شاکر حسین شاکرکالملکھاری

ڈاکٹر رُتھ فاؤ اور اُن کے ساتھیوں کو سلام : کہتا ہوں سچ / شاکر حسین شاکر

ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی موت کے بعد سے لے کر اب تک مَیں نے اس ’’محب وطن‘‘ قوم کے جس طرح چہرے دیکھے ہیں وہ ناقابلِ اعتبار ہیں۔ مجھے تو ابھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آخر ہم کیسی قوم بنتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کبھی عبدالستار ایدھی جیسے مسیحا کو دن دیہاڑے لوٹتے ہیں تو کبھی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے محسنِ قوم پر خودکش حملہ کرتے ہیں۔ کبھی ہم اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ بغیر کلمہ پڑھے ہماری جنت میں کیسے جائے گی۔ یہاں پر سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے ایسے انسانوں کو سلام ہے جنہوں نے اس طرح کے سوال اٹھانے والوں کو یہ جواب دے کر لاجواب کر دیا کہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ 70 برس سے زیادہ ہم مسلمانوں کے درمیان رہی۔ اگر اس عرصے میں ہمارے رویے، کردار اور اخلاقیات اسے کلمہ پڑھنے پر مجبور نہ کر سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
جہاں تک ذمہ داری کی بات ہے کہ ہم سے بحیثیت قوم تو یہ نہ تک نہ ہو سکا کہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی موت کا سوگ مشترکہ طور پر ہی منا لیتے۔ دو صوبوں نے ان کی آخری رسومات کے موقعہ پر پرچم سرنگوں رکھا اور باقی صوبے اس سوگ سے لاتعلق رہے۔ حکومتِ سندھ کے سوگ میں اتنے اوسان خطا ہوئے کہ انہوں نے دو برس قبل جس ہسپتال کو معروف سرجن ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے نام موسوم کرنے کی کارروائی کی تھی ٹھیک ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی تدفین پر ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی موجودگی میں سول ہسپتال کراچی کا نام ڈاکٹر رُتھ فاؤ رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اگر وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے نام سے کوئی ہسپتال موسوم کرنا تھا تو جذام و کوڑھ کی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک نئے ہسپتال کے قیام کا اعلان کرتے اور اس کا نام ڈاکٹر رُتھ فاؤ ہسپتال رکھ دیتے۔
ان سب تکلیف دہ باتوں کے باوجود مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ محترمہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے جسدِ خاکی کو ان کی شخصیت کے مطابق گن کیرج (توپ گاڑی) میں لایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ریاستی سطح پر کسی بھی غیر سرکاری شخصیت کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز جناب عبدالستار ایدھی کو ملا۔ لیکن ڈاکٹر رُتھ فاؤ اس اعتبار سے خوش قسمت ٹھہریں کہ ان کی آخری رسومات میں جہاں صدرِ پاکستان، تینوں مسلح افواج کی قیادت، گورنر سندھ، وزیرِ اعلیٰ سندھ، کور کمانڈرز سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان تمام شخصیات نے ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی آخری رسومات میں شامل ہو کر اپنی عزت میں اضافہ کیا کہ وہ محسنہ پاکستان تھی جس نے پاکستان کی حکومت اور اہلِ پاکستان سے کبھی کچھ نہ مانگا۔ وہ جرمنی کو چھوڑ کر 1960ء کی دہائی میں جب پاکستان آئیں تو انہوں نے اپنا ہاتھ اوپر یعنی دینے والوں میں رکھا۔ وہ جذام، کوڑھ کے مریضوں سے نفرت نہیں بلکہ اس طرح محبت کرتی تھیں جیسے وہ کوڑھ کے مارے لوگ ان کی حقیقی اولاد ہیں۔
اس کالم کے ذریعے میرا ان لوگوں کو شکریہ ادا کرنا واجب ہے جنہوں ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی موت پر سوگ منایا۔ مَیں ان ہزاروں لوگوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے دوردراز علاقوں سے سفر کر کے کراچی میں واقع سینٹ پیٹرک چرچ میں جا کر ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی خدمات کو سراہا۔ مَیں ممنون ہوں صدرِ پاکستان ممنون حسین کا جنہوں نے اپنے شہر کی ایک بڑی سماجی شخصیت کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا۔ مَیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی آخری رسومات سرکاری طور پر ادا کرنے کی ہدایت کی۔
