صاحبو رمضان آ گیا اور خوب گرما گرم رمضان۔ واپڈا کی مہربانی سے اس مرتبہ رمضان کچھ زیادہ ہی ”مبارک“ ہے۔ سحری سے لے کر افطاری تک روزے داروں کا جس طرح امتحان لیا جا رہا ہے اس طرح کی مثالیں ماضی میں کم ہی ملتی ہیں۔ دور کیوں جائیں ہمارے اپنے گھر میں سحری کے بعد پہلی لوڈ شیڈنگ ساڑھے چار بجے سے لے کر ساڑھے پانچ بجے تک ہوتی ہے۔ یعنی جیسے ہی آنکھ لگی اور واپڈا کی مہربانی سے پھر کھل جاتی ہے۔ کتنا بھلا زمانہ ہوتا تھا جب ہم گھر کی چھت پر سوتے تھے۔ رمضان المبارک میں سحری کے وقت کے لئے کوئی الارم نہیں لگاتا تھا۔ مساجد سے اتنے تواتر سے اعلانات ہوتے تھے کہ آنکھ خودبخود کھل جاتی تھی۔ روزے دارو، اﷲ نبی کے پیارو، اٹھو سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ کسی مسجد سے اس اعلان میں ”جنت کے حقدارو“ کا اضافہ بھی ہوتا تھا۔ جیسے جیسے سحری کا وقت تمام ہونے کو آتا تو مساجد سے اعلانات میں تیزی آ جاتی۔ روزے دارو، اﷲ نبی کے پیاروسحری ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی ہیں جلدی جلدی پانی پی لو۔ ایسے میں آخری اعلان تو کئی مرتبہ ہم پر بم بن کر گرتا کہ روزے دارو جنت کے حقدارو کھانا پینا بند کر دو اور پھر چراغوں میں نہ پانی رہتا نہ کھانا۔
کتنا بھلا دور تھا گلی محلوں میں سحری کے موقع پر ٹولیوں کی صورت میں نوجوان آتے، کسی کے ہاتھ میں گھی کا خالی کنستر ہوتا تو کوئی اپنے ہاتھوں میں گھی کا خالی ڈبہ پکڑے بجا رہا ہوتا۔ آہستہ آہستہ ایسی ٹولیوں کے پاس ڈھولک اور ہارمونیم آ گئے۔ ہم بھی سحری کے وقت گلی محلوں میں ایسی ٹولیوں سے نعتیں سننے کا انتظار کرتے۔ رات گئے یعنی سحری کے وقت جب ہر جانب ایک سکوت کی کیفیت ہوتی تھی تو ان ٹولیوں کی آوازیں دور سے ہی آنا شروع ہو جاتیں۔ پھر ہر گھر سے سحری پر جگانے والوں کے لیے کچھ نہ کچھ بھجوایا جاتا جو اس بات کی علامت ہوتا کہ اہلِ محلہ انہی ٹولیوں کی آوازوں پر بیدار ہوئے ہیں۔ یہ ٹولیاں کہیں معروف نعتیں اور قوالیاں پڑھتیں تو کچھ گروپ خصوصی طور پر رمضان کے حوالے سے شعراءکرام سے کلام لکھواتے۔ ماضی قریب میں سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لیے سائرن بھی سنوائے جاتے۔ ملتان میں آج بھی کہیں نہ کہیں سحری اور افطاری کے وقت سائرن سنوائے جاتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر سائرن کا رواج بھی ختم ہو چلا ہے کہ شہر پھیل گیا ہے ویسے بھی جنگی حالات معدوم ہو گئے اس لیے شہروں میں سائرن کی آواز شاذ و نادر سننے کو ملتی ہے۔
بات ہو رہی ہے سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کی تو ایک زمانے میں ریڈیو پاکستان کی سحری و افطاری کی نشریات بھی بڑے شوق سے لوگ سنا کرتے تھے۔ اب تو یہ تمام چیزیں متروک ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹی وی چینل کے ہجوم نے ریڈیو کی نشریات کو غیر مقبول کر دیا ہے۔ البتہ ایف۔ایم ریڈیو اب بھی کسی حد تک اپنے سامعین برقرار رکھے ہوا ہے۔ ٹی وی چینل میں سحری اور افطاری کی نشریات میں جس طرح کی خرافات دیکھنے کو ملتی ہیں اس سے بہتر تو یہ ہے کہ بندہ اذان سن کر روزہ رکھے اور اذان سن کر روزہ افطار کرے۔
ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ملتان کی گلیوں میں رمضان شریف کا آغاز ہوتے ہی مساجد میں سحری کے وقت اسد ملتانی کی یہ نعت پڑھی جاتی تھی:
