پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے جج ٹھوس اور دوٹوک فیصلے دینے کی بجائے تبصرے کرنے اور عدالتی کارروائی کے دوران سوال و جواب کے ذریعے میڈیا کی شہ سرخیوں میں آنے کی نئی روایت قائم کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی عدالتوں میں سیاسی نوعیت کے حساس معاملات زیر بحث آتے ہیں لیکن ججوں کی رائے فیصلوں میں ہی سامنے آتی ہے۔ تاہم بدنصیبی کی بات ہے کہ میڈیا کے دباؤ اور سوشل میڈیا پر ہونے والے مباحث براہ راست پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ریمارکس اور طرز عمل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس رویہ کا افسوسناک مظاہرہ سابقہ سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ازخود نوٹس کے معاملہ کی سماعت کے دوران بھی دیکھنے میں آیا۔ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والے سہ رکنی بینچ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو نہال ہاشمی نے عدالت سے اپنی بدکلامی کی معافی طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر شرمندہ ہیں اور غیر مشروط معافی طلب کرتے ہیں۔ لیکن مسلمہ عدالتی روایت کے برعکس برافروختہ ججوں نے معافی قبول کرکے خود بڑے ہونے کا ثبوت دینے کی بجائے حکومت اور حکمران پارٹی کے ایک نمائندے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ اور حکم دیتے ہوئے ججوں نے حکومت پر عدالتی کام میں مداخلت کرنے اور سسلی کے مافیا جیسا رویہ اختیار کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔
ملک میں بہت سے لوگ آج کی عدالتی کارروائی پر خوشی کا اظہار کریں گے۔ سیاسی اپوزیشن پارٹیاں ان تبصروں کو مزے لے لے کر اپنی تقریروں میں استعمال کریں گی۔ بیشتر ٹاک شوز ججوں کی رائے پر قیاس آرائیوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کی صورت نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کیا وہ اسی طرح اس ملک میں انصاف کو سربلند کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جج کے منصب پر فائز ہو کر اور منصف کی کرسی پر بیٹھ کر کوئی بھی شخص غلطیوں سے پاک ہو جاتا ہے اور خود ستائی میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کا حق حاصل کر لیتا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج بدنصیبی سے اس تاثر کو راسخ کرنے کی کوششوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ جج کے قلم اور زبان سے کوئی ایسا لفظ ادا نہیں ہونا چاہئے جو بلا جواز ہو، جذبات کی بنیاد پر ادا کیا جائے یا غیر متعلقہ ہو۔ لیکن جب توہین عدالت کے معاملہ میں معافی مانگنے والے فرد کو بنیاد بنا کرجج شدید غصہ کا اظہار کریں گے اور حکومت کو ’’دہشت گرد ، مافیا اور سسلی مافیا کا حصہ‘‘ قرار دیں گے تو حق بات تو یہ ہے کہ وہ خود اپنی غیر جانبداری کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم کو مافیا ہتھکنڈے اختیار کرنے کا مرتکب قرار دیتی ہے تو اس کے پاس اس بات کو ثابت کرنے کےلئے جواز اور دلیل بھی ہونی چاہئے۔ کیا ایک شخص کی کہی ہوئی باتوں کے مختصر وڈیو کلب اور سوشل میڈیا پر نامعلوم افراد کے تبصروں کی بنیاد پر کوئی جج منتخب وزیراعظم کو مافیا کا سربراہ قرار دینے کا حق حاصل کر لیتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے قابل احترام اور معزز جج صاحبان اس معاملہ میں عوامی رائے کے ہاتھوں یرغمال بنے دکھائی دیتے ہیں۔ غیر مقبول حکومت کے خلاف کہی جانے والی باتیں عام پذیرائی حاصل کرتی ہیں اور لوگوں میں یہ تاثر راسخ ہونے لگتا ہے کہ ’’یہ جج بڑے تگڑے ہیں‘‘۔ کیا اعلیٰ ترین عدالت کے جج اس وقتی توصیف کےلئے قانون کے تقاضوں اور اپنے منصب کی حرمت کو فراموش کر سکتے ہیں۔
ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مقدمات برس ہا برس تک سپریم کورٹ کے علاوہ دیگر اعلیٰ عدالتوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ ایک سے زیادہ مقدمات میں سپریم کورٹ نے قتل کے معاملہ میں سزا یافتہ شخص کو اس وقت بے قصور قرار دیا جب یا تو اس کا انتقال ہو چکا تھا یا اسے سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے سے پہلے ہی پھانسی دی جا چکی تھی۔ اس سنگین صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور سماعت کا انتظار کرنے والے مقدمات کو جلد نمٹانے کےلئے موثر اقدامات کرے۔ لیکن اگر عدالتی بینچ اپنے کہے ہوے الفاظ پر شرمندگی کا اظہار کرنے اور معافی مانگنے والے شخص کے خلاف کارروائی کرنے پر اصرار کرے گی اور ایسے معاملات میں وقت صرف کرے گی تو اہم معاملات پر غور کرنے اور لاتعداد لوگوں کو ناانصافی سے بچانے کےلئے وہ کیسے وقت نکال پائے گی۔ عدالت کے ججوں کو تحمل اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت کی بڑائی معاف کرنے میں ہے سزا دینے میں نہیں۔ پاناما کیس ہو یا دوسرے معاملات ، عدالتوں کے فیصلوں میں غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں اور بعض اوقات یہ نادر مثال بھی بن سکتے ہیں۔ تاہم فیصلے وہی انصاف کی کسوٹی پر پورے اتر سکتے ہیں جنہیں سنانے والے جج ذات کو اس میں ملوث کرنے سے باز رہیں۔ اگر اس مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج اپنی آبزرویشن کے ذریعے جج سے زیادہ فریق کی حیثیت اختیار کر لیں گے تو ان کا فیصلہ درست ہونے کے باوجود متنازعہ ہوگا۔ پاناما کیس میں اعلیٰ عدالت کے جج کئی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف اور دیگر مدعی اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکے لیکن عدالت نے اس کے باوجود وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا ملک کی مروجہ قانونی روایت میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ یا صرف یہ معاملہ چونکہ برسر اقتدار وزیراعظم سے متعلق تھا، اس لئے عدالت عظمیٰ نے بہرصورت نواز شریف کو محصور کرنا ضروری سمجھا۔ عدالت کے جج چپراسی اور وزیراعظم کو مساوی درجہ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ خود وزیراعظم کے خلاف معاملہ میں ویسی گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عام طور سے دیکھنے میں نہیں آتی تو مساوات کے اس اصول کی خلاف ورزی کا آغاز از خود ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر حسین نواز کو تحقیقاتی کمیٹی کے دو ارکان پر اعتماد نہیں ہے تو عدالت پھر بھی انہی کے ذریعے تحقیقات مکمل کروانے کا عزم ظاہر کرکے کون سے اصول قانون یا مساوات کو فروغ دے رہی ہے۔
آج کی سماعت میں سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اداروں کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن بنچ کے ارکان پاناما کیس میں لکھے ہوئے فیصلہ کو خود ہی غور سے ایک بار پھر پڑھ لیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ عدالت نے ہی مملکت کے اہم ترین اداروں اور ان کے سربراہوں کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ حکومت بھی مملکت کا ایک ادارہ ہے۔ لیکن آج پاناما کیس کے ارکان نے اسے مافیا قرار دے کر دہشت گرد اور بدعنوان کہا ہے۔ کسی بھی نظام میں یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ صرف ایک ادارہ ہی درست اور اہل ہو اور باقی ادارے ناقابل اعتبار ٹھہرا دیئے جائیں۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)