کیا کوئی شخص کسی شاعر کے بارے میں یہ گمان کر سکتا ہے کہ وہ اپنی حویلی میں دوستوں کو بلائے اور پتوں کا کھیل کھیلے۔ روزانہ اُن کی مہمانداری کرے اور اس کے بعد وہ ہارے یا جیتے خوشی خوشی اپنے مہمانوں کو رخصت کرے۔ جی! یہ شاعر قتیل شفائی تھا۔ جو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کے اردگرد دوستوں کا ہجوم ہے۔ روزانہ دوست آتے، تاش پتے کھیلتے کھانا کھاتے اور چلے جاتے۔ پھر ایک دن یہ ہوا کہ وہ بچہ یتیم ہو گیا اور گھر کے حالات تبدیل ہو گئے۔ قتیل کے ذہن میں اپنے والد کا نقشہ موجود تھا۔ کبھی کبھی اپنے دوستوں کو گھر لاتا، اُن کی خدمت کرتا اور پھر ان کو رخصت کرتا۔ قتیل نے بچپن میں اپنے سکول کی لائبریری سے کتابیں لا کر گھر میں پڑھنا شروع کیں تو اس نے شاعری کی کتابوں کو پڑھتے پڑھتے شاعری شروع کر دی۔ ہری پور ہزارہ سے قتیل لاہور آئے اور یہاں آ کر اس نے پڑھنا شروع کر دیا۔ خوش لباسی اور خوش خوراکی اسے وراثت میں ملی تھی۔ اس نے آغاز ہی میں غزلوں کے علاوہ گیت لکھنے شروع کر دیئے اور پھر انہی گیتوں نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
جب شہرت گھر کی باندی ہو تو چاہنے والے اسے گھر میں کب رہنے دیتے ہیں۔ ایک طرف قتیل شفائی کی شاعری دوسری طرف اس کی شہرت بس ہر جگہ پر اس سے محبت کرنے والے موجود ہوتے۔ ملتان کے ساتھ قتیل شفائی کی محبت کے کئی پہلو ہیں۔ ملتان میں اُن کے دوستوں میں حبیب الرحمن پاسلوی، ریاض انور ایڈووکیٹ، اﷲ وسایا ٹیکسٹائل مل کے ڈائریکٹر مقبول احمد شیخ کے ساتھ اُن کی بہت محبت تھی۔ اس کے علاوہ وہ ملتان کی نامور گلوکارہ اقبال بانو کی محبت میں بھی آیا کرتے تھے۔ حبیب الرحمن پاسلوی کا کارخانہ خونی برج میں ہوا کرتا تھا جہاں پر ولی خان، شیر باز خان مزاری، حبیب جالب، قسور گردیزی اور ایسے ہی بے شمار سیاست دانوں کا ہجوم رہتا تھا۔ ریاض انور ایڈووکیٹ کی بنیادی شہرت قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان پر منعقد ہونے والا میلہ ’جشنِ فرید‘ ٹھہرا جس میں بنگلہ دیش سے کوی جسیم الدین، پٹھانے خان، ثریا ملتانیکر اور پورے ملک کے نامور شعراء کرام شرکت کرتے تھے۔ اﷲ وسایا ٹیکسٹائل مل کے ڈائریکٹر مقبول احمد شیخ کے ساتھ ان کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ جس وجہ سے وہ باقاعدگی سے ملتان آتے جاتے تھے۔
ملتان کے ساتھ اُن کا ایک تعلق نامور گلوکارہ اقبال بانو کے ساتھ بھی رہا۔ جس کے ساتھ قتیل شفائی شادی کرنا چاہتے تھے۔ شادی کرنے کا خیال اُن کو تب آیا جب قتیل شفائی نے اقبال بانو کی آواز میں سیف الدین سیف کا لکھا ہوا یہ گیت سنا:
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
اس گیت کے سننے کے بعد قتیل شفائی اقبال بانو کے عاشق ہو گئے۔ اب قتیل شفائی نے اپنی شاعری کا رُخ اقبال بانو کی آواز کی طرف کر دیا اور یہ سوچ کر شاعری شروع کی کہ میری یہ شاعری اقبال بانو گائے گی۔ اسی زمانے میں قتیل شفائی اپنے غیر ادبی دوستوں سے ملنے باقاعدگی سے ملتان آنے لگے۔ اور ان کے آنے کا اصل مقصد چوک شہیداں کے پچھواڑے بنا ہوا وہ گھر تھا جس کے اردگرد فضول سرکنڈے اور جھاڑیاں گزرنے والوں کو دکھائی دیتی تھیں۔ قتیل کو وہ جھاڑیاں اور سرکنڈے خوشبودار پودوں سے کم نہ لگتے تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال بانو ملتان کے بازارِ حسن نشاط روڈ حرم گیٹ میں گایا کرتی تھیں۔ لاہور میں کبھی کبھار گانے کی محفل ہوتی تھی جبکہ ملتان میں روزانہ ہی اُن کی نشست لگتی تھی۔ آواز کے عشق کی خاطر قتیل شفائی اپنے ایک دوست شہزاد احمد کے ساتھ ملتان آئے اور آ کر اقبال بانو سے ملاقات کی۔ قتیل اور شہزاد نے اقبال بانو کو لاہور گانے کی دعوت دی۔ تو وہ لاہور آنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ قتیل شفائی کے لیے یہ بڑی کامیابی تھی۔ اس کے بعد وہ لاہور آئیں، گانا گایا اور واپس چلی گئیں۔ ملتان پہنچنے کے بعد اقبال بانو نے قتیل کو خط لکھا جس میں انہوں نے یہ لائن لکھ کر قتیل کو پریشان کر دیا کہ ”اگر آپ ملتان کے آس پاس سے گزریں تو مجھ سے ملے بغیر نہ جائیں ورنہ شکایت ہو گی۔ آپ کی اقبال بانو“
کچھ عرصے بعد فلم ڈائریکٹر سبطین فضلی نے ”آنکھ کا نشہ“ بنانے کا اعلان کیا تو قتیل شفائی نے اس کے گیت لکھے جس میں اقبال بانو نے یہ گیت گایا:
دل توڑنے والے دیکھ کے چل
ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
اس فلم کے گیتوں کی ریکارڈنگ کے دوران اقبال بانو نے قتیل سے کہا آپ مجھے خود گھر سے لے جایا کیجئے۔ قتیل کو اور کیا چاہیے تھا۔ وہ اس حکم کے بعد اقبال بانو کے اور قریب ہو گئے۔ ایک مرتبہ اقبال بانو نے سٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے قتیل شفائی سے کہا کہ مجھے آپ کی ذات سے ایک ایسی دلچسپی ہے جس میں سبھی کچھ شامل ہے خصوصاً آپ کی شاعری، آپ کا حسن اخلاق اور آپ کا اندازِ گفتگو ایسا ہے جو مجھے سکون دیتا ہے۔ اس لیے آپ شام کو روزانہ مہربانی کر کے چائے پینے میرے پاس ایک بار ضرور آیا کریں۔ اور اس کے بعد قتیل شفائی نے روزانہ کا معمول بنا لیا۔
اقبال بانو کی قربت نے قتیل شفائی کی شاعری کو ”مطربہ“ کے نام سے ایک مجموعہ دیا۔ اس پوری کتاب میں اُن دونوں کی محبت کی داستانیں شاعری کی صورت میں رقم ہیں۔ اس دور میں قتیل نے جتنی بھی فلمی شاعری کی اُس کو اقبال بانو ہی گایا کرتی تھی۔ ایک طرف قتیل کی شاعری دوسری طرف اقبال بانو کی آواز، اس شہرت نے اقبال بانو کی محافل کا ریٹ بڑھا دیا اور اس کی مصروفیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس دوران اقبال بانو سے قتیل شفائی کی شادی کی افواہیں بھی پھیلیں لیکن ان میں صداقت کوئی نہ تھی۔ دوسری طرف قتیل شفائی ہر وقت اقبال بانو کے عشق میں گرفتار رہتے۔ ایسے میں ایک دن اقبال بانو کا ایک خط قتیل شفائی کو ملا کہ میرے گھر میں چوری ہو گئی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قتیل شفائی کے سسر کی طبیعت بہت خراب تھی۔ قتیل شفائی اپنے سسر کی عیادت کی بجائے ملتان چلے آئے۔ اور آ کر انہوں نے صدر سکندر مرزا کے مرکزی وزیر برائے داخلہ امور جلال بابا کا ایک رقعہ ملتان کے اعلیٰ پولیس افسر کو دیا جس کے بعد اقبال بانو کے دل میں قتیل کی محبت اور بڑھ گئی۔
قتیل اور اقبال بانو کی محبت دیکھتے ہوئے ڈائریکٹر سید سبطین فضلی نے کہا آپ دونوں شادی کر لیں۔ قتیل شفائی اور اقبال بانو تیار ہو گئے۔ فضلی صاحب کے گھر میں دس بارہ آدمیوں کے لیے کھانے کا اہتمام ہوا۔ نکاح خواں بلا لیا گیا۔ اقبال بانو کی اس دن ریڈیو میں ریکارڈنگ تھی۔ وہ سرخ جوڑا پہنے سٹوڈیو میں گیت ریکارڈ کروانے کے بعد اپنے ہونے والے دلہا قتیل شفائی کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹوڈیو سے سبطین فضلی کے گھر پہنچے۔ نکاح سے قبل فضلی صاحب نے کہا آپ دونوں معاملات طے کر لیں جس پر اقبال بانو نے فوراً سبطین فضلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میری کوئی پیشگی شرط نہیں ہے بس آپ قتیل شفائی سے ایک بات منوا لیں کہ یہ شادی کے دو سال بعد تک مجھے گانے کی اجازت دیں گے۔ جس پر قتیل نے کہا آپ کو گانے سے کس نے روکا ہے مَیں تو خود آپ کی اس گائیکی کی وجہ سے آپ کے قریب آیا ہوں۔ جس پر اقبال بانو کہنے لگیں مَیں اس گائیکی کی بات نہیں کر رہی مَیں تو اُن تقریبات کی بات کر رہی ہوں جہاں کی مَیں ایڈوانس بکنگ کر چکی ہوں۔ اس لیے آئندہ دو سال تک مجھے اس سے نہ روکا جائے۔ یہ سنتے ہی قتیل نے کہا سیدھی بات ہے شادی کے بعد کوئی تو تبدیلی ہونی چاہیے۔ مَیں یہ نہیں چاہتا کہ جب آپ لوگوں کے گھروں میں مجرے کریں اور لوگ مجھے یہ کہیں کہ قتیل شفائی کی بیگم مجرے کر رہی ہے۔ میری عزت کہاں ہوگی؟ جس پر اقبال بانو نے کہا قتیل صاحب میرے خاندان اور میرے بچوں کا کیا بنے گا۔ مجھے آپ کی یہ شرط منظور نہیں اور یہ سنتے ہی قتیل شفائی سبطین فضلی کے گھر سے اُٹھ آئے۔
قتیل شفائی کے اقبال بانو کے بعد بے شمار عورتوں کے ساتھ تعلقات رہے اور پھر 1991ء میں خانہ فرہنگ ایران ملتان میں ایک محفل مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت قیصر بارہوی نے کی۔ مہمانِ خصوصی قتیل شفائی تھے۔ لاہور سے حسن رضوی سمیت اور بھی بہت سے شاعر شامل ہوئے۔ خوش قسمتی سے لاہور سے آئے ہوئے مہمانوں کی میزبانی کے لیے خانہ فرہنگ ایران ملتان نے مجھے نامزد کیا۔ قیصر بارہوی، قتیل شفائی اور حسن رضوی سے طویل نشستیں رہیں۔ قتیل شفائی سے باتوں باتوں میں اُن کے پرانے دوستوں کا ذکر چھِڑ گیا۔ وہ حبیب الرحمن پاسلوی اور ریاض انور کو یاد کر کے اُداس ہوتے رہے۔ مَیں نے اُن سے کہا مقبول احمد شیخ حیات ہیں اُن سے ملاقات کر لیتے ہیں۔ بھرپور کوشش کے باوجود ہمارا مقبول صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا اور اسی اثنا میں ان کی واپسی کا وقت ہو گیا۔ رخصت ہوتے وقت مجھ سے کہنے لگے شاکر صاحب آئندہ جب کبھی مَیں ملتان آؤں گا تو مَیں آپ کے ساتھ محترمہ ثریا ملتانیکر، مقبول احمد شیخ اور نشاط روڈ کے آگے سرکنڈوں والے گھر کی ضرور زیارت کرنا چاہوں گا جہاں مَیں نے زندگی کے سب سے خوبصورت دن گزارے۔ افسوس اس کے بعد وہ ملتان نہ آ سکے۔ البتہ ان سے پاکستان ٹیلیویژن لاہور میں منعقدہ مختلف مشاعروں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اور پھر ایک دن اُن کے انتقال کی خبر آ گئی۔ قتیل شفائی کے انتقال کے کئی سالوں بعد مَیں لاہور ایئرپورٹ میں تعینات کسٹم کے سپرنٹنڈنٹ اپنے قریبی دوست نعیم طارق کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو وہاں پر قتیل شفائی کا بیٹا نوید قتیل آیا۔ نعیم طارق نے ملتان کے حوالے سے میرا تعارف کروایا، نوید میرے پاس بیٹھ گیا، اپنے والد کے ملتان کے دوستوں کا تذکرہ کرنے لگا اور اس تذکرے میں اقبال بانو کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
فیس بک کمینٹ