ایں وقت فرشتے لہندے ہَن
تحفے رحمت دے گھِن آندے ہَن
سہرے پاک نبی دے گاندے ہَن
گھر گھر جلوہ طور دا ہے
اے ویلھا نور حضور دا ہے
ملتان میں رمضان المبارک کے دوران مولود شریف پڑھنے کا رواج ہوا کرتا تھا۔ اب تو یہ چیزیں تمام ہوئیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ سحری کے وقت گھر میں دہی نہیں تھی تو والدہ محترمہ نے مجھے دہی لانے کے لیے بھیجا کہ باقی سب روزہ رکھنے میں مصروف تھے۔ مَیں ملتان کے علاقہ خونی برج چوک گیا جاتے ہوئے گلیوں میں اِکا دُکا لوگ ملے۔ لیکن مجموعی طور پر ویرانی تھی البتہ مساجد سے سحری کے وقت ختم ہونے کا اعلان مسلسل ہو رہا تھا۔ مَیں جب دودھ دہی والی دکان پر پہنچا تو اُس کے پاس دہی ختم ہونے والا تھا۔ یعنی سحری کے وقت لوگ دودھ دہی لے جا چکے تھے۔ مَیں گزرے ہوئے کل کا جب آج کے زمانے سے موازنہ کرتا ہوں تو ماضی کے مقابلے میں انقلاب آ چکا ہے۔ ہم آج سے تیس برس قبل سرِشام سو جاتے تھے۔ سحری کے وقت فوراً اٹھ جاتے خواہ روزہ رکھنا ہوتا یا نہ رکھنا ہوتا۔ صبح کی نماز کے بعد ہم محلہ میں کرکٹ لازمی کھیلتے۔ جیسے ہی دھوپ نکل آتی ہم گھروں میں واپس لوٹ آتے۔ جس دن روزہ رکھتے تو تمام دن امی جان سے پوچھتے کہ افطاری میں کیا بنا رہی ہیں۔
خاندان میں اگر کوئی بچہ یا بچی پہلا روزہ رکھتا تو اس کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ بچے کی پسند کے پکوان بنائے جاتے۔ نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے۔ خاندان کے بڑے نئے روزہ دار کو سلامی دیتے وغیرہ وغیرہ۔ آج کے زمانے میں پہلے تو کوئی بچہ روزہ رکھتا نہیں۔ اگر وہ روزہ رکھ لے تو اس کی لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال کی تصاویر فیس بک پر لوڈ کی جاتی ہیں۔ ہزاروں لوگ لائیک کرتے ہیں۔ درجنوں اس پر کمنٹس کر کے خوش ہوتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے بچے نے تو روزہ ہی نہیں رکھا۔ بہرحال یہ سب کچھ رمضان کا حصہ ہے لیکن ماضی کے رمضان اور آج کے رمضان میں بڑا فرق ہے۔ ماضی میں صرف رمضان المبارک ہوتا تھا لیکن اب رمضان المبارک ختم ہو گیا۔ اب رمضان کے اتنے نام ہیں خود رمضان یعنی ماہِ صیام پریشان ہے کہ مجھ پر پاکستان والے اتنے مہربان کیوں ہیں؟
رمضان شروع ہونے سے قبل چاند دیکھنے کا ماضی میں خوب اہتمام کیا جاتا تھا۔ ملتان کے لوہاری گیٹ کی چڑھائی پر 29 شعبان کو سینکڑوں افراد سرِ شام جمع ہو جاتے۔ سب کی نظریں آسمان پر ہوتیں۔ 29ویں کا چاند ویسے بھی چند لمحوں کے لیے دکھائی دیتا ہے تو وہ منظر دیکھنے والا ہوتا تھا کہ چاند کو دیکھنے کے لیے پورے شہر سے لوگ ایک ہی جگہ پر جمع ہوتے۔ اگر کسی کو چاند دکھائی دیتا تو وہ مبارک باد کا نعرہ بلند کر دیتا۔ گلے ملتے ہوئے گھروں میں جاتے۔ گھنٹہ گھر سے سائرن بجایا جاتا۔ ملتان کینٹ کے توپ خانے سے ایک توپ گولا داغتی۔ تو شہر والوں کو علم ہو جاتا کہ رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے۔ لوگ نماز تراویح کی تیاری کرتے۔ اس کے بعد سحری کے لیے اگر کچھ لے جانا ہوتا تو وہ سامان بھی گھروں میں لے جاتے۔ سینمائوں میں رش کم ہو جاتا۔ ماضی میں بھی بازاروں میں نرخ بڑھا دیئے جاتے۔ لیکن وہ نرخ اتنے زیادہ نہیں ہوتے تھے کہ لوگ پریشان ہو کر اﷲ سے دُعائیں مانگتے کہ یااﷲ! رمضان میں سبزی، پھل، کپڑے، جوتے فروخت کرنے والوں کو راہِ راست پر لا۔ دسترخوان پر کھجور، پکوڑے اور دہی بھلے ہوا کرتے تھے۔ یہ مینو اگرچہ آج بھی ہوتا ہے لیکن لوازمات میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ افطاری کا دسترخوان کسی بڑے ہوٹل کا بوفے معلوم ہوتا ہے۔
رمضان کے آخری دنوں میں عیدی دینے اور لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کسی زمانے میں شہر کے باہر کے رشتہ داروں اور دوستوں کو عیدکارڈز روانہ کیے جاتے تھے۔ جس کی جگہ اب ایس۔ایم۔ایس اور سوشل میڈیا کے ایپسز نے لے لی ہے۔ ملتان کے ہر حصے میں عیدکارڈز کے پھٹے لگائے جاتے۔ اب یہ جات ہے کہ عیدکارڈز تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتے کہ اب سوشل میڈیا پر درجنوں کے حساب سے اتنے عیدکارڈز ملتے ہیں کہ بازاری عیدکارڈز کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ محکمہ ڈاک ماضی میں عیدکارڈز روانہ کرنے کی آخری تاریخ کا اعلان کرتا اب ڈاک کے ملازمین کہتے ہیں خدا کے واسطے اگر عیدکارڈز نہیں بھجوانے نہ بھجوائیں، کم از کم سادہ خط ہی بھجوا دیا کریں تاکہ ہماری تنخواہوں کے معاملات تو چلتے رہیں۔
رمضان کے بعد عیدالفطر پر گھروں میں بچوں اور خواتین کی خوب تیاری ہوتی ہے۔ کپڑے، شوز وغیرہ تو ہر گھر میں لائے جاتے ہیں۔ مٹھائی کی دکانیں ماضی میں آگے بڑھائی جاتی تھیں۔ اب مٹھائی کے ساتھ بیکری کے کیک بھی دیئے جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں رمضان میں سیویاں خوب فروخت ہوتی تھیں۔ اب اس کی جگہ پھینیوں نے لے لی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے میں سیویاں بنانے کی تین چار مشینیں لگی ہوتی تھیں۔ رمضان میں ایسی دکانوں پر خوب رش ہوا کرتا۔ اب تو یہ کام بھی ختم ہو گیا ہے۔ سیویاں اب خوب صورت پیکٹ میں پیک ہو کر ملتی ہیں۔ رنگ برنگی، باریک، موٹی، نمکین، سادہ اور خوشبودار سیویاں تو ہر گھر کی جان ہیں۔
لڑکیاں چاند رات پر مہندی لگواتی تھیں، چوڑیوں کے بازار سج جاتے۔ نئے نویلے شادی شدہ جوڑے چاند رات پر خریداری کے لیے لازمی آتے۔ رات گئے چاند رات آباد رہتی۔ یہ باتیں ماضی کے حوالے سے ہم کر رہے ہیں لیکن جب ہم آج کے رمضان اور عید کے بارے میں سوچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اِدھر رمضان کا چاند دکھائی دیا اُدھر راتوں کو کھانے پینے کے بازار سج گئے۔ سری پائے، چنے، کڑاہی، دودھ، دہی،لسی، چائے، پراٹھے، سادہ روٹی، چپلی کباب اور بڑے ہوٹلوں میں سحری کے نام پر لوٹ مار کے سلسلے۔ کہیں پر پیزا تو کہیں پر چکن برگر، فروٹ چاٹ، قہوہ اور وہ سب کچھ رات کو دستیاب ہوتا ہے۔ جس کی دن میں پابندی ہوتی ہے۔ شہر کے وہ بازار جو کبھی رات کو بند ہوتے تھے وہاں کھانے پینے کی دکانوں کی وجہ سے اتنی رونق ہوتی ہے کہ کمال۔ رمضان میں لوگوں نے رمضان میں اتنی لوٹ مار کر لی ہوتی ہے کہ عید کی چھٹیوں میں شہر کے ہوٹلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور یوں ہمارے شہر اور ہمارے ملک میں رحمتوں اور برکتوں کا ماہ تمام ہوتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کے خواب مہنگائی کی وجہ سے تمام ہو جاتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم رمضان میں روزے بھی ثواب کمانے کی نیت سے رکھتے ہیں اور عید بھی یوں مناتے ہیں کہ جیسے عید ہم پر ہی فرض ہوئی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)