وہ ایک غیرمعمولی دن تھا،پاکستان کی تاریخ کے ایسے بہت سے دنوں میں سے ایک کہ جو امیدکی کرن کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں۔اس دن کا کئی ماہ سے انتظار کیا جارہاتھااورانتظارکیوں نہ ہوتا پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بے نظیربھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہی تھیں۔تاریخ دوسری مرتبہ اپنے آپ کودہرانے جارہی تھی۔پہلی مرتبہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد لندن سے وطن واپس آئی تھیں۔10اپریل1986ء کو لاہور ایئرپورٹ پر ان کاوالہانہ استقبال ہواتھا۔لاکھوں افراد اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لاہور پہنچے تھے۔وہ ایک تاریخ ساز استقبال تھا۔تاحد نظر سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے۔امید اور یقین کے ملے جلے جذبات کے ساتھ لوگ آمریت سے نجات کے لیے سڑکوں پرآئے تھے۔21
برس بعد پھروہی منظر تھا۔مقام اس مرتبہ لاہور نہیں کراچی تھا۔عہدایک اورفوجی آمرجنرل پرویز مشرف کا تھااوربے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد دبئی سے کراچی پہنچ رہی تھیں۔کئی روز سے یہ بحث جاری تھی کہ کیا وہ وطن واپس آئیں گی؟کہیں انہیں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر وطن واپسی سے روک تو نہیں دیا جائے گا؟انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔پیپلزپارٹی ،اے این پی اور ایم کیو ایم کو انتخابی مہم کے دوران شدید مشکلات کاسامنا تھا۔جلسوں میں بم دھماکے ہورہے تھے اورروشن خیال جماعتوں کو انتخابات سے باہررکھنے کے لیے خودکش بمبار میدان میں آچکے تھے۔عام تاثر یہ تھا کہ 1986ء اور2007ء کے پاکستان میں زمین آسمان کافرق ہے۔تجزیہ نگار یہ دعوی ٰکررہے تھے کہ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کم ہوچکی ہے ۔بم دھماکے جاری ہیں ۔ایسے میں بے نظیر بھٹو کا 1986ء جیسا استقبال نہیں ہوسکے گا۔18اکتوبر سے پہلے ہی ملک بھر سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوگئے۔گیاہ اکتوبر کی رات سے ہی ٹی وی چینلز نے استقبالیہ جلسوں اور کراچی کی شاہراہوں کی براہ راست کوریج شروع کردی۔دنیا بھر میں لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پرتھیں۔بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا لمحہ لمحہ ٹیلی کاسٹ کیاجارہاتھا۔دبئی میں روانگی سے قبل بچوں سے ملاقات اورآفات سے تحفظ کی ضمانت سمجھا جانے والاامام ضامن (جو اس روز تو زندگی کی ضمانت بن گیا تھا ) بازو پرباندھ کر ایئرپورٹ روانگی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی طیارے میں موجودتھی جو بے نظیر بھٹو کو وطن واپس لارہاتھا۔ایک ایک پل دکھایاجارہاتھا ۔راستے میں انٹرویوز کئے جارہے تھے اورصحافی تجزیے دے رہے تھے ۔خود بے نظیر بھٹو کوبھی یقین نہیں تھا کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لیے آئیں گے۔لینڈنگ سے پہلے طیارہ جب کراچی کی سڑکوں کے اوپر سے گزرا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر بے نظیر بھٹو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔کراچی کی فضائیں جئے بھٹوجئے بے نظیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھیں اورپھروہ لمحہ آیاجسے ہمیشہ کے لیے فوٹوگرافروں اورکیمرہ مینوں نے محفوظ کرلیا۔طیارے کا دروازہ کھلا۔بے نظیر بھٹو ،رحمان ملک اور ناہید خان کے ہمراہ قرآن پاک کے سائے میں طیارے سے باہرآئیں۔انہوں نے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر آسمان کی جانب دیکھا ۔آنسو ایک بارپھرچھلکے ۔ہاتھ دعا کے لیے اٹھے۔ان آنسوؤں میں خوشی تھی اورچہرے پر تشکر کے جذبات ۔یہی وہ لمحہ تھا جسے بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت کے لیے محفوظ کروایا۔میں ٹی وی پر یہ منظردیکھ رہاتھا ۔جونہی بے نظیر بھٹو نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے،میں نے بے اختیار اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا’’ یہ ہے کل کی تصویر۔یہی تصویر ،یہی لمحہ آج کاحاصل ہے‘‘ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ تصویربے نظیر بھٹو نے کل کے لیے نہیں بنوائی۔یہ تصویر تو انہوں نے 28دسمبر 2007ء کے ا خبارات کے لیے بنوائی تھی۔اوریہی وہ تصویرتھی جو 28دسمبر کو ان کی شہادت کی خبر کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوئی۔19اکتوبر کے اخبارات تو یہ تصویر شائع کرہی نہیں سکے تھے کہ اس روز استقبالیہ ہجوم کی بجائے لاشوں اور تباہ شدہ ٹرک سے باہر آتی ہوئی بے نظیر بھٹو کی تصویر اہمیت اختیارکرگئی تھی۔