یاد رہے ڈاکٹر رُتھ فاؤ کا انتقال پاکستان کے 70ویں جشنِ آزادی سے ٹھیک چاردن پہلے ہوا۔ ان کا تعلق اگرچہ جرمنی سے تھا لیکن 1960ء کی دہائی میں جب پاکستان آئیں تو پاکستان کی محبت ان کو واپس گھر نہ لے جا سکی۔ وہ تمام زندگی دکھی انسانیت کی خدمت میں کمربستہ رہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی محنت کی بدولت 1960ء میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ایشیا کا پہلا ملک قرار دیا۔ اب اس ملک میں جذام کی بیماری تو ختم ہو گئی لیکن اگر اب کوئی پاکستانی جذام کا مطلب جاننا چاہتا ہے تو اسے لغت میں جذام کا مطلب مل جائے گا۔ عام زندگی میں جذام اور کوڑھ کا کوئی مریض دکھائی نہیں دے گا البتہ ذہنی طور پر کوڑھ اور جذام کے مارے لوگ بے شمار ملیں گے جو ڈاکٹر رُتھ فاؤ، ایدھی اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے انسانوں کے خلاف فتوے دیتے مل جائیں گے۔
9 ستمبر 1929ء کو جرمنی میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر رُتھ فاؤ اخبارات میں پاکستان میں جذام کی بیماری کی خبریں پڑھ کر پاکستان آئیں اور پھر پاکستان کو ہی اپنا دوسرا گھر قرار دے دیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے پاکستان آنے سے قبل پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ یہ زمانہ 1960ء کا تھا۔ ملک کے مخیر حضرات نے ایسے مریضوں کو شہر سے باہر رکھنے کے لیے ویرانے میں رہائش گاہیں تعمیر کروا کے دے رکھی تھیں تاکہ یہ مرض شہروں میں نہ پھیل سکے۔ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کے نام سے معروف تھیں۔ شہر کے باہر ہونے کے باوجود بھی لوگ ان رہائش گاہوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ناک، آنکھ اور منہ لپیٹے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے مریضوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے کھانا لوگ دیواروں کے باہر سے کوڑھی احاطے میں پھینکتے تھے اور کوڑھ کے مارے ہوئے یہ دکھیارے مٹی میں اٹی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھاتے تھے۔ پاکستان میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے آنے سے قبل اس بیماری کو ناقابلِ علاج سمجھا جاتا تھا جس وجہ سے اس بیماری میں مبتلا مریض یا تو سسک کر جان دیتے یا پھر خودکشی کر لیتے۔ مَیں نے فیس بک پہ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی جوانی کی تصاویر دیکھی ہیں جس نے اپنے حسن کی پرواہ کیے بغیر انسانیت کو خوبصورت کرنے کا عزم کیا اور اپنے آپ کو پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے وقف کر دیا۔ آغاز ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا کلینک بنایا اور جذام میں مبتلا لوگوں کا علاج شروع کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ کے پاکستان آنے سے قبل ہمارے ہاں لوگ جب کسی شخص کو کوڑھ میں مبتلا دیکھتے تو اس کو اﷲ کا عذاب سمجھ کر توبہ توبہ کرتے۔ لیکن ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے اپنے خوبصورت ہاتھوں سے ایسے تمام مریضوں کو کھانا کھلایا، دوا دی اور مرہم پٹی بھی خود کی۔ اس دوران 1963ء ڈاکٹر آئی کے گل نے انہیں جوائن کیا جس کے بعد 1963ء لیپرسی سنٹر بنا کر ایسے مریضوں کا علاج معالجہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں نے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور سماجی کارکنوں کی تربیت بھی شروع کر دی تاکہ کچھ لوگ ان کے بازو بن سکیں۔ 1965ء تک یہ سنٹر ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا جس کے بعد انہوں نے جذام کے خلاف آگاہی مہم کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا۔ اس زمانے میں اس سنٹر کے لیے 70 لاکھ روپے کم ہوئے جو ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے جرمنی کے مختلف شہروں میں اپنی جھولی پھیلا کر اکٹھے کیے۔ اس ہسپتال کے تحت جذام کے علاج کے سنٹرز کی تعداد 156 ہو گئی جنہوں نے ہزاروں لوگوں کو نئی زندگی دی۔ اور آخرکار 1996ء میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک قرار دے دیا۔
یہ ساری باتیں ایک چھوٹے سے کالم میں کیسے آ سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود مَیں اُن کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی اور وسائل اس ملک کے اُن لوگوں پر خرچ کر دیئے جو کوڑھ کی وجہ سے ہماری نفرت کا شکار تھے۔ ان تینوں نے اس نفرت کو محبت میں تبدیل کیا۔ کیا آپ بھی میرے ساتھ ان سب کو سلام نہیں کرنا چاہیں گے۔ اگر آپ انسانیت سے محبت کرتے ہیں۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker