رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ کسی دن دونوں رہنما یعنی شاہ محمود قریشی اور جاوید انصاری ایک ہی موٹر سائیکل پر جا رہے ہوں۔ محرم کے ایام ہوں، ڈبل سواری پر پابندی ہو، پولیس والے انجانے میں دونوں کو اندر کر کے موٹر سائیکل بند کر دیں تو کتنا لطف آئے۔ خاص طور پر ان دونوں اراکینِ اسمبلی کا سیاسی پروفائل اور ہائی ہو جائے گا کہ سیاست میں آنے کے بعد ان دونوں سیاست دانوں نے نہ تو جیل کا مزہ چکھا اور نہ ہی کبھی پولیس سے مار کھائی۔ دیکھیں ایک موٹر سائیکل کی برکت سے کتنی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ ویسے بھی تحریکِ انصاف تو کہتی ہے کہ وہ تبدیلی کے لیے کام کر رہی ہے تو عمران خان صاحب آپ کو مبارک ہو تبدیلی کا عمل ملتان سے شاہ محمود قریشی نے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر شروع کر دیا ہے۔ اور واقفانِ حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہ محمود نے لوہے کی ایک پلیٹ پر جلنے والے کا منہ کالا بھی لکھوا کر موٹر سائیکل پر لگوانے کا سوچ لیا ہے تاکہ مخالفین اُن کی موٹر سائیکل سواری پر اعتراض نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ اُس تاریخی موٹر سائیکل کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے کالا کپڑا بھی باندھ دیا گیا ہے اور موٹر سائیکل کے ہارن کی جگہ پر ٹرک کا ہارن لگوانے کا سوچا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اُسی موٹر سائیکل پہ ایک ساؤنڈ سسٹم بھی رکھا جائے گا جس پر صرف عطاءاﷲ عیسیٰ خیلوی کا یہی گیت پلے ہوا کرے گا
جب آئے گا عمران خان بنے گا نیا پاکستان
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