یہ کہانی 1980ء کی دہائی کی ہے۔ ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے محترمہ بینظیر بھٹو، ناہید خان اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کی درخواست ضمانت میں ایک وکیل مصطفی نواز کھوکھر کی طرف سے پیش ہوا۔ معزز جج نے بینظیر بھٹو اور ناہید خان کی درخواست ضمانت مسترد کی۔ بینظیر بھٹو بیرونِ ملک تھیں جبکہ ناہید خان کو ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوا دیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم بینظیر بھٹو کو جب یہ معلوم ہوا کہ ایک ہی کیس میں اُن کی اور ناہید خان کی درخواست ضمانت مسترد جبکہ اسی کیس میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کی ضمانت منظور ہو گئی تو انہوں نے پوچھا کہ مصطفیٰ کی طرف سے کون وکیل پیش ہوا؟ جس پر انہیں وکیل کا نام بتایا گیا۔ اب بینظیر بھٹو نے کہا کہ اسی وکیل کو ناہید خان اور میرے کیس کے لیے کہا جائے۔ بینظیر کی طرف سے جب پیغام رساں اس وکیل کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ ناہید خان کی ضمانت مَیں آج ہی کروا دوں گا لیکن فیس پچاس ہزار روپے لوں گا۔ وکیل کو کہا گیا ناہید خان کی ضمانت آج کیسے ممکن ہے کیونکہ جج صاحب نے اس کو ریمانڈ کے تحت اڈیالہ جیل بھیج دیا ہے؟ وکیل نے کہا یہ آپ کا نہیں میرا مسئلہ ہے۔ آپ فیس جمع کروائیں ناہید خان کل شام کی چائے آپ کے ساتھ پئیں گی۔ فیس جمع کرائی گئی۔ اگلے دن وہ وکیل اسی جج صاحب کی عدالت کے باہر کھڑے تھے۔ جیسے ہی جج صاحب تشریف لائے تو وہ وکیل ان کے پاس گیا کہنے لگا آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ جج صاحب نے کہا چیمبر میں کرنا چاہیں گے یا کورٹ میں۔ وکیل نے کہا چیمبر میں۔ جج صاحب اور وکیل چیمبر میں اکٹھے ہوئے اور وہ وکیل انہیں کہہ رہا تھا کہ کل آپ سے ایک غلطی ہوئی ہے اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا ہے کہ اب کسی عورت کو مردانہ جیل میں نہیں رکھا جا سکتا اور آپ نے ناہید خان کو اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سنتے ہی جج نے جیل حکام کو ایک نیا فیصلہ فیکس کیا جس کے بعد ناہید خان کی فوراً ضمانت ہو گئی اور اس نے شام کی چائے اسی وکیل کے چیمبر میں بیٹھ کر پی اور اس چیمبر میں بیٹھے ہوئے ناہید خان نے بینظیر بھٹو کو فون کیا کہ وکیل نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے اور مَیں اس وقت ان کے چیمبر میں بیٹھی آپ سے بات کر رہی ہوں۔ ناہید خان بینظیر سے اس وکیل کی بات کروائی جس پر محترمہ نے کہا آپ میرے کیس لڑنا چاہیں گے؟ جس پر انہوں نے کہا مَیں آپ کے تمام کیسز میں حاضر ہوں گا لیکن ایک شرط پر کہ مَیں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ یوں اس وکیل کا محترمہ بینظیر بھٹو سے پہلا رابطہ ناہید خان کیس کے حوالے سے ہوا۔ اور پھر وہ وکیل بابر اعوان کے نام سے جانا گیا۔
بینظیر بھٹو جب پاکستان آئیں تو انہیں معلوم ہوا کہ بابر اعوان کے گھر پہلا بیٹا عبداﷲ پیدا ہوا ہے۔ تو محترمہ نے عبداﷲ کی منہ دکھائی بھی پچاس ہزار روپیہ دی۔ اس موقع پر محترمہ نے بابر اعوان کو پی پی میں آنے کی دعوت دی جس کے بعد وہ اسلامی جمیعت طلبہ، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم لیگ جونیجو لیگ، مسلم لیگ چٹھہ لیگ کا سفر طے کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بن گئے۔ سیاست میں آنے سے پہلے انہوں نے طلبہ سیاست کے ذریعے اپنی شناخت بنائی اور 1973ء میں مختلف تقریبات میں قائدِ عوام کے بارے میں غلیظ گفتگو اور نظمیں پڑھا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء کے وہ اتنے پرستار تھے کہ جب بابر اعوان کو اس کی موت کا علم ہوا تو موصوف کو دل کا دورہ پڑا۔ جنرل ضیاء کو شہیدِ جہادِ افغانستان نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ اس کے جنازے پر ایک بہت بڑا بینر بھی ان کی طرف سے آویزاں کیا گیا تھا جس پر لکھا تھا ”شہیدِ جہادِ افغانستان“۔ انہی دنوں PTV پر بطور نیوز کاسٹر بھی خبریں پڑھا کرتے تھے۔ یہ ساری سرگرمیاں اس لیے کرتے رہے کہ کسی طریقے سے وہ راولپنڈی اسلام آباد میں نمایاں ہو جائیں۔ راولپنڈی میں ان کا شروع سے لے کر اب تک شیخ رشید احمد سے پرسنیلٹی کلیش رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کا حلقہ انتخاب ایک ہی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ شیخ رشید کم و بیش ہمیشہ کامیاب ہوتے رہے ہیں جبکہ بابر اعوان کبھی بھی کسی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی عمومی شہرت موقع شناس کی ہے کہ اپنا مفاد اٹھا کر وہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ ذہین ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے بینظیر بھٹو کے ساتھ رہے پھر آصف علی زرداری کے چہیتے بنے اور اب عمران خان کے پہلو میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اصول کی سیاست کے اتنے قائل ہیں کہ مارچ 2018ء میں ان کی سینیٹ کی مدت ختم ہو رہی ہے اور وہ 9 مہینے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آنے والے انتخابات کے بعد اب وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے عمران خان کے قصیدے پڑھا کریں گے۔
کہوٹہ کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والا ملک محمد ظہیر الدین خان بابر اب بابر اعوان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکا اور سابق سینیٹر بھی۔ یہ ساری عزت اس کو پاکستان پیپلز پارٹی نے دی اور جن دنوں پاکستان پیپلز پارٹی پر برا وقت آیا ہوا تھا اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے جب بابر اعوان کو عدالت میں پیش ہونے کا کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ یعنی پہلی مرتبہ جب وہ ناہید خان کے لیے عدالت میں پیش ہوئے تو پیپلز پارٹی کے قریب ہو گئے اور آخری مرتبہ جب آصف علی زرداری نے انہیں پارٹی کے لیے عدالت میں پیش ہونے کے لیے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پارٹی سے دور ہو گئے اور اتنے دور ہو گئے کہ اب وہ عمران خان کے قریب ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان سے وہ کتنے لوگوں کو دور کرتے ہیں؟
فیس بک کمینٹ