ایئرپورٹ سے باہر آنے میں بے نظیر بھٹو کو کئی گھنٹے لگ گئے۔انہیں جلسہ گاہ تک لے جانے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرک تیار کیاگیاتھا جو پیپلزپارٹی کے پرچموں کے ساتھ آراستہ تھا۔ٹرک نے چیونٹی کی رفتار کے ساتھ سفر کاآغاز کیا ۔رقص کرتے ،ڈھول بجاتے ،پیپلزپارٹی کے جھنڈے لہراتے کارکن ٹرک کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔کارکنوں کے ایک کفن پوش گروپ نے بے نظیر بھٹو کے ٹرک کو حصار میں لے رکھاتھا۔ان کاتعلق پیپلزپارٹی کی مختلف تنظیموں سے تھا اور یہ کارکن ’’جانثاران بے نظیر بھٹو‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔یہ فورس بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس جلوس میں وہ اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال کاکردار ادا کررہے تھے۔میں مسلسل ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔10اپریل 1986ء کے مناظر ایک فلم کی طرح میرے نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔میں اس استقبالیہ جلوس کا عینی شاہد تھا۔ایک نوجوان کی حیثیت سے میں نے بھی بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی قائد کااستقبال کیاتھا۔لیکن اس وقت میرے دل میں کوئی خوف نہیں تھا۔مجھے کوئی دھڑکا نہیں تھا۔یہ وسوسہ نہیں تھا کہ نجانے کب کہاں سے کوئی دہشت گردآکر قہقہوں کو آنسوؤں تبدیل کردے۔چند روز پہلے تک کے بہت سے واقعات مجھے یاد آرہے تھے۔پیپلزپارٹی کے جلسوں میں دھماکے ،دھاڑیں مارتے زخمی کارکن ،شور مچاتی ہوئی ایمبولینسیں اور چیخ وپکارکرتے ہوئے اینکر پرسن ۔دھمال ڈالتے ،ڈھول بجاتے ،نعرے لگاتے کارکنوں کو میں رشک کے ساتھ دیکھتا تھا۔کتنے نڈر ہیں یہ لوگ جو اس ماحول میں بھی اوراس خوف کے عالم میں بھی جان ہتھیلی پررکھ کر جمہوریت کے خوابوں کی تعبیر لینے آئے ہیں۔’’خیر ہوبس ۔۔خیر ہوبس‘‘باربار زبان سے یہی ایک جملہ نکلتا تھا۔جلسہ مزار قائد کے قریب ہونا تھا۔جلوس کو ایئرپورٹ سے شاہراہ فیصل تک آتے آتے کئی گھنٹے لگ گئے۔رات کے 12بجے کا وقت ہوگاجلوس اپنی منزل کی جانب گامزن تھاکہ جب ایک کبوتر کہیں سے آیا اور بے نظیر بھٹو کے کندھے پر بیٹھ گیا۔یوسف رضاگیلانی اوردوسرے قائدین ان کے ساتھ تھے۔ کبوتر اپنی قائد کے کندھوں پر دیکھ کر کارکنوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوگیا۔ٹی وی کیمرے بے نظیربھٹو اوران کے کندھے پر بیٹھے کبوتر کو فوکس کرنے لگے۔بے نظیرہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دیتی رہیں۔
میں ایک رات پہلے بھی اسی طرح جاگتارہاتھا۔تبصرے اورتجزیے سنتا رہاتھا۔دن بھر دفتر میں کام کیا اورپھر مسلسل ٹی وی دیکھتارہا۔میں جلسہ سننا چاہتاتھا۔رپورٹرز بتا رہے تھے کہ جلسہ گاہ تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوجائے گی۔10اپریل 1986ء مجھے یاد تھا کہ اس روز بھی جلوس نے جلسہ گاہ تک کاسفر کئی گھنٹوں میں طے کیاتھا۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہاتھا۔سوچا کہ اب آرام کرتاہوں جلسے کی تفصیلات صبح اخبار میں پڑھ لوں گا۔میرے ذہن میں بے نظیر کی دعا مانگتی تصویر نقش تھی۔خیال تھا کہ صبح کے اخبار میں وہی تصویر نمایاں ہوگی۔12بجے شب میں نے ٹی وی سوئچ آف کیا تومجھے معلوم نہیں تھا کہ صبح سیاہ حاشیے والا اخبار میرا منتظر ہوگا۔پھروہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔وہی ہوا جس کے خوف سے میں باربار’’ خیر ہو خیر ہو‘‘ کہہ رہاتھا۔