روزنامہ قومی آواز ملتان کا پہلا اخبار تھا جس کی بانی ٹیم میں شامل ہونے کا مجھے موقع ملا ۔ ۔ 1985ءسے 1988ءتک لاہور میں قیام کے تین سال بلاشبہ بہت یادگارتھے۔معمولات زندگی رواں دواں تھے کہ اسی دوران معلوم ہوا کہ میرے چھوٹے بھائی عامر کی فوج میں سلیکشن ہوگئی ہے اورعامر کو ٹریننگ کے لیے ملتان سے روانہ ہوناہے۔ عامر گھر سے چلے جاتے تو پھر امی کے پاس کون رہتا۔ اگرچہ گھر میں ماموں جاوید بھی رہتے تھے لیکن لاہور سے میری واپسی اب ناگزیرہوگئی تھی۔ عامر کوٹریننگ کے لیے شاید مارچ میں منگلا جانا تھا اور اس سے پہلے میری ملتان واپسی ضروری تھی۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ ملتان سے ایک نئے اخبارکااجرا ہورہاہے اور نام اس اخبار کا قومی آوازہے۔اخبار کے ایڈیٹر ایثارراعی تھے جن کے بارے میں میں پہلے مضمون میں بتاچکا ہوں کہ وہ نیشنل پریس ٹرسٹ(این پی ٹی)کے زیراہتمام شائع ہونے والے اخبارروزنامہ مشرق کے ایڈیٹر تھے۔مشرق اورامروز میں تنخواہیں بہت اچھی تھیں اور ریٹائرمنٹ پر واجبات بھی ملتے تھے۔ راعی صاحب کومشرق سے رخصتی پر جو واجبات ملے ان کی مدد سے انہوں نے اخبارشائع کرنے کافیصلہ کیا۔ راعی صاحب کااصل دارومدار قدرت اللہ شہاب پرتھا۔ قدرت اللہ شہاب ایثارراعی کے جھنگ کے زمانے کے دوست تھے اورانہوں نے اس زمانے میں اپنی خودنوشت (شہاب نامہ)میں ایثارراعی کابھی جھنگ کے حوالے سے ذکر کیاتھا۔قدرت اللہ شہاب نے ایثارراعی کویقین دلایا کہ آپ اخبارشروع کریں میں اخبار کی اے بی سی کرواکے آپ کو سرکاری اشتہارات بھی جاری کروادوں گااورانہوں نے یہ وعدہ پورا بھی کردیا لیکن اخبارباضابطہ طورپر ایک سال ہی مارکیٹ میں جاسکا ہاں البتہ ڈمی کی صورت میں یہ ابھی تک شائع ہورہاہے ، اشتہارات بھی حاصل کررہاہے اور ان کے بیٹوں بخت آثار اورنشید و نوید کی روزی کا وسیلہ ہے ۔
نئے اخبار کے لیے راعی صاحب کو عملہ بھی درکارتھا۔ سو مختلف اداروں سے مختلف صحافیوں کو جمع کیاگیا۔میں لاہور جانے سے پہلے روزنامہ سنگ میل اورروزنامہ نوائے ملتان میں نیوز ایڈیٹر اور میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے خاصی دھوم مچا چکا تھا۔ میرے تیارکیے ہوئے ادبی و سیاسی صفحات اور میرے کالم ملتان ہی نہیں پاکستان بھر میں زیربحث آ چکے تھے جن میں ایک کالم وہ بھی تھاجو میں نے روزنامہ سنگ میل میں ایم آرڈی کی قرارداد پر دستخط کی پاداش میں مسعوداشعر ،منوبھائی اوراظہر جاوید کی برطرفیوں کے خلاف تحریر کیاتھا۔ضیاءمارشل لاءکے دور میں ان برطرفیوں کے خلاف واحد آوازملتان سے ہی ابھری تھی اوربعد ازاں اظہرجاوید اورمنوبھائی نے اس کالم کی اشاعت پر مجھے خطوط بھی تحریر کیے اور محتاط رہنے کامشورہ بھی دیا۔ ان کاکہناتھا کہ صحافتی کیریئر کے آغاز میں مجھے مارشل لاءحکام کے فیصلوں پرتنقید نہیں کرنی چاہیے۔بات کسی اورجانب نکل گئی واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔
ملتان سے بلاوا آیا تواپریل کے آخری ہفتے میں میں نے لاہور سے اپنی کتابیں اور بستر سمیٹااورملتان کے لیے روانہ ہوگیا کہ مجھے ملتان پہنچ کر قومی آواز کا پہلا شمارہ شائع کرناتھا۔میں گزشتہ تین برسوں سے لاہور میں 1200روپے ماہوار پر کام کررہاتھا جن میں سے چھے سو روپے میں گھر بھیج دیتاتھا اورباقی چھے سو روپے میں خود گزربسر کرتاتھا جس میں 250روپے مکان کے کرائے میں ادا ہو جاتے تھے۔باقی ساڑھے تین سوروپے میں مجھے ہرہفتے ملتان بھی آناہوتا تھا اور کھانے سمیت دیگر اخراجات بھی کرنا ہوتے تھے۔ایثارراعی صاحب کی جانب سے مجھے اسی تنخواہ کی پیشکش کی گئی جو میں وطن دوست لاہور میں بشری رحمان صاحبہ سے وصول کررہا تھا۔انہوں نے مجھے کہا کہ آپ 1200روپے لاہور میں لے کر چھے سو روپے گھربھیجتے ہیں تو ملتان آکر آپ کو فائدہ یہ ہوگاکہ آپ کے جواخراجات دوشہروں میں تقسیم ہیں وہ ایک ہی جگہ منتقل ہوجائیں گے۔ان کی یہ بات مجھے بھی سمجھ آگئی ۔ویسے بھی ہم ملتانی اپنے شہر سے زیادہ عرصہ دور نہیں رہ سکتے اورمجھے تو پردیس میں تین سال ہوگئے تھے
24اپریل 1988ءکوروزنامہ قومی آواز کا پہلا شمارہ شائع ہوا پچیس اپریل کو پیر کے روز اس میں میرا پہلا کالم ” قومی آواز اور میری آواز “ کے عنوان سے شائع ہوا ۔قومی آوازکادفتر ڈیرہ اڈا چوک کے قریب ماوراہوٹل کے سامنے والی گلی میں محلہ چاہ انگوری والا میں واقع تھا۔یہ ایک چھوٹا ساچوبارہ تھا جس کے ایک جانب کچن اور دوکمرے تھے ۔کچن کو کاپی پیسٹنگ روم میں تبدیل کردیاگیا اور باقی دوکمرے نیوزروم اورکتابت سیکشن میں تبدیل ہوگئے۔چوبارے کی دوسری جانب ایڈیٹر کا کمرہ تھا اوردرمیان میں ایک چھوٹا ساصحن تھا جو فارغ لمحات میں ہمارے قہقہوں کامرکز ہوتاتھا۔اس اخبار میں اس زمانے کے نامور صحافی جمع ہوگئے تھے۔ اسلم جاوید اوررانااکرم خالد اس زمانے میں روزنامہ آفتاب میں کام کرتے تھے۔ اسلم جاوید نیوز ایڈیٹر اور رانااکرم خالد رپورٹر کی حیثیت سے روزنامہ قومی آواز کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ نذربلوچ اس زمانے میں ایک اچھے سٹاف رپورٹر کی حیثیت ابھررہے تھے۔ وہ بھی ہماری ٹیم کاحصہ بن گئے۔خوش نویسوں میں راشد سیال، اسلم وفا، اقبال یوسفی اورظہورتابش قومی آواز کے کتابت سیکشن میں موجودتھے۔کاپی پیسٹنگ کے شعبے میں معراج علیم اور ظفر مغل تھے(ظفرمغل بعدازاں پراپرٹی کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اورپھر پاکستان تحریک انصاف میں بھی شمولیت اختیارکرلی۔مدتوں بعد ایک روز مجھے اے پی پی کے دفتر ملنے آئے ،اس کے بعد دوبارہ کوئی رابطہ نہ ہوا ۔گزشتہ ہفتے معلوم ہوا کہ وہ اچانک اس جہان سے رخصت ہوگئے ہیں)۔
ایک اورنوجوان ضیاءاشرف بھی اس اخبار میں کام کرتے تھے۔ضیاءاشرف کوجب ایثارراعی صاحب نے دفتر سے نکال دیا تو وہ پریشان ہو کر میرے پاس آگئے۔ میں نے مشورہ دیا کہ آج کل ڈیکلریشن کاحصول بہت آسان ہوچکا ہے آپ بھی ڈیکلریشن لے کرایڈیٹربن جائیں۔ضیاءاشرف نے ایسا ہی کیا۔پھرجس وی آئی پی پریس کانفرنس میں راعی صاحب جاتے تھے ضیاءاشرف بھی ان کے برابر جا کر بیٹھ جاتے۔راعی صاحب تلملا کر رہ جاتے۔ضیاءاشرف کے اخبار کانام نوائے حقیقت تھا جو آج بھی شائع ہورہا ہے ،کچھ عرصہ میں نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کے دفتر میں کام کیا تھا۔قومی آواز کی لیڈی رپورٹروں میں شگفتہ انصاری اور زنیرہ سیدشامل تھیں۔ شگفتہ انصاری بعدازاں اسلام آباد چلی گئیں اور پی آئی ڈی میں اہم عہدے سے ریٹائرہوئیں۔روزنامہ قومی آواز میں میں نے ڈرتے ڈرتے کے نام سے کالم بھی دوبارہ شروع کیا اور ادبی ایڈیشن بھی چھاپنے لگا۔قومی آواز کے ادبی ایڈیشن میں کمرہ نمبر52کے نام سے میں نے لاہور میں قیام کی یادیں تحریر کرناشروع کیں۔ پہلی قسط 16دسمبر1988ءکو شائع ہوئی اور دسویں قسط 17مارچ 1989ءکو اس اخبار کی زینت بنی۔ گیارہویں قسط بھی یقیناً مجھے تحریر کرناتھی لیکن شاید اس کے بعد مجھے وہ اخبارچھوڑناپڑگیاکیونکہ وہاں تنخواہوں کی ادائیگی مسئلہ بن گئی تھی۔کمرہ نمبر52کے نام سے اب میری کتاب اشاعت کے مراحل میں ہے جس میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو میں نے لاہور سے جدہ میں مقیم شاکر حسین شاکر کے نام تحریر کیے تھے۔یہ کتاب 1985ءسے 1988ءتک کے منظرنامے کی ایک دستاویز ہوگی۔
قومی آواز میں ہی میرے ساتھ نامور سرائیکی شاعر رفعت عباس بھی کام کرتے تھے۔رفعت عباس اداریہ لکھتے تھے اوراداراتی صفحے کے انچارج تھے۔ میں اپناکالم تحریر کرکے اشاعت کے لیے انہی کے سپردکرتاتھا۔ یہی وہ اخبارتھا جہاں ہم نے ضیاءالحق کی موت اور پھر بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کی خبریں شائع کی تھیں۔اسی اخبار میں میرے وہ تمام کالم شائع ہوئے جن کا میں جنرل ضیاءکی موت کے حوالے سے مختلف مضامین میں حوالہ دیتارہاہوں۔ خاص طورپر وہ کالم جو میں نے ضیاءکی درازی عمر کے لیے تحریر کیااورجس کے چند روز بعد جنرل ضیاءاپنے رفقاءسمیت بہاولپور کے قریب طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔اورپھر میں نے اسی اخبار میں صدیق سالک کی یاد میں ”ہمہ یاراں دوزخ“ کے نام سے کالم لکھا یہ اگرچہ ان کی کتاب کانام ہے لیکن وہ جس موت کاشکارہوئے اس نے اس عنوان میں نئی معنویت پیدا کردی۔مجھے یاد ہے ضیاءکی موت پر میرے کالم کاعنوان تھا”شہید کی جوموت وہ قوم کی حیات ہے“ ۔یہاں بہت سے دلچسپ تجربات ہوئے ۔جنرل ضیاءکی موت کے بعد سرکاری طور پر انہیں شہید کادرجہ دے دیاگیا تھااور ہمارے ساتھ کام کرنے والے کچھ لوگ بھی جنرل ضیاءکو شہادت کے منصب پرہی فائزسمجھتے تھے۔ ایک خوش نویس ایسے تھے جوجنرل ضیاءکے نام کے ساتھ ازخودشہید لکھ دیتے تھے۔ میں بارہاپروف ریڈنگ کے دوران انہیں ٹوکتا لیکن وہ اپنی حرکت سے بازنہ آتے۔ مجھے ہرخبر میں سے شہید کالفظ بلیڈ سے کھرچناپڑتاتھا۔ پھر ایک روز یوں ہوا کہ انہوں نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خبر میں بھی ضیاءکے نام کے آگے شہید لکھ دیا۔ اب متن کچھ ایسے بنا
”وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا ہے کہ جنرل ضیاءشہید نے اس ملک کوبرباد کردیا ،ضیاءشہید نے ہمیں ہیروئن کاتحفہ دیا۔ ضیاءشہید نے نئی نسل کے ہاتھوں میں کلاشنکوف دی ۔آج جولوگ ضیاءشہید کو اپناآئیڈیل سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ضیاءشہید جیسا دوزخی ہی اس ملک کی تباہی کاذمہ دارہے“
مجھے اس خوش نویس کانام اب یاد نہیں لیکن جس روز یہ خبر شائع ہونا تھی اور اشاعت سے قبل جب یہ میری ”عقابی نگاہوں“ میں آگئی تو وہ دن روزنامہ قومی آواز میں اس خوش نویس کی ملازمت کاآخری دن تھا۔
اس اخبار میں مجھے پہلی مرتبہ کاتبوں کی ہڑتال کاسامنا کرناپڑا۔تنخواہیں نہ ہونے کے باعث جو چند کاتب دفتر میں موجودتھے ان کی مدد سے اخبارشائع کرنا ناممکن ہوگیا۔جو کاپی رات کو ایک بجے پریس میں جاناہوتی تھی اس کی تکمیل میں صبح کے چاربج جاتے تھے۔راعی صاحب کا مگر اصرارتھا کہ جو بھی ہو کاپی وقت پرجانا چاہیے۔اس کا طریقہ یہ نکالا کہ ہم نے اندرونی صفحات پرپرانی خبریں لگانا شروع کردیں۔ معاملات پھربھی قابو میں نہ آٰئے تو صفحہ آخر پر بھی پرانی خبریں براجمان ہوگئیں۔اب صرف پہلا صفحہ بچ گیا تھا ،حل یہ نکالا کہ میں نے پہلے صفحے کی ہر خبر کی پانچ پانچ سطریں کتابت کرائیں اوراخبارمکمل کردیا۔اندرونی صفحات پرانے بقیوں سے بھرے ہوتے تھے۔ مجھے کسی نے کہا کہ یہ توغلط کام ہے ،ہم پکڑے جائیں گے ،میں نے کہا کہ اگرکوئی اخبارپڑھے گاتوپکڑے جائیں گے ناں۔ جب کوئی اخبارہی نہیں پڑھتا تو اسے کیامعلوم کہ اندرونی صفحات پر خبروں کے بقیے شائع ہوئے ہیں یا نہیں۔یہ نسخہ ءکیمیاءسب کوبہت پسند آیا۔ راعی صاحب تو اب دفتر ہی نہیں آتے تھے ،اخبارہم جیسے چند لوگوں کے سپردتھا۔ بقیوں کامسئلہ حل ہونے کے بعد کاپیاں وقت پربلکہ بعض اوقات تو وقت سے بھی پہلے پریس میں جانے لگیں۔ راعی صاحب مطمئن ہوگے کہ کاتبوں کا مسئلہ حل ہوگیاہے۔ہم بھی بروقت گھروں کوچلے جاتے تھے ۔ پندرہ بیس روز بعد جب ہماری یہ کارستانی پکڑی گئی توراعی صاحب نے غصے میں ہمیں طلب کیا کہنے لگے آج تم نے بقیے پرانے لگادیئے ہیں میں نے کہا راعی صاحب جان کی امان پاﺅں تو عرض کروں کہ آپ نے اخبارخودآج پہلی بارپڑھا ہے ہم تو یہ بقیے پندرہ روز سے شائع کررہے ہیں۔ بس پھرہمیں اسی روز تنخواہ لیے بغیر دفتر چھوڑناپڑگیا۔غالباً یہ 17مارچ 1989ءکے بعد کی بات ہوگی ۔میرا اگلا مسکن سڑک کے دوسری جانب روزنامہ آفتاب کادفتر تھا۔ لیکن اس کا احوال دینے سے پہلے یہ بتا دوں کہ قومی آواز سے رخصتی کے کئی برس بعد میری اور راعی صاحب کی لاہور سے واپسی پر ایک بس میں ملاقات ہوئی ۔ ہم نے ساہیوال تک ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی ۔ ساہیوال میں بس رکی تو میرے ساتھ راعی صاحب بھی چائے پینے کے لیے اترے ۔ چائے اور سینڈ وچ کے بل کی ادائیگی کے لیے میں آگے بڑھا تو راعی صاحب نے اصرار کیا کہ وہ خود بل ادا کریں گے لیکن میں بل دے چکا تھا ۔ ” میں بڑا ہوں بل مجھے دینا تھا آپ نے زیادتی کی ہے “
”راعی صاحب کوئی بات نہیں آپ نے مجھے تین ماہ کی جو تن خواہ دینی ہے اس میں یہ بل بھی شامل کر دیں“
راعی صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا اور ہماری بول چال دوبارہ شروع ہوگئی ۔اور پھر ان کے ساتھ تعلق 19 جنوری 2003 ء تک قائم رہا جب وہ اس جہان فانی سے رخصت ہو ئے ۔
فیس بک کمینٹ