نواز شریف اور مریم نواز کو بالترتیب دس اور سات برس کی سزا دیتے ہوئے، احتساب عدالت کے ذریعے بظاہر ان دونوں کو ملکی سیاست سے باہر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ مریم نوز کو طویل سزا دینے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ نوازشریف اپنی سیاسی وراثت اپنی ایسی بیٹی کو منتقل نہ کرسکیں جنہوں نے گزشتہ برس نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے واضح سیاسی مؤقف اختیار کرکے اسٹبلشمنٹ کو پریشان کیا اور مسلم لیگ (ن) کو حیات نو عطا کی ہے۔ نواز شریف کو سزا دیتے ہوئے اگر مریم نواز کو بری کردیا جاتا تو ملکی سیاست میں سجائی گئی بساط پر مہروں کی ترتیب ڈرامائی طور سے متاثر ہونے کا امکان تھا۔ اب اس بات کا اطمینان کر لیا گیا ہے کہ نواز شریف کے علاوہ مریم نواز کو بھی سیاست سے ایک طویل عرصہ تک کے لئے غیر مؤثر کیا جائے تاکہ وہ اس انتخاب کے علاوہ پانچ برس بعد 2023 میں ہونے والے انتخابات میں بھی کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔
ایون فیلڈ مقدمہ میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے قائد اور تین بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے شخص کو سزا دینے کا فیصلہ کسی طور بھی غیر متوقع نہیں تھا۔ نہ یہ کہا جا سکے گا کہ جج بشیر احمد نے اس مقدمہ کی سماعت یا فیصلہ کے دوران میرٹ کا خیال رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یا انہوں نے بطور منصف اور قانون دان دفاع کرنے والوں کو اس وقت تک بے قصور سمجھنے کا رویہ ظاہر کیا جب تک ان میں سے کسی پر الزام ثابت نہ ہو جائے۔ اس میں احتساب عدالت کے چھوٹے درجہ پر فائز جج کا بھی کوئی قصور نہیں ہو سکتا۔ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت ہر قسم کی قانونی روایت اور تقاضوں کے برعکس اس بات پر مصر ہو کہ اس کا ایک جج اس مقدمہ کی نگرانی کرے گا اور ملک کے قانونی انتظام میں روا رکھے جانے والے طریقہ کار کے برعکس اگر سپریم کورٹ اس بات پر بھی اصرار کرے کہ خاص اس مقدمہ کا فیصلہ بہر صورت ایک خاص مدت کے اندر سنایا جائے، تو احتساب عدالت کا جج وہی کرنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔
سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ نہ ہوتے ہوئے بھی آئین کی شق 184 (3) کا اختیار استعمال کیا اور عوامی نمائندوں کے بارے میں امین و صادق کی متنازع شقات استعمال کرتے ہوئے نہ صرف نواز شریف کو حکومت سے علیحدہ کیا بلکہ انہیں ہمیشہ کے لئے سیاست سے باہر کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ پاناما کیس میں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا حکم ملکی عدالتی تاریخ میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ سمجھا جائے گا۔ ایک شخص کو جب سپریم کورٹ واضح الفاظ میں جھوٹا اور خائن قرار دیتے ہوئے اس کی کردار کشی کے لئے ہر طرح کے ریمارکس اور الفاظ برتنے میں خود کو آزاد اور خود مختار سمجھتی ہو۔ یا ایک رائے کے مطابق یہ رویہ اختیار کرنے پر ’مجبور‘ ہو چکی ہو تو ایک معمولی احتساب عدالت کو باقی ماندہ مقدمہ کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کرنا، ڈھونگ رچانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ جج بشیر احمد کو وہی کرنا تھا جس کی نظیر سپریم کورٹ قائم کر چکی تھی اور جس بارے میں انہیں ہدایات دی گئی تھیں۔
گزشتہ دس ماہ کے دوران اس ریفرنس کی سماعت کےدوران ہر مرحلہ پر احتساب عدالت کا تعصب یا مجبوری واضح ہوتی رہی ہے۔ ماضی کی درجنوں مثالوں کے برعکس نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو مقدمہ میں حاضری سے استثنی دینے سے گریز کیا گیا۔ حالانکہ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ بیگم کلثوم نواز سنگین علالت کا شکار ہیں اور لندن میں کینسر جیسے موذی مرض سے نبرد آزما ہیں۔ حتیٰ کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے جب نواز شریف اور مریم نواز لندن گئے اور کلثوم نواز کی حالت مزید تشویشناک ہو گئی تو بھی انہیں ایک ایک دن کے استثنیٰ کے لئے درخواست دائر کرنے پر مجبور کیا گیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہےکہ جج بشیر احمد نےکسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملہ کا فیصلہ موقع پر ہی کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ خواہ وہ استثنیٰ کی کسی درخواست پر فیصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ آج بھی جب نواز اور مریم کی طرف سے ایک ہفتہ کے لئے فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی تو جج بشیر احمد نے درخواست کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور پھر ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد اس درخواست کو مسترد کردیا۔ اس رویہ سے جج صاحب کی قانونی مہارت یا حساسیت سے زیادہ ان کی بے چارگی نمایاں ہوتی ہے۔ جس ملک میں قانون اس قدر کمزور اور مجبور ہو،وہاں نظام انصاف پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہیں گے۔
نواز شریف کے معاملہ میں یہ اصول بارہا سامنے آیا کہ خواہ کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسے ملک کے قانون کے مطابق اپنے کئےکی سزا بھگتنا ہوگی۔ اس اصول سے کسی کو انکار کی مجال نہیں ہو سکتی لیکن اسی اصول کا دوسرا پہلو بھی اتنا ہی اہم ہونا چاہئے کہ کسی ہائی پروفائل شخصیت کے معاملہ پر غور کرتے ہوئے اسے بھی اپنے دفاع اور ان قانونی سہولتوں کا ویسا ہی حق حاصل ہونا چاہئے جو کسی بھی عام شہری کو حاصل ہوتا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے معاملہ میں اس بات کی احتیاط کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ انہیں عام ملزموں کی طرح اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنے اور دفاع کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ وقت کا تعین کر کے خاص طور سے اس معاملہ میں اس تاثر کو قوی تر کیا گیا ہے کہ اس مقدمہ کا فیصلہ بہر صورت 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات سے پہلے مطلوب تھا۔ جج بشیر احمد کے پاس اس مطالبہ کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ورنہ اتنے پیچیدہ اور مشکل مقدمہ کا فیصلہ اس قدر دباؤ میں کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی جاتی۔
انتخابات سے اٹھارہ انیس روز قبل ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف اور مریم نواز کو ایسے موقع پر سزائیں دینے کا اعلان جبکہ وہ ملک سے باہر مقیم ہیں، اس بات کا طاقتوراشارہ ہے کہ انہیں آمدہ انتخابات سے قبل کسی بھی طرح لندن میں ہی رکنے پر مجبور کیا جائے۔ نواز اور مریم اس فیصلہ کے اعلان کے بعد جتنے روز لندن میں گزاریں گے، ان کی سیاسی حیثیت اور اخلاقی مقدمہ اتنا ہی کمزور ہو گا۔ اس بارے میں دو رائے نہیں ہونی چاہئیں کہ آج اسلام آباد احتساب عدالت سے سنایا جانے والا فیصلہ ہمیشہ متنازع رہے گا۔ اس فیصلہ کی قانونی قدر و قیمت اور میرٹ پر نہ غور کیا جائے گا اور نہ ہی یہ فیصلہ کوئی قانونی نظیر بن سکے گا۔ یہ فیصلہ اپنے سیاسی اثرات کی وجہ سے سمجھا جائے گا اور ملک کا ہر شہری اپنی سیاسی صوابدید کے مطابق ہی اس فیصلہ کے بارے میں رائے کا اظہار بھی کرے گا۔ کسی بھی نظام قانون کی اس سے بڑی اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ اس میں کئے گئے فیصلوں کےاثرات ہی سیاسی نہ ہوں بلکہ انہیں قانونی سے زیادہ سیاسی ہی سمجھا جائے۔
نواز شریف کے خلاف آنے والے اس فیصلہ کو اس حوالے سے بھی نمایاں حیثیت حاصل رہے گی کہ ملک میں رائے عامہ اس فیصلہ پر منقسم ہو گی۔ ایک طبقہ اسے قانون اور انصاف کی بالادستی قرار دے گا جبکہ دوسرا گروہ اسے ایک سیاسی لیڈر کے خلاف نظام کا انتقام سمجھتا رہے گا۔ اس پہلو سے یہ فیصلہ ملک کے نظام عدل پر کلنک بن کر رہ جائے گا۔ جس طرح اس مقدمہ کو قائم کرنے اور اس پر فیصلہ صادر کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے، اس کے باعث سپریم کورٹ کو ہی عدالتی نظام پر لگنے والے اس داغ کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ حالانکہ اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات اور فیصلے قانونی بصیرت کی نئی راہ متعین کرتے ہیں اور انہیں آنے والی نسلوں کے لئے مثبت اور قابل قدر روایات قائم کرنے کا سبب بننا چاہئیں۔ پاناما کیس میں عدالت عظمی ٰ کی سرگرمی اور طرز عمل اس سے برعکس تصویر سامنے لاتا ہے۔ موجودہ سیاسی تناؤ کی کیفیت سے نکلنے کے بعد اس ملک کے قانون دانوں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو اس حوالے سے غور کرنے اور قانونی تفہیم اور اس کے مساوی اطلاق کے بارے میں صحت مند روایت قائم کرنے کے لئے تسلسل سے ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
اسلام آباد احتساب عدالت کا فیصلہ چونکہ قانونی حوالے سے نہیں دیکھا جائے گا، اس لئے ملک بھر میں اس کے سیاسی اثرات اور نوز شریف کے آئیندہ طرز عمل کے حوالے سے ہی گفتگو ہو رہی ہے۔ اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کیا نواز شریف جیل جانے سے بچنے کے لئے لندن میں ہی قیام کریں گے یا ملک واپس آکر سیاسی عمل کی قیادت کریں گے۔ عدالتی فیصلہ کے بعد اگر ان کی قانونی اپیل اور ضمانت کا اہتمام نہیں ہوتا تو واپسی کی صورت میں گرفتاری اور جیل روانگی ہی بظاہر نواز شریف اور مریم نواز کا مقدر ہے۔ لیکن فیصلہ میں عجلت کروانے والی قوتوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گا کہ بیمار بیوی کو لندن کے ایک ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آنے والے نواز شریف جلسوں میں ’باغیانہ ‘ تقریریں کرنے والے کسی لیڈر سے زیادہ خطرناک ہوں گے۔ اور اگر نواز شریف کسی وجہ سے ملک واپس آنے میں مزید تاخیر کرتے ہیں تو وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کا ایسا انجام لکھنے کا سبب بنیں گے جس میں انہیں بہر حال بدعنوان اور مفاد پرست سیاستدان کے طور پر ہی یاد کیا جائے گا۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