ایک بجے شب رقص کرتے کارکنوں کے درمیان موت کا رقص بھی شروع ہوگیا۔یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے ۔177کارکن شہید اور400سے زیادہ رخمی ہوگئے۔شہداء اور زخمیوں میں بڑی تعداد ان جانثاروں کی تھی جوبے نظیر کے ٹرک کے گردڈھال بن گئے تھے۔بے نظیر بھٹو اس سانحے میں محفوظ رہیں۔( ۔اور مجھے یاد آرہاہے کہ اس دھماکے میں بے نظیر بھٹو کے بال بال بچ جانے پر پارٹی کے ایک کارکن نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا دیکھئے اتنے بڑے حملے میں بھی بی بی کس طرح بال بال بچ گئیں۔مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقت ورہوتا ہے۔ اللہ بڑا کارساز ہے) ۔۔ 27دسمبر2007ء کو بی بی کی شہادت کے بعد میں نے پارٹی کے اس کارکن کو تلاش کرنے کی کوشش کی ۔کئی ماہ بعد معلوم ہواکہ وہ کارکن بی بی کے ساتھ ہی راولپنڈی میں شہید ہوگیاتھا لیکن اس کایہ جملہ آج بھی میرے ذہن میں گونجتا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔رضی بھائی،اللہ بڑا کارساز ہے۔
جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال بھیج دیاگیا۔یہ ایک پیغام تھا بے نظیر بھٹو کے لیے ،یہ ایک انتباہ تھاکہ وہ الیکشن سے دورہوجائیں۔لیکن بھٹو کی بیٹی نے ڈرنے کی بجائے انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔دو روز بعد ہی وہ سکیورٹی کی پرواہ کیے بغیر زخمی کارکنوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں۔
سانحے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔بے نظیر بھٹو کی جان کون لینا چاہتا ہے اور کیا یہ محض دھمکی ہے یا اس کے بعد کوئی اور سانحہ بھی منتظر ہے۔بے نظیر بھٹو نے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ انتظامیہ انہیں سکیورٹی دینے میں ناکام ہوگئی۔انہوں نے غیرملکی ماہرین سے اس سانحے کی تحقیقات کامطالبہ کیامگر وزیراعظم شوکت عزیز نے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔حکومت کی جانب سے ایک مشتبہ حملہ آور کاخاکہ بھی جاری کیاگیا مگر بعدازاں تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔اس سوال کاجواب بھی معلوم نہ ہوسکا کہ جلوس کے دوران سٹریٹ لائٹس کیوں بند کردی گئی تھیں۔
بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے نام خط میں نہ صرف یہ کہ اس واقعے کی تحقیقات کامطالبہ کیابلکہ تین افراد کو نامزد بھی کردیا۔خط میں کہاگیاتھا کہ سانحہ کارساز میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہی،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ ملوث ہیں۔اس خط میں بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو ملزم نامزد نہیں کیاتھا اورشاید اس لیے نہیں کیاتھا کہ اس کے نتیجے میں یہ تحقیقات ممکن ہی نہ ہوتیں۔یا شاید اس لئے کہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے اپنے قتل کا ملزم نامزد کرنا تھا۔دس سال بیت گئے ۔پیپلزپارٹی کی حکومت اپنا پانچ سالہ اقتدار کرکے رخصت بھی ہوگئی مگر اس سانحے کے مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا۔جنہیں بے نظیر بھٹو نے نامزد کیاتھا ان سے بھی پوچھ گچھ نہ ہوئی پرویز الٰہی کی ق لیگ کو کچھ عرصہ تک کارکن قاتل لیگ کہتے رہے لیکن جب قیادت نے وسیع تر قومی مفاد میں ق لیگ سے اتحاد کر لیا تو کارکن بھی خاموش ہو گئے ۔کچھ عرصہ تک کارکن کارساز کے قریب شہداء کی یادگار پر پھول رکھتے رہے اورپھریہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔شہداء کے ورثاء کو پارٹی کی جانب سے تین تین لاکھ روپے دیئے گئے لیکن اپنے دور حکومت میں پیپلزپارٹی ان کی مشکلات کے ازالے کا کوئی مستقل انتظام نہ کرسکی۔شہید اور زخمی ہونے والوں کے ورثاء بلاول ہاؤس ،ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے چکر بھی لگاتے رہے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ پارٹی تو اب تک بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو کیفر کردارتک نہ پہنچا سکی وہ بھلا جانثاروں کی اشک شوئی کیا کرتی۔