تقریباً دو ماہ پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کا فون آیا کہ اکادمی ملک کے مختلف علاقوں میں قومی کانفرنسوں کا انعقاد کر رہی ہے آپ مظفرآباد، آزاد کشمیر جانا چاہیں گے یا ہمارے ساتھ لنڈی کوتل، فاٹا کی سیر کریں گے۔ یہ سنتے ہی مَیں نے کہا مَیں لنڈی کوتل، فاٹا جانا چاہوں گا کیونکہ سننے میں آیا ہے گزشتہ کئی برسوں سے یہ شورش زدہ علاقہ اب امن کی راہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے میرا نام لنڈی کوتل جانے والوں کی فہرست میں لکھا۔ فون بند کر دیا۔ کچھ عرصے بعد اُردو کے نامور اور خوبصورت لب و لہجے کے شاعر حسن عباس رضا کا فون آیا، انہوں نے بتایا کہ 29-30 اپریل 2017ء کو قومی ہم آہنگی میں ادب کا کردار کے موضوع پر کانفرنس میں آپ نے اظہارِ خیال کرنا ہے۔ مَیں نے حسن عباس رضا سے کہا جناب لنڈی کوتل جانے کے لیے مَیں نے ایک ہفتے کے لیے اپنا بیمہ بھی کروا لیا جس پر وہ ہنس کر کہنے لگا بیمہ کرانے والوں میں آپ اکیلے نہیں ہم بھی شامل ہیں۔ 22 اپریل 2017ء کو اسلام آباد میں کتاب میلے میں شرکت کے لیے گیا تو تب بھی حسن عباس رضا نے لنڈی کوتل کانفرنس کی یاد کروائی۔ مَیں نے اُن سے پھر وعدہ کر لیا کہ بیمہ کروا لیا ہے اور لنڈی کوتل بھی جانا ہے۔
28 اپریل کی شام جب مَیں اسلام آباد پہنچا تو ہر طرف عمران خان کے جلسے کا شور تھا۔ جگہ جگہ پر چھوٹے چھوٹے جلوس نکلے ہوئے تھے۔ میرے ہمرکاب پروفیسر شمیم عارف قریشی اور عبدالباسط بھٹی یہ سب مناظر دیکھ کر پیپلز پارٹی کے اُس دور کو یاد کرتے رہے جب جیالے جھنڈے لے کر جلسوں میں اسی جوش و خروش سے شرکت کیا کرتے تھے جس طرح آج کل PTI کے نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ تب پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کا اخلاق بہت بہتر ہوتا تھا جس سے تحریکِ انصاف کے نوجوانوں کا دور دور تک تعلق نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے جلسوں میں تقاریر کے ذریعے جس طرح کی اُن نوجوانوں کی تربیت کی ہے انہوں نے ایسا ہی بن جانا تھا۔ کاش بطور اپوزیشن لیڈر عمران خان نوابزادہ نصراﷲ خان کی تقاریر کو سامنے رکھتے جنہوں نے کبھی بھی اپنے مخالفین کو تم کہہ کر نہیں پکارا تھا جبکہ اُن کی پوری زندگی بطور اپوزیشن لیڈر ہی گزری۔ محمود مہے نے جب ہمیں اکادمی ادبیات پاکستان کے دفتر ڈراپ کیا تو اس وقت ہلکی ہلکی بارش سے اسلام آباد کا موسم خوشگوار ہو چکا تھا۔ مَیں برادرم مہزاد سحر کے ساتھ اسلام آباد کی سیر کو نکل گیا۔ اور خاص طور پر اس علاقے کا دورہ کیا جہاں پر عمران خان ایک بڑے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اگلے دن جب ہم تیار ہو کر حسن عباس رضا کی ہدایت کے مطابق اپنا سامان لے کر بس میں بیٹھے تو معلوم ہوا لنڈی کوتل فاٹا میں ہونے والی کانفرنس سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پشاور کی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں منتقل کر دی گئی ہے۔ بس میں ہمارے ساتھ محترمہ کشور ناہید، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، اصغر ندیم سیّد، محمد حمید شاہد، امر سندھو، جامی چانڈیو، پروفیسر اسلم تاثیر، شمیم عارف قریشی اور عبدالباسط بھٹی موجود تھے۔ حسن عباس رضا نے سواریوں کی گنتی کرنے کے بعد اعلان کیا یہ بس اب پشاور جائے گی۔ مَیں نے جب یہ سنا کہ جو کانفرنس لنڈی کوتل فاٹا میں ہونا تھی وہ اب پشاور میں ہونے جا رہی ہے تو مَیں خاموش ہو گیا۔
مَیں خاموش اس لیے ہو گیا کہ اگر مجھے ملتان میں ہی بتا دیا جاتا کہ لنڈی کوتل میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کانفرنس پشاور میں ہو گی تو مَیں کبھی بھی پشاور جانے کی حامی نہ بھرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب تحریکِ طالبان کے ترجمان احسان ﷲ احسان نے جس انداز سے گرفتاری دی اور اس کا جو بیان میڈیا پر سامنے آیا اس کے بعد مجھے یوں لگا جیسے پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بچوں اور اساتذہ کے قاتل طالبان نہیں ہم سب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجھے حسن عباس رضا نے پشاور جانے کا بتایا تو مَیں چاہنے کے باوجود اُن کو یہ نہیں کہہ سکا کہ مَیں پشاور نہیں جانا چاہتا کیونکہ احسان ﷲ احسان کے بیانات کے بعد میرا ذاتی خیال ہے کہ اُن شہداء کی ارواح مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گی کہ ہماری شہادتوں پر نوحے لکھنے والو اب کس منہ سے پشاور آئے ہو؟ کیا اب بھی 16 دسمبر کو ہر سال ہماری برسی منایا کرو گے؟ ہماری قبروں پر جو ہمارے لواحقین نے خوش رنگ پھولوں کے پودے لگائے ہیں اُن کی آبیاری کیا کرو گے؟ مَیں پشاور اس لیے بھی نہیں جانا چاہتا تھا کہ پشاور کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے زیرِ استعمال کھلونے بھی تو مجھے دکھائی دیں گے۔ وہ کھلونے بھی تو مجھ سے سوال کریں گے کہ مجھ سے کھیلنے والوں کو مجھ سے کیوں جدا کیا گیا؟ سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابیں بھی مجھ سے سوال کریں گی کہ میرے طالب علموں کو کس قصور میں مارا گیا؟ پانی والی بوتلیں، لنچ باکس، شوز، ساکس، ٹیبلٹس اور پشاور شہر کے وہ ہوٹل جہاں پر وہ بچے کھانا کھایا کرتے تھے وہ سب چیزیں بھی تو مجھے وہاں پر دکھائی دیں گی۔ مَیں پشاور جا کر شہداء کے لواحقین کا کس طرح سامنا کروں گا۔ کہ ہم اپنے بچوں کے قاتلوں کو کس طرح عزت دیتے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا تو مَیں پاکستان کے ایک خوبصورت شہر کی سیر تو کر لیتا۔ مَیں اس شہر میں پشاور ڈویژن کے ڈی۔ایس ریلوے محمد حنیف گل کے ساتھ بہت سا وقت گزارنا چاہتا تھا۔ مَیں یادگار چوک پر جا کر فاتحہ پڑھنا چاہتا تھا جو مختلف اوقات میں اس چوک پر دھماکوں میں لوگ شہید ہو گئے تھے۔ مَیں پشاور کے مشہورِ زمانہ بازار قصہ خوانی بازار میں اپنے لیے، اپنے اہلِ خانہ اور دوستوں کے لیے شہر کی سوغات لینا چاہتا تھا لیکن مَیں تو اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں قید ہو کر رہ گیا۔ اس یونیورسٹی میں مجھے بے شمار طلبا و طالبات ملے جنہوں نے بتایا کہ وہ ایکسپریس پشاور میں میرا کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ مَیں اُن تمام بچوں سے بڑی محبت سے ملا لیکن ان سے مکالمہ نہ کیا کہ مجھے ان بچوں کے پس منظر میں بھی آرمی پبلک سکول پشاور کے شہید ہونے والے بچے یاد آتے رہے۔ مَیں کس طرح اُس پشاور میں چلا جاتا جہاں پر چند سال پہلے 16 دسمبر کو طالبان کی وجہ سے کفن کا کپڑا نایاب ہو گیا تھا۔ راتوں رات تابوت بنانے کے لیے درجنوں کارپینٹرز کو کئی گھنٹے مسلسل کام کرنا پڑا۔ مَیں کس طرح پشاور کے مختلف بازاروں میں سیر اور خریداری کے بہانے گھومتا کہ پشاور کی ان سڑکوں پر وہ بچے اور ان کے اساتذہ کبھی اپنے لیے خریداری کیا کرتے تھے۔ مَیں ملتان سے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام ہونے والی دو روزہ قومی کانفرنس میں شرکت کے لیے لنڈی کوتل جانا چاہتا تھا لیکن مجھے پشاور جانا پڑ گیا۔
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں جب مجھے خطاب کے لیے کہا گیا تو مَیں نے کشور ناہید، اصغر ندیم سیّد، ڈاکٹر رؤف پاریکھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’آج کی اس نشست میں مَیں اپنا مضمون منتظمین کے حوالے کر رہا ہوں۔ مَیں یہاں اب ایک ہی بات کہنے جا رہا ہوں کہ مجھے پشاور نہیں آنا تھا کیونکہ چند دن پہلے ہی تحریکِ طالبان کے ترجمان کو جس طریقے سے ہم نے پذیرائی دی ہے مجھے اس شہر کے شہداء سے شرمندہ نہیں ہونا۔ اور مَیں اپنی بات یہ کہہ کر تمام کرتا ہوں کہ آرمی پبلک سکول کے شہید بچو ہم احسان فراموش ہیں ہمیں معاف کر دینا کہ ہم تمہیں زندگی نہ دے سکے لیکن تم سے زندگی لینے والوں کو ہم نے محفوظ راہ فراہم کر دی ہے۔‘‘ مَیں یہ بات کہہ رہا تھا اور اس دوران میرے جملے بے ربط ہونے لگے۔ آنکھوں میں آنسو آنے لگے، ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور مَیں اسی وقت ہال سے باہر نکلا، اپنے کمرے کی طرف آیا، بیگ اٹھایا اور پشاور سے کانفرنس ختم ہونے سے پہلے ملتان کی طرف روانہ ہو گیا کہ مَیں پشاور نہیں آنا چاہتا تھا کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچے بار بار مجھ سے سوال کرتے اور میرے پاس اُن کے سوالات کا کوئی جواب نہ تھا۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